(قاسم یعقوب)
مکالمہ صرف دو افراد کے درمیان گفتگو کا نام نہیں بلکہ یہ ایک تہذیب، رواداری اور برداشت کا عملی نمونہ بھی ہے۔ چوں کہ ہم تہذیبی سطح پر ابھی نامکمل اور زیرِ تربیت ہیں اس لیے مکالمہ کے آداب اور سلیقوں سے پوری طرح آگاہ نہیں۔ہمارے معاشرے میں کہیں بھی، کسی بھی سطح پر مکالمہ اپنی تہذیبی اور ناگزیر ضرورت کے طور پر رائج نہیں۔
علمی سطح پر مکالمہ اس لیے بند یا رُکا ہُوا ہے کیوں کہ ہم اپنی کہی ہوئی بات کو حتمی اور آخری سمجھتے ہیں۔دوسروں کی بات اس وقت قبول کی جاتی ہے جب اُس کا ردعمل دینا کسی غیرت اورقومی یا مذہبی مسئلے کی صورت آن پڑے۔یہ جواب یا ردعمل مکالمہ نہیں ہوتا بلکہ اپنے آپ کو محفوظ کرنا یا دوسروں کا منہ بند کرنا غرض ہوتا ہے۔
تاریخ کے قدیم اوراق کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ جب ایک علمی ڈسکورس پیدا ہوتا تھا تو اس پر بحث مباحثہ چھڑ جاتا تھا، ہر چھوٹا،بڑا دماغ اُس بحث کو آگے بڑھاتا، اضافہ کرتا یا دلائل سے رد کرتا۔یوں ایک ڈسکورس کی حتمیت کو توڑا جاتا یا اُسے عملی یا علمی سطح پر کارآمد بنایا جاتا۔مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ روایت مغرب میں یونانیوں سے چلتی ہوئی آ رہی ہے اور آج بھی اُسی شدومد سے جاری ہے۔ مگر مشرق میں علمی ڈسکورس کی تقلید یا پیروی پر زیادہ زور دینے کی روایت زمانۂ قدیم سے تاحال ایک ہی نہج پر قائم ہے۔مشرقی آداب میں تقلید کو اولیت دی جاتی ہے۔ کوئی علمی ڈسکورس پیدا ہوتا ہے (جو کہ کسی پہلے ڈسکورس کے رد یا اضافے میں نہیں، بلکہ اپنے طور پر خود ساختہ) تو اُس کی پیروی شروع کر دی جاتی ہے اُس کو علمی سطح پر رد ، اُس کی قطع و برید یا اُس میں اضافے کا امکان بالکل ختم کر دیا جاتا ہے۔شایداس کی ایک وجہ قبول کرلینے یا عدم قبولیت کے فیصلوں میں ہٹ دھرمی یا حتمیت کا غلبہ ہے۔
مکالمہ علمی بحث کرنے کا نام ہے جو لازمی نہیں ایک ہی زمانے کے افراد میں جاری ہو، مکالمہ جاری رہتا ہے۔ صدیوں میں سفر کرتا ہے، کبھی ختم نہیں ہوتا۔صرف اپنی شکلیں بدلتا ہے۔یونانیوں سے مکالمہ ابھی تک جاری ہے، تہذیبوں سے مکالمہ ابھی تک جاری ہے۔ نظریات پر گفتگو ابھی تک جاری ہے۔
ہمارے سماج میں مکالمے کی سب سے زیادہ ضرورت اب ہے۔ کیوں کہ علمی ڈسکورس دیواروں سے جھانک رہے ہیں اور اندر کُود کر آنے ہی والے ہیں۔مگر ہم اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے ہیں۔گفتگو کرنے سے ہم آگے بڑھتے ہیں، کچھ لیتے ہیں تو بہت کچھ دیتے بھی ہیں۔ ہر چیز یونہی نہیں قبول کر لیتے، اپنی قیمت ،اپنی رائے اور اپنے دلائل پر قبول کرتے ہیں۔اپنی فکر جبر یا طاقت سے نہیں دی جاتی بلکہ دلائل کی کسوٹی اُسے قبول کرواتی ہے۔ محبت کا رَس اُسے قابلِ قبول بناتا ہے۔آپ اپنے اردگرد فکروں، نظریات اور علمی ڈسکورسز کا مطالعہ کر سکتے ہیں ،ایک جگہ ہی پڑے ہوئے ہوں گے۔ بغیر کسی مکالمہ یا گفتگو کے، اُن پر بولنا، اُسے مرکزِ تحریر میں لانا یا اُسے قابلِ عمل بنانا یا اُس کی قطع برید کرنا ہم پر منع کر دیا گیا ہے۔
زیادہ دور نہ جائیے صرف مغربی فکر میں رونما ہونے والی نئی فکر مارکسیت کا مطالعہ کر لیجیے۔ مارکسیت آئی تو مکالمہ شروع ہو گیا۔ سرمایہ دار فکر نے بھی کروٹ لی۔ علمی سطح پر ایک ملک تجربہ گاہ کے طور پر مل گیا۔ ایک وقت کے بعد مارکسی فکر بوڑھی ہونے لگی تو مکالمے نے جست بھری اور فرینکفرٹ سکول سامنے آیا جس نے مارکس کی ازسرِ نَو تشریح کی۔بہت سے قباحتوں کو ازالہ کیا اور نئی فکر سے اس بحث کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ (یہ الگ بات کہ ہمارے ہاں مارکسیت کو بھی ایک عقیدہ کے طور پر لیا گیااور اُس میں رد و بدل یا اضافہ ممنوع قرار دے دیا گیا)
بحث مباحثہ اور مکالمہ قوموں کا حسن ہوتے ہیں۔ذہنوں کی خوراک ہوتے ہیں۔جن دماغوں میں’’کلیت‘‘ اور حتمیت‘‘ کی ناگزیت کا ڈیرہ ہو وہاں تعفن گھر کر لیتا ہے۔ ایسے دماغ نفرت کی بُو چھوڑتے ہیں اور موت پھیلاتے ہیں۔
ایک دوسرے کو جگہ دینی ہے تو مکالمہ کیجیے، بحث میں حصہ لیجیے، اپنی باتیں بحث سے منوائیے اور دلائل کی قیمت پر دوسروں کی باتیں بھی مانیے ورنہ کچھ بھی نہیں رہے گا صرف عقیدے اور اُن کے پیروکار رہ جائیں گے مگرزندگی ختم ہو جائے گی