(تنویر احمد)
تاریخی بنڈونگ کانفرنس 1955میں منعقد ہو ئی۔ کانفرنس کے روایتی اجلاسوں کے بعد ایک غیر رسمی گفت گو میں انڈونیشیاکے صدر سوئیکارنو نے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو سے کہا، یہ تم کس چکر میں پھنس گئے ہو۔سٹیل مل، بھاری صنعتوں کے کارخانے، دریاؤں پر ڈیموں کی تعمیر، نہروں کی کھدائی۔کارخانے لگانا صنعت کار کا کام ہے،بند بنانا انجینئر کا کام ہے۔ یہ کام ایک عام آدمی کر سکتا ہے۔میرا اور تمہارا کام تعمیر ہے۔ فرد ، معاشرے اور قوم کی تعمیر ۔ہم نے اس آدمی کو جو کل تک بدیسی آقا کا بے زبان غلام تھا اسے خود دار اور غیرت مند انسان بنا نا ہے۔ہم کارخانہ دار نہیں ، ہم تاریخ ساز لو گ ہیں۔
یہ ہمارے حکمران کس چکر میں پھنس گئے ہیں۔پلوں کی تعمیر، سڑکوں کے جال، فلائی اورز کے دراز سلسلے، میٹرو ٹرینوں کی دھن، اورنج ٹرین سے لگن، موٹر ویز سے عشق ۔ ان حکمرانوں کی ترجیحات میں فزیکل انفراسٹرکچر کی تعمیر تو ہے لیکن فرد، قوم اور معاشرے کی تعمیر کہاں کھو گئی ہے۔یہ سار دن اور ساری رات اپنے ترقیاتی کاموں کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں ۔ اپنے آپ کو تاریخ ساز ثابت کرنے کے لئے ان کے درباری بھونپو دن رات ٹی وی اسکرینوں پر قوم کی سمع خراشی کرتے رہتے ہیں۔کیا دو چار سٹرکیں، لاہور کی تعمیر و ترقی، اسلام آباد اور روالپنڈی میں میٹرو ٹرین کی تعمیر اور ایک آدھ پاور پلانٹ ان کی کارکردگی کا ثبوت ہے کہ انہوں نے تاریخ کا پہیہ بدل کر رکھا دیا۔اگرایسا ہے تو ان سے بڑا احمق روئے زمین پر کوئی نہیں پایا جاتا اور اگر قوم یہ سمجھتی ہے تواس سے زیادہ چغد قوم اس کرہ ارض پر کہیں نہیں پائی جاتی۔ان چند ترقیاتی کاموں کے علاوہ اس حکومت نے سماج میں پنپنے والے امراض کے لئے کیا اقدامات کئے اس بارے میں ان کا نامہ اعمال کورے کاغذ کی طرح خالی ہے ع
کورے کاغذ کی سپیدی پہ ترس آتا ہے
نامہ شوق میں لکھنے کو رہا کچھ نہیں
عربی کا مقولہ ہے کہ رعایا اپنے حکمران کے نقش قدم پر چلتی ہے۔ اب حکمرانوں کی یہ حالت زار ہے کہ انہیں دولت کے انبار لگانے کا ایسا خبط ہے جس کے لئے جائز و ناجائز کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ پانامہ لیکس میں متضاد بیانات کے انبار تلے دبے ہوا حکمران طبقہ کس طرح فرد اور قوم کی تعمیر کرے گا ؟ یہ بھی اس صدی کا سب سے بھونڈا مذاق ہو گا۔ حکمران اخلاقیات کے سب سے اونچے منارے پر براجمان ہوکر اپنے آ پ کو ایک قابل تقلید مثال میں ڈھالتا ہے ۔ یہاں صورت حال یہ ہے کہ اخلاقیات کا دور دور تک واسطہ نہیں اور یہ چلے ہیں فرد اور قوم کی تعمیر کرنے۔۔ اگر قرون اولیٰ کی روشن مثالیں ایک افسانہ معلوم ہوتی ہیں تو آج کی دنیا میں ہی دیکھ لو کہ اخلاقی بنیادوں پر حکمران کس طرح اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کر تے ہیں۔لیکن یہاں پورے زور و شور سے الٹی گنگا بہائی جا رہی ہے۔ اب اس قوم میں خاک بلند اخلاقی اصول جنم لیں گے جن کے حکمران اربوں روپے کی کرپشن اور چوری کے بعد ڈکار بھی نہ لیں اورڈھٹائی سے اسے ہضم کر جائیں۔فرد اور قوم کی تعمیر میں ایک اور اہم نکتہ خود دار اور غیرت مند فرد اور قوم بننا ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ اس خود داری اور غیرت مندی کو کس طرح گروی رکھ رہا ہے اس کا مظہر ملک کی تاریخ کے بلند ترین قرضے جو مہنگے شرح سود پر لئے گئے ہیں انہوں اس ملک کی پالیسی سازی سے خودداری و غیرت مندی کے عناصر کو چھان لیا ہے۔قوم کا مستقبل گروی رکھ کر اب کہاں کی خود داری و غیرت مندی؟؟؟ اس حکمران ٹولے نے حق حکمرانی کو اپنے اور اپنے خاندان کے نام پر رجسٹرد کروایا ہوا ہے۔ ان کی لغت میں عوام فقط بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہیں جن کے پاس سے فہم و شعو ر کا گزر تک نہیں ہے۔ موروثی سیاست کی دلدل میں دھنسے ہوایہ حکمران طبقہ ایک توانا قوم کی تعمیر کیسے کرپائے گا؟ جن کی ترجیحات میں اپنی اولاد کی بہتری کے علاوہ کچھ بھی قابل غور نہیں۔ قوم کے بچے گلیوں میں خاک پھانکتے پھریں ان کی بلا سے ، ان کے بچے حکمرانی کے لئے تربیتی مراحل خوش اسلوبی سے طے کر رہے ہیں۔پاکستان کے سماج کو لاحق امراض میں سب سے بڑا مرض انتہا پسندی کا ہے چاہے وہ مذہبی ہو یا فرقہ وارانہ ۔ یہ خون آشام بلا سماج میں بہت گہرائی میں اپنے پنجے گاڑ چکی ہے۔مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف ایک فوجی آپریشن نے شروع کیا گیا جو خاصی بڑی حد تک دہشت گردی کا فزیکل انفراسٹرکچر ختم کرنے میں کامیاب ٹھہرا لیکن اس فکر اور سوچ کی بیخ کنی کے لئے حکومت وقت نے کیا اقدامات کئے جو متشدد رویوں کو ہوا دیتے ہیں۔نیشنل ایکشن پلان میں متشدد ریوں کی آبیاری کرنے والی جس فکر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا اعلان کیا گیا تھا اس پر عمل در آمد ہنوز تشنہ طلب ہے ۔فرد اور قوم کی تعمیر کے لئے تعلیم کا شعبہ سب سے اہم ہے ۔ا س شعبے کی زبوں حالی کو ہم اپنے آنکھوں سے دیکھتے چلے جا رہے ہیں کہ اس تعلیمی نظام میں ڈگری کے حصول سے لے کر نوکری کے حصول تک کے سارے لوازمات موجود ہیں لیکن تحقیق و ایجاد کے وہ جواہر جو ملک و قوم کی ترقی کے لئے اہم جنس ہے وہ قطعی طور پر عنقا ہے۔ صحت کا میدان بھی ایسی ہی زبوں حالی کا شکار ہے ۔ حکمران باہر کے مہنگے ہسپتالوں میں علاج کے مستفیض ہو کر توانا اور عوام یہاں کے شکستہ و ریخت کا شکار ہسپتالوں میں پڑے پڑے بیمار قوم بنتے جا رہے ہیں۔ اب ایسی بیمار قوم کیسے ستاروں پر کمند ڈال پائے گی کہ جس کے حکمران بقول شاعر ع
تعمیر قصر علم و ہنر وہ کریں گے کیا
جو شکل سے ہی لگتے ہیں تخریب کار سے