(مغفور احمد)
امریکی مارکیٹوں میں جلد ہی”آبِ خشک”بکتا ہوا نظر آئے گا۔یہ سطر پڑھ کر یقیناََ آپ الجھن میں مبتلا ہو گئے ہوں گے کہ پانی خشک کیسے ہو سکتا ہے؟یہ دونوں تو متضاد چیزیں ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ امریکی محقیقین نے “آبِ خشک”تخلیق کر لیا ہے۔دراصل ماہرین نے آبی قطروں کو “سلیکا”کے حصار میں قید کر کے انھیں آب خشک کا نام دیا ہے۔
یونیورسٹی آف لیور پول کی تحقیقی ٹیم نے ایک خاص ٹیکنیک کے ذریعے پانی کے قطروں کو انفرادی طور پر سلیکا کی کوٹنگ میں بند کر دیا۔ریسرچ ٹیم نے اپنی یہ تخلیق پہلی بار گزشتہ دنوں میں بوسٹن میں ہونے والے امریکی کیمیکل سوسائٹی کے 240ویں اجلاس میں پیش کی۔ “آب خشک”کو تجارتی طور پر خاصی اہمیت کا حامل سمجھا جارہا ہے۔”آب خشک” عام پانی کے مقابلے میں تین گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جزب کر سکتا ہے۔اس طرح یہ دنیا کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت جیسے گلوبل وارمنگ بھی کہا جاتا ہے پچھلے کئی برسوں سے عالمی ایشو بنا ہوا ہے۔گلوبل وارمنگ عالمی آب وہوا میں تبدیلیوں کا سبب بن رہی ہے جس کی وجہ سے کہیں شدید بارشیں ہو رہی ہیں اور کہیں خشک سالی نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے جا نوروں اور پودوں کی متعدد انواع کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔گلوبل وارمنگ کے حوالے سے متعدد تحقیقی مطالعے پیش کیے جا چکے ہیں۔جن میں بتایا گیا ہے کہ قطبین پر جمی برف اور گلےؤرز کے پگھلنے سے سطح سمندر بلند ہو رہی ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو رواں صدی تک کئی ساحلی شہر غرق ہو جائیں گے۔
گزشتہ ماہ پاکستان میں آنے والے تاریخ کے بدترین سیلاب اور روس میں جاری خشک سالی کی لہر کے بعد یہ مسئلہ ایک بار پھر ابھر کر سامنے آیا ہے۔عالمی سطح پر گلوبل وارمنگ پر کنڑول کے لیے موثراقدامات کرنے کی ضرورت کا ادارک بھی کیا جارہا ہے۔گلوبل وارمنگ کو جنم دینے میں گرین ہاؤس گیسوں باالخصوص کاربن ڈائی آکسائیڈ کا کلیدی کردار ہے۔فضا میں اس گیس کا مسلسل وسیع ہوتا حجم کرّہ ارض کو گرما رہا ہے۔ماہرین ماحولیات ایسے اقدامات برؤے کار لانے پر زور دیتے آرہے ہیں جن سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی کی جاسکے یا فضامیں اس گیس کا حجم محدود کیا جا سکے اس سلسلے میں بایو فیول کی تخلیق سمیت مختلف اقدامات کیے گئے،لیکن صورت حال جوں کی توں ہے۔بلکہ گھمبیر ہوتی جارہی ہے۔گلوبل وارمنگ کے دیو سے نمٹنے کے لیے کثیر جہتی اقدامات کی ضرورت ہے۔اس ضمن میں “آب خشک” کو کاربن کے انجذاب کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا سکے تو اس سے گلوبل وارمنگ پر قابو پانے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔
“آب خشک”کا ایک اور استعمال ہائیڈروجن اور میلک ایسڈ کے باہمی تعامل کے دوران عمل انگیز کے طور پر ہو گا ۔ہائیڈروجن اور میلک ایسڈ کے درمیان کیمیائی تعامل کے نتیجے میں سکینک ایسڈ جنم لیتا ہے،جو ادویہ،غذائی اجزاء اور دیگر اشیائے صرف کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔”آب خشک”کی وجہ سے ہائیڈروجن اور میلک ایسڈ کے درمیان تعامل کی رفتار بڑھ جائے گی جس سے وقت اور توانائی کی بچت ہو گی۔پروفیسر اینڈریو کوپر نے یہ بھی دریافت کیا ہے کہ ’’آبِ خشک‘‘ سے ممیتھین گیس بھی سٹور کی جا سکتی ہے جو کہ نیچرل گیس کا ایک جزو ہے اور یہ مستقبل میںEnergy Sourceکے لیے بھی استعمال میں لائی جا سکتی ہے۔جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’آبِ خشک‘‘ میں Energyبھی سٹور ہو سکتی ہے۔میتھین گیس جو ’’آبِ خشک‘‘ میں سٹور ہے گاڑیوں کے ایندھن کے طور پر بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ان سے باتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’آبِ خشک‘‘ بڑی کارآمد اور حیرت انگیز ایجاد ہے جس میں 95%پانی اورباقی 5%سیلکا ہے اور پھر بھی پاؤڈر کی شکل میں ہے۔’’آبِ خشک‘‘ ہمیں آئندہ آنے والے وقتوں میں بڑا فائدہ دے سکتا ہے جیسے کہ گلوبل وارمنگ۔۔۔ جس میں پوری دنیا ہی مبتلا ہے ۔ایسی صورت حال میں ’’آبِ خشک ‘‘ سے ہم Energyیعنی میتھین گیس بھی آنے وقتوں کے لیے بچا سکتے ہیں۔جس سے Energy Crisisکم کرنے میں خاطر خواہ مدد ملے گی۔