حُر ثقلین
آج کل پاکستانی سماج کا اہم مسلہ سچ کا فقدان ہے۔اب نہ تو سچائی کو بیان کیا جاتا ہے اور اگر کوئی سچ بیان کر بھی دے تو اسے تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔صرف اپنے مفاد اور پسند کی باتوں کو ہی درست اور حق تسلیم کرنا آج کی مقبول روایت بن چکی ہے۔جب کسی معاشرے میں سچائی کو تسلیم نہ کیا جاتا ہو تو اس معاشرے میں صرف ظلم ہی پنپ سکتا ہے اور عدل و انصا ف کا نظام قائم ہو نا ممکن نہیں ہوتا۔ ملک میں اعلیٰ اور عمدہ روایات کو فروغ دینے کی ذمہ داری حکمران طبقے پر ہی لاگو ہو تی ہے۔اگر حکمران ہی سچ سے منہ موڑ لیں تو پھر اس ملک کی اعلیٰ روایات مٹی میں دفن ہو جاتی ہیں۔جھوٹ اور اقربا پروری نے اس ملک کی بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔8اگست کو کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکہ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے قائم کردہ کمیشن کی رپورٹ سامنے آچکی ہے۔سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مبنی ایک رکنی کمیشن نے 56دنوں کی کاروائی کے بعد جو نتائج دیے ہیں وہ قوم کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کی بھی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ اگرچہ کہ یہ ایک تفصیلی رپورٹ ہے اور اس میں بہت سی باتوں کا ذکر موجود ہے مگر یہاں صرف اس رپورٹ کے دو بنیادی نکات کا ذکر کرنا مقصود ہے کیونکہ جھوٹ اور اقربا پروری ہی مثبت نتائج کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
اس رپورٹ کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچنا کوئی مشکل نہیں رہا کہ پاکستان جو جنگ دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے خلاف لڑ رہا ہے اسے نتیجہ خیز بنانے کے لیے پُر خلوص اور سچی کوششوں کا فقدان رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان اب تک انتہاء پسندی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔اس رپورٹ نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اور اس کے نتائج پر بھی کئی ایک سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ہمارے جوانوں کی قربانیاں لازوال ضرور ہیں مگر حکمرانوں کی نیت میں بال کا ہونا اس پلان کو بار آور نہیں ہونے دے رہا۔اس رپورٹ کا پہلا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ 8اگست کے سانحہ پر بلوچستان اور وفاق کے وزرائے د اخلہ اور صوبائی وزیر اعلیٰ نے جھوٹ بولا اور قوم کے سامنے غلط بیانی کی۔ اس رپورٹ کا دوسرا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اداروں کو سیاسی مداخلت اور اقربا پروری کی بنا پر تباہ کر دیا گیاہے۔اہل اور قابل لوگوں کو ہٹا کر من پسند افراد کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا گیا جس کی بنیاد پر ان اداروں کی کارکردگی خراب ہوئی ہے۔وفاقی وزیر داخلہ اوران کی وزارت کی فعالیت پر بھی سخت سوالات اٹھائے گئے ہیں ۔اس رپورٹ نے نیشنل ایکشن پلان کو ایک بے معنی اور بے سمت پلان قرار دیا ہے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے کا لعدم تنظیموں کی سرگرمیاں جا ری ہیں۔ان کے لیڈروں کے بیانات نشر اور شائع ہو رہے ۔جب سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے کمیشن اپنی رپورٹ پیش کرنے جا رہا تھا تو حکومت نے عدالت سے درخواست کی کہ اس رپورٹ کو عام نہ کیا جائے بلکہ خفیہ رکھا جائے مگر عدالت نے یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے اس رپورٹ کو عام کر دیا۔حکومت کی یہ درخواست اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ہمارے حکمران سچ سے کس قدر خوف زدہ ہیں اور وہ اس کا سامنا نہیں کر پاتے ہیں۔پانامہ لیکس کے معاملے پر وزیر اعظم کی تقاریر بھی متنازع ہو چکی ہیں اور ان کی حقانیت بھی مشکوک ہو رہی ہے ان پر بھی الزام لگ چکا ہے کہ انہوں نے جھوٹ بولا ہے۔اب اس کمیشن نے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ اور وفاقی وزیر داخلہ کو بھی جھوٹا قرار دیا ہے۔کیا ان حالات میں ان شخصیات پر آرٹیکل 62،63کا اطلاق نہیں ہوتا ہے؟یہاں اقربا پروری کی طاقت کے سامنے قانون کی خاموشی معاشرے کے زوال کا سبب بن رہی ہے۔
یہ امر طے شدہ ہے کہ حکمرانوں کے رویوں اور ان کی فکر و سوچ کا اثر عوام پر پڑتا ہے۔عوام حکمران طبقے کی باتوں کو جلد اپناتے ہیں۔اگر حکمران جھوٹ اور اقربا پروری کو پسند کرتے ہوں تو یہی رویہ عوام میں مقبول بن جائے گا اور ہر جگہ جھوٹ اور اقربا پروری کا دور دورہ ہو گا۔یہی چیزیں معاشرے کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔لہذا ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ اس قوم پر رحم کریں اور کم ازکم اس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ذمہ دار افراد کو قانون کے دائرے میں لائیں تاکہ عام آدمی کو بھی قانون کی اہمیت کا اندازہ ہو اور وہ بھی اس کا دل سے احترام کرے۔اگر حکمرانوں کی روش یوں ہی رہی اور جھوٹ واقربا پروری کا دور ایسا ہی رہا تو اس انسانی معاشرے کو جنگلی معاشرے میں تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔