حسین حقانی ویزہ اسکینڈل اور ڈان لیکس کے تانے بانے: محلاتی سازشیں
(اسد علی طور)
سابق پاکستانی سفیر برائے امریکہ حسین حقانی نے دو ہفتے قبل امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون لکھا جس نے پاکستانی میڈیا اور سیاست میں ایک ہاہا کار مچا دی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے معاملے کو قومی سلامتی سے جڑا قرار دے کر تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز دے ڈالی جبکہ حسین حقانی کی “بظاہر” سابقہ جماعت پیپلز پارٹی نے ان سے دوری اختیار کرتے ہوئے انہیں غدار تک کہہ دیا۔۔ جی ہاں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے بقول حسین حقانی غدار ہیں۔
مضمون تو حسین حقانی نے امریکہ میں روسی سفیر کی ٹرمپ انتظامیہ سے ملاقاتوں کے پس منظر میں لکھا تھا کہ ایک سفیر غیر ملکی دارلحکومت میں کیسے کام کرتا ہے۔ لیکن وہ اس مضمون میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی چٹکی کاٹ گئے۔ حسین حقانی کے مضمون میں وجہ تنازع بننے والی لائن صرف یہ تھی کہ میں نے پاکستان میں امریکی سی آئی اے اہلکاروں کی تعیناتی کی اوبامہ انتظامیہ کی درخواست کی منظوری اس وقت کی پاکستانی سویلین قیادت سے لی۔ جس سے امریکہ کو اسامہ بن لادن ڈھونڈنے میں مدد ملی۔
پاکستانی اسکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے طالب سیاستدانوں اور مبینہ ترجمان صحافیوں و دفاعی تجزیہ کاروں نے فوری طور پر شور شروع کردیا کہ دیکھا ہم تو ایبٹ آباد آپریشن کے بعد سے یہ خبر دے رہے تھے کہ پی پی دور میں دس ہزار امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں کو ویزے جاری کر کے پاکستانی کی اسکیورٹی کو خطرے میں ڈالا گئے۔ گو کہ حسین حقانی نے اپنے آرٹیکل کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سفیر اپنے ہاتھ سے ویزے جاری نہیں کرتا بلکہ اس کے لیے سفارتخانے میں ویزا سیکشن ہوتا ہے جس میں آئی ایس آئی کے افسران بھی بیٹھے ہوتے ہیں جن کی کلئرینس کے بعد ہی ویزے جاری ہوتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا حسین حقانی جیسا بہترین حکمت کار اور پاکستان کی تاریخ کے پسِ منظر میں دو انتہائی دلچسپ تحقیقاتی کتب کا مصنف نہیں جانتا تھا کہ وہ جو لکھ رہا ہے اس پر کیا طوفان آئے گا۔
معاملے پر سینیٹ میں بحث کرتے ہوئے مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز نے الزام لگایا ہے کہ 2010 میں پاکستانی وزارتِ داخلہ نے ایک خط کے ذریعے حسین حقانی کو ویزوں کے اجرا کی اجازت دی۔ جس کے بعد امریکیوں کو جاری ہونے والے ویزوں کی تعداد بڑھ گئی۔ مشیرِ خارجہ کے بیان کے بعد میڈیا کو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا ایک خط لیک کیا گی۔ خط میں وزیراعظم نے پاکستان میں متعلقہ حکام کو ہر ویزا درخواست کی آگاہی کے بغیر ویزا جاری کرنے کا اختیار حسین حقانی کو دیا تھا۔ مشیر خارجہ کی معلومات میں وزارتِ داخلہ کا خط اور لیک کی گئی دستاویز دراصل وزیراعظم سیکریٹریٹ کا خط ہے۔ معلومات کا یہ تضاد اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ خط مبینہ طور پر کسی ریاستی ادارے نے لیک کیا ہے کیونکہ اگر یہ خط حکومت لیک کرتی تو مشیر خارجہ بھی ملبہ سابق وزیراعظم پر ڈالتے وزارتِ داخلہ پر نہیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے خط کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ خط میں نے اپنے ہاتھ سے حسین حقانی کے حوالے نہیں کیا بلکہ خط طے شدہ طریقہ کار کے مطابق متعلقہ دفاتر کے توسط سے حسین حقانی کو بھجوایا گیا اور یہ خط تمام متعقلہ حکام کے علم میں تھا جو اب خاموش ہیں۔
سابق وزیراعظم کا اشارہ بڑا واضح ہے کہ وہ متعلقہ حکام تب کی عسکری قیادت ہے۔ اگر خط کو دیکھا جائے تو اس پر وزیراعظم کی پرنسپل سیکریٹری نرگس سیٹھی، سیکرٹری داخلہ اور ایڈیشنل سیکریٹری کے دستخط موجود ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ تب کی بیورو کریسی ان احکامات کو جاری کرنے میں شامل تھی اور کسی قسم کی “چین آف کمانڈ” کو توڑ کر خط نہیں بھجوایا گیا۔
جہاں تک عسکری حکام کا تعلق ہے تو یقینی بات ہے وہ اس کا علم رکھتے تھے کیونکہ جب اتنے حساس معاملے پر فیصلہ لیا جاتا ہے تو سب اسٹیک ہولڈرز کا آن بورڈ ہونا ضروری ہے۔ ورنہ ویزوں کے اجرا میں ملنے والے ان اختیارات پر حسین حقانی کو ویزا سیکشن میں تعینات آئی ایس آئی کے کرنل اور دفاعی اتاشی کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا۔ لیکن ایجنسی کے نمائندوں کو جب یہاں ان کے اداروں کی طرف اس اہم پالیسی شفٹ سے آگاہ کردیا گیا ہوگا تو انہوں نے بھی اس حکم کو بغیر کسی تامل کے قبول کرلیا۔ اگر قبول نہ کرنا ہوتا تو وہ یہ خط تب ہی میڈیا کو لیک کرکے اس پالیسی کو ڈی ریل کرسکتے تھے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی اتحادی ہے اور امریکہ کی طرف سے ملنے والے کولیشن سپورٹ فنڈ کی سب سے بڑی وصول کنندہ بھی ہماری فوج ہے۔ اس لیے ایسے کسی بھی اسٹریٹجک فیصلے میں کیسے ممکن تھا کہ عسکری قیادت کو اعتماد میں نہ لیا جاتا۔ یہ کیسے مانا جاسکتا ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد اچانک پاکستانی عسکری حکام پر یہ واضح ہوا کہ دس ہزار امریکیوں کو سول حکومت نے ویزے جاری کیے تھے اور وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے، یہ تو قومی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا گیا۔
یہاں ایک عام قاری کی سمجھ کے لیے بتاتے چلیں کہ اس فیصلے کے بعد بھی یہ نہیں ہوا ہوگا کہ حسین حقانی نے ویزا اسٹیکرز براہِ راست اپنے دفتر سے امریکی پاسپورٹوں پر خود لگانے شروع کردئیے ہوں گے۔ بلکہ صرف اتنا ہوا ہوگا کہ جن امریکی اہلکاروں کی ویزا درخواستیں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی سفارش کے ساتھ آتی ہوں گی حسین حقانی ان کو منظور کرکے ویزا سیکشن بھجوا دیتے ہوں گے اور پاکستان میں دفترِ خارجہ کی منظوری اور اسکیورٹی ایجنسیوں کی کلیرنس کے لیے کی جانی والی تحقیقات کے لمبے انتظار کے بغیر یہ ویزے جاری ہوجاتے ہوں گے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جن اہلکاروں کے پاکستان جانے کا مقصد نہیں بتایا جاتا ہوگا ان کے ویزے جاری یا مسترد کرنے کا فیصلہ روایتی طریقہ کار کے مطابق ہی ہوتا ہوگا۔
آپ اس کو یوں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ ایسے امریکی اہلکاروں کے ویزوں کے اجرا میں تیزی لانے کا فریم ورک تھا جن کی تعیناتی کا مقصد واضح ہوتا تھا۔ اگر وہ اس مقصد سے ہٹ کر کسی بھی قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے تھے تو ان کی ان غیر قانونی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے کی ذمہٰ داری درجن بھر پاکستانی خفیہ ایجنسیوں پر تھی جو ایسی سرگرمیوں کو وفاقی حکومت کے علم میں لاکر ایسے امریکیوں کو ملک بدر کروا سکتے تھے۔ یا خفیہ اداروں نے جس طرح سی آئی اے کے اسٹیشن چیف کا نام میڈیا کو لیک کرکے ان کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا ایسا کوئی غیر روایتی حربہ ہی استعمال کرلیتے۔ میرے لیے تب یہ بات ایک اسکینڈل ہوتی کہ پاکستانی سول قیادت کو لکھا گیا کوئی ایسا خط لیک ہوتا جس میں ان ویزوں کے اجرا کے بعد آنے والے امریکیوں کی غیر قانونی سرگرمیوں پر نام کے ساتھ ان کی ملک بدری کی درخواست کی گئی ہوتی جس کو سول قیادت نے مسترد کیا ہوتا پھر ہم بھی کہتے یہ تو امریکیوں سے ملے ہوئے تھے۔ بظاہر یہ نگرانی کی ذمہ دار خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی لگتی ہے کہ ان کو علم نہیں تھا اور یہ سب ہوتا رہا۔
اگر آپ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد کی جرمن اخبار میں چھپنے والی ضیا خان کی تحقیقاتی اسٹوریز، تحقیقاتی صحافی اعزاز سید کی کتاب اور مشہور امریکی صحافی سیمور ہرش کی ایبٹ آباد آپریشن پر لکھی جانے والی کتاب کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو کہ اس آپریشن کے تانے بانے کیسے بنے گئے، پاکستانی عسکری قیادت کو کیا کچھ معلوم تھا اور اس آپریشن کی ناکامی کی صورت میں پلان بی کیا تھا۔ آپریشن ہوا، اسامہ مارا گیا اور ہماری بین الاقوامی سبکی بھی ہوئی لیکن جو شکوک و شبہات اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کو اپنی دفاعی صلاحیتوں پر پیدا ہوئے اس سے توجہ ہٹانے کے لیے حسین حقانی کی صورت میں قربانی کا بکرا تیار کیا گیا جس کے لیے میمو گیٹ کا تراشا گیا۔
سازشی نظریات کی آکسیجن پر پلنے والی پاکستانی قوم اب یہ سوال نہیں پوچھ رہی کہ دنیا کا مطلوب ترین دہشت گرد پاکستان میں کیسے اتنے سال چھپا رہا اور یہ کن اداروں کی ناکامی تھی بلکہ وہ ایک غیر ضروری بحث میں الجھی رہی کہ امریکیوں کو ویزے کیوں جاری ہوئے۔ تکنیکی اعتبار سے اگر ہم نائن الیون حملوں کے بعد اسامہ بن لادن کو دہشت گرد مان کر امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بنے تھے تو ہم نے امریکیوں کو اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں مدد دے کرکے اپنی بین الاقوامی برادری سے کمٹمنٹ کو ہی پورا کیا ہے اس میں جرم کیسا اور تحقیقات کس بات کی؟ احتساب تو ان کا ہونا چاہیے جس کسی کے فرائض کی ادائیگی میں ایک نوع کی ناکامی سے اسامہ بن لادن دس سال تک پاکستان میں چھپا رہا۔ اور ستر ہزار پاکستانی شہریوں اور اسکیورٹی اہلکاروں کی شہادتیں دے کر بھی پاکستان کو عالمی برادری میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ریاستِ پاکستان پر دہشت گردوں کی پشت پناہی اور دہرا کھیل کھیلنے کا الزام علیحدہ لگے۔
پاکستانی عوام تو اپنی سادگی میں اصل موضوع سے توجہ ہٹانے والی ایسی سازشی تھیوریوں میں الجھ جاتے ہیں لیکن افسوس ایسے پاکستانی صحافیوں پر ہوتا ہے جو کبھی مالی لالچ، کبھی اپنی نااہلی اور کبھی خوف کا شکار ہوکر ایسے اسکینڈلز کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے اور جانتے بوجھتے یا لاعلمی میں عوام کو گمراہ کرنے میں استعمال ہوجاتے ہیں۔ ابھی کچھ ماہ قبل میمو گیٹ جیسا ایک اسکینڈل ڈان لیکس بھی آیا۔ ملک کی سویلین قیادت پر الزام لگا کہ انہوں نے بین الاقوامی برادری میں اپنی ساکھ بنانے کے لیے قومی سلامتی پر ہونے والے انتہائی اہم اجلاس کے فیصلے اور گفتگو کو افشا کرکے اسٹوری لگوائی۔ کور کمانڈرز کانفرنس کی پریس ریلیز میں بھی اسٹوری پر برہمی کا اظہار کیا گیا۔ پورے ملک میں ایک بھونچال آگیا اور ہر کوئی معاملہ کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے لگا دوسری طرف سویلین حکومت نے تین بار اس اسٹوری کے مندرجات کی تردید جاری کی لیکن معاملہ تھا کہ کنٹرول میں ہی نہیں آرہا تھا۔ ہر سیاسی تجزیہ کار اس خبر کو سول قیادت کی نازک معاملات کو ہینڈل نہ کرسکنے کی صلاحیت کے طور پر اور دفاعی تجزیہ کار اس کو فوجی قیادت کو بدنام کرنے کی سازش کی طور پر پیش کررہا تھا۔ کسی نے خبر افشا کرنے والے ذرائع پر تحقیق کرنے اور اس کو افشا کرنے کا مقصد سمجھنے کے لیے ایک سے زیادہ زاویوں پر تجزیہ کرنے کی سنجیدہ کوشش نہ کی۔
اس مضمون میں کچھ ایسی معلومات دے رہا ہوں جو بحران کے دوران دو دوست ممالک کے دارلحکومتوں میں بھجوائے جانے والی رپورٹس تک رسائی رکھنے والے ایک ذریعے کی معلومات پر مبنی ہیں۔ ان رپورٹس میں تمام قیاس آرائیوں اور الزامات کے برعکس قومی سلامتی کے اس اہم اجلاس کی معلومات صحافی کو دینے کا سہرا ریاستی اداروں کی کچھ انتہائی بااثر شخصیات کے سر باندھا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر “یاہو کے ای میل ایڈریس سن شائن” سے یہ معلومات تین مختلف میڈیا ہاؤسز کے پانچ صحافیوں کو ای میل کی گئیں۔
صحافی جانتے تھے کہ اتنی اہم اور سنسنی خیز معلومات ان کو نامعلوم شخص ملک کی خدمت کے لیے نہیں بھجوا رہا بلکہ ان کو استعمال کرنے کے لیے ایک “ٹِپ” دے رہا۔ پانچ میں سے چار صحافیوں نے ان معلومات پر اسکیورٹی رِسک لینے سے گریز کرتے ہوئے کام نہ کیا۔ لیکن ایک صحافی نے ان معلومات کو کراس چیک کرنے پر کام شروع کردیا۔ جب نامعلوم ذرائع کی طرف سے بھجوائی جانے والی معلومات کی تصدیق ہوگئی تو اس صحافی نے اسٹوری اپنے انگریزی روزنامے میں چھاپ دی اور اس کے بعد طاقت کے ایوانوں میں جو ہیجان برپا ہوا وہ سب کو معلوم ہے۔ ملاقات کے تمام حکومتی شرکا کی طرف سے ان معلومات کے افشا ہونے میں اپنے کردار کی صفائیوں کے باوجود وزیراعظم کو اپنے انتہائی قابلِ اعتماد وزیراطلاعات سینیٹر پرویز رشید کا سر دے کر وزرا کا اعلیٰ سطحی وفد جی ایچ کیو بھجوانا پڑا کیونکہ ان دن حکومت کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی لاک ڈاؤن اسلام آباد کی کال کا سامنا تھا۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ اس اسٹوری کے لیک کیے جانے کا مقصد دراصل اسکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ایک فرد کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا حصول اور کچھ اعلیٰ عہدیداروں کی ٹرانسفر رکوانا تھا جس کے لیے ان کا اپنا ادارہ پشت پر موجود نہیں تھا۔ اس خبر کے ذریعے سول اور عسکری قیادت میں تناؤ مقصود تھا تاکہ اسلام آباد بند کرنے کی کوشش کے نتیجے میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے ردِعمل میں جی ٹی روڈ کو گجرات اور گوجرانوالہ کے قریب پلوں پر مبینہ مظاہرین کے قبضے اور موٹروے کو بھی مختلف مقامات پر بند
کرکے دارالحکومت کو ملک سے کاٹ دیا جاتا۔
چار سے پانچ روز تک ملک میں تیل کی سپلائی معطل رہتی اور امورِ ریاست بالکل مفلوج دکھائی دیتے جس کے بعد عسکری قیادت پہلے سے موجود ڈان لیکس والے تناؤ کی کیفیت میں سول قیادت سے ملاقات کرتی اور وزیراعظم کو تجویز دیتی کہ وہ عہدہ اپنی پارٹی کی کسی دوسری شخصیت کے حوالے کردیں۔ رپورٹ میں تجزیہ کیا گیا ہے کہ تیس سال سے پنجاب میں وقفوں سے حکومت کرنے والی ن لیگ نے بیورو کریسی، سویلین تحقیقاتی اداروں آئی بی، سپیشل برانچ، سی آئی اے، سی ٹی ڈی اور پولیس میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اس لیے ایسے کسی منصوبے کا ن لیگ کی طرف سے بھانپ لینا اتنی حیرت کی بات نہیں۔
رپورٹ میں مزید تحریر ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے صورتحال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے عمران خان کو پیغام بھجوایا کہ اگر ان کو عہدے سے ہٹانے کی کوئی بھی کوشش ہوئی تو وہ اکیلے گھر نہیں جائیں گے بلکہ پورا نظام ڈی ریل کردیں گے۔ نظام ڈی ریل ہونے کی دھمکی پر عمران خان نے منصوبے کے خالقین سے رابطہ کرکے وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے کسی انتہائی اقدام کی صورت میں پلان بی کا خاکہ طلب کیا اور جب خان صاحب کو کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا تو وہ جان بوجھ کر گھر سے باہر نہ آئے اور خیبرپختونخواہ حکومت کو اسلام آباد پر صرف ٹوکن یلغار کا حکم دے کر حجت تمام کردی۔ لیکن ہمارا میڈیا غلط سمت میں چلنے والی بحث میں الجھا رہا۔
سابق پاکستانی سفارتکار کے مضمون کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے۔ حسین حقانی نے تو مضمون شاید پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کو تنگ کرنے کے لیے لکھا تھا کیونکہ سابق صدر آصف زرداری اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے حالیہ امریکی دوروں میں حسین حقانی کی درخواستوں کے باوجود ملاقات سے انکار کردیا تھا۔ مگر مضمون آنے کے بعد جو سیاست ہورہی ہے اس پر غور کی ضرورت ہے کہ کیا اس مضمون کی آڑ میں ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ جاری کرنے کے لیے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے یا ن لیگ پیپلزپارٹی کے اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہونے کی کوششوں کو ناکام کرنے میں لگی ہوئی ہے یا اسٹیبلشمنٹ میں موجود بعض عناصر مستقبل کی
نئی پیش بندی میں مصروف ہیں۔