خواہشاتِ نا تمام اور قندیل بلوچ
از، فارینہ الماس
زندگی محض خواہشاتِ نا تمام کا برپا کردہ کوئی میدان کارزار تو نہیں ،لیکن خواب،امید اور تمنا ہی اس کے سفر کو جواز عطا کرتے ہیں ۔ اسے حسرتوں اور آرزوؤں کے بدلے میں خوشی اور اطمینان کے پرسکون اور سرسبزجزیرے عطا ہوتے ہیں۔اگر یہ نہ ہوں تو انسان کا میدان عمل مفقود و مفلوج ہو کر رہ جائے۔ان حسرتوں کی ہمراہی ہمیں ہمارے ہونے اور جینے کا احساس دیتی ہے یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہونا چاہیے ورنہ زندگی کی تابانی کی سانسیں اکھڑ جائیں گی اور ہمارے حوصلوں کے پنچھی ملک عدم سدھار جائیں گے۔ہاں ایک شرط بحرحال قائم رہنی چاہیے تمناؤں کے اس سفر پر چلتے ہوئے انہیں اتنا لامتناہی نہیں کر لینا چاہیے کہ کہیں انکا کنارہ ہی نظر نہ پڑے۔ان خواہشوں کو اتنا اندھا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں ان کے علاوہ کچھ دکھائی ہی نہ دے ۔ان خواہشات کا پیچھا کرتے کرتے اتنا خود غرض بھی نہ بنیں کہ خود زندگی کی ہی قدر،احترام اور انا کی رگیں بھی اپنے ہاتھوں کاٹ بیٹھیں۔سفر کی ایک شرط بھی ہے کہ بلند افکار اور بلند کرداری کے اوصاف کو کہیں بھی کبھی بھی فراموش نہ ہونے دیا جائے۔اگر زندگی میں کچھ کرنے اور کر دکھانے کی تڑپ ہو لیکن اس کی انا اور خودی کو ٹھیس نہ پہنچائی جائے تو یہ سفر کامیابی و کامرانی کو آپ کے در کی باندی ہی نہیں بنائے گا بلکہ آپ کے حال اور مستقبل کو سنوارتے ہوئے آپ کی راہوں کو تحقیق و ایجاد کے رستوں پر بھی ڈال دے گا جس کا دائرہ کار پوری انسانیت کے وسیع ترمفاد تک محیط ہوجائے گا ۔ اگر ہمیں اپنی آرزوئیں کامیاب ہوتی نظر نہ آرہی ہوں تو پھر رک کر سوچنا چاہیے کہ یا تو یہ آرزوئیں ہماری استطاعت سے باہر ہیں اور ہمیں انہیں سمیٹنا چاہیے یا پھر ان مقاصد کو بدل لینا چاہیے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو ان آرزوؤں کے ہم پلہ صلاحیت خود میں پیدا کرنے کی سعی تو بحرحال ان کا حق بنتی ہے۔آج ہم جس لڑکی کے انجام کار کو موضوع بحث بنائے بیٹھے ہیں ۔وہ ایسی ہی ایک بھٹکی ہوئی زندگی کی کہانی ہے جو لامتناہی خواہشوں کے اندھے سفر کی بھینٹ چڑھ گئی۔اسکے پاس کوئی فن تھا نہ کمال ۔لیکن وہ بنا کسی صلاحیت اور ہنر کے آگے بڑھنا چاہتی تھی اور اس سفر میں ہر سودا اسے منظور تھا پھر اس نے وہ راستہ اپنا لیا جو سراسر گمراہی کا راستہ تھا ۔یہ تو زندگی کی تزلیل اور تحقیرہی ہے کہ ہم اپنی خواہشوں کے ہر ممکن حصول کی خاطر اسکے وقار اور احترام کو اس سنسار کے قدموں تلے روندنے کو پیش کر دیں۔قندیل دراصل ایسی ہی بھیانک اور بے لگام آرزوؤں کی داستان تھی جو پہلی دفعہ سننے میں نہیں آئی۔آج کے دور میں پھیلی ہوئی مادیت پرستی نے ہزاروں لڑکیوں کو خواہشات کی بھینٹ چڑھایا ہے۔ہم قندیل کے قصے کو غیرت کے قتل کا نام دے کرایک طرف تو قاتل کو قانون کی آڑ دے کر بھاگ نکلنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں اور دوسری طرف غیرت کے نام پر قتل ہوئی ہزاروں ایسی مظلوم لڑکیوں سے نا انصافی کر رہے ہیں جن کا تو کوئی قصور بھی نہ تھا ۔نہ ہی وہ وقت اور حالات سے بغاوت کر سکیں اور نہ ہی وہ اپنی اندھی خواہشات کے پیروں تلے کسی کی عزت روند کر فرار ہوئیں ۔ہزاروں واقعات تو ایسے ہیں جن میں محض جائیداد بچانے کے لئے لڑکیوں پر غیرت کا جھوٹا الزام لگا کرانہیں مار دیا گیا ۔اور کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جن میں لڑکی نے اپنے قبائلی نظام سے بغاوت کرتے ہوئے محض اتنا ہی کیا کہ کسی دوسری ذات برادری کے لڑکے کو اپنا مسیحا سمجھ کر محض محبت ہی کا جرم کیا اور اس جرم کی پاداش میں اسے سنگسار کر دیا گیا ۔یہ سراسر ان بے زبان اور بے قصور لڑکیوں سے نا انصافی ہے کہ انہیں اک یکسر مختلف کہانی اور واقعے سے منسوب کر دیا جائے۔قندیل بلوچ کا قتل ایک سادہ قتل ہے یہ بھی ممکن ہے کہ اسکے پیچھے وہ لوگ ملوث ہوں جنہیں اپنے کچے چٹھے کھلنے کا خوف لاحق ہو گیا ہو۔وگرنہ ایک بھائی کی غیرت کچھ عرصہ پہلے ہی کیوں نہ جاگ گئی جب کہ اس کے چرچے کھلاڑیوں کے نام کے ساتھ ہو رہے تھے۔وہ جس راستے پر چل رہی تھی اگر بھائی کے ہاتھوں قتل نہ بھی ہوتی تو بھی اس کی جان کو کوئی بھی دوسرا شخص ایسا نقصان پہنچا سکتا تھا۔ اس کا اپنا اعتراف تھا کہ وہ جو کچھ کر رہی ہے اپنی ذاتی مرضی سے کر رہی ہے اور اسے اس پر کوئی پشیمانی بھی نہیں وہ خود کو کوئی مظلوم لڑکی بھی نہ مانتی تھی ۔اپنی رضا سے ایک انسان سے پسند کی شادی کرنے والی ایک عدد بچے کی ماں جو اپنی مرضی سے دارالامان رہی اور پھر اسے چھوڑ کر وہ کچھ کرتی رہی جو اس نے چاہا پھر وہ مظلوم کیسے ہو سکتی ہے۔ اس نے جو بھی کیا نا سمجھی میں یا کسی کے ورغلانے سے نہیں بلکہ اپنی رضا سے کیا۔اس کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی پچاس فیصد ذمہ دار وہ خود تھی۔وہ نڈر تھی،جرائت مند تھی ۔اگر وہ اپنی خواہشات کو پانا چاہتی تھی تو مثبت راستے بھی ڈھونڈ سکتی تھی لیکن افسوس کہ اس نے اپنی جرأت اور بے باکی کو انتہائی منفی راستوں پر ڈال دیا۔قابل غور امر یہ ہے کہ دارالامان سے سوشل میڈیا تک کا سفر وہ دیہات کی نیم خواندہ لڑکی تنہا کبھی بھی طے نہیں کر سکتی۔ضرور کوئی نہ کوئی اس کے اس سفر میں مددگار رہا ہو گا۔ہمیں اس بات کو کریدنا نہیں چاہیے کہ اس کا تعلق کس کس سے تھا اور اس تعلق کی نوعیت کیا رہی ہو گی ۔ہمیں اسے کسی بدکار ی میں ملوث بھی قرار نہیں دینا چاہیے ۔ہمیں اس کے قتل پر ایسا ہی رنج ہونا چاہیے جیسا عام طور پر ایک انسان کے قتل پر ہوا کرتا ہے۔ہمیں اس کے قاتل سے بھی کوئی ہمدردی نہیں ہونا چاہیے۔خواہ اس نے قتل غیرت کے نام پر قتل کیا ،محض پیسوں کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر کیا یا کسی کے ورغلاوے میں آکر کیا۔لیکن ہمیں اسے حد درجہ مظلوم قرار دے کر،اس پر جذباتی آرٹیکلز لکھ کر، یا دکھ آمیز نظمیں لکھ کر اس کی اس سوچ اور مقاصد کی آبیاری بھی نہیں کرنا چاہیے جو معاشرے میں کل کو ایسی ہی بد چلنی کے رحجان کا باعث بن جائے۔ہمیں اس کے قتل کو نا انصافی اور سفاکی کا نام تو دینا چاہئے لیکن اس کے افعال کی تعریف و توصیف یا اس کی روش کو جرائت مندی قرار دے کر اس کی شخصیت کو رول ماڈل بنا کر پیش نہیں کرنا چاہئے ۔ اگر قندیل بلوچ سے ہٹ کر ایک نظر اپنے معاشرے کی تیزی سے بدلتی روش پر ڈالیں تو شاید دل دہلا دینے والی حقیقتیں سامنے آ کھڑی ہوں گی ۔ہمارے ملک کی ایلیٹ کلاس کے علاوہ اعلیٰ درجوں کی درسگاہوں میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی ڈھیروں لڑکیاں زندگی میں ترقی کے لئے اور اپنی اندھی خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے ایسے ہی شارٹ کٹ اپناتی ہوئی نظر آئیں گی ۔بعد ازاں بدقماش لڑکے ان لڑکیوں کے ساتھ بیتائے ہوئے لمحوں کے عکاسی کلپس اسی سوشل میڈیا پر ڈال کر ان کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔کمال حیرت کا باعث تو یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کی ان بے راہ رویوں سے قطعاًً لا علم رہتے ہیں ۔اس میں ہمارا میڈیا بھی برابر کا شریک ہے جو اچھے اور پرعزم لوگوں کو پروموٹ کرنے کی بجائے وینا ملک اور قندیل بلوچ جیسی لڑکیوں کو پروموٹ کر کے نوجوانوں کو مسخ شدہ آئیڈیلزم کی طرف دھکیل رہا ہے ۔ہم ایک ایسی ہی گمراہ اور بدنصیب قوم بن چکے ہیں جنہیں اتنے سالوں بعد بھی اپنے آئیڈیلز متعین کر نا نہ آسکے۔ہم جدیدیت کی دوڑ میں اپنی شناخت اور تمدن کی دھجیاں اڑانے ہی کو اپنی روشن خیالی کا نام دے رہے ہیں ۔ہمیں خود کو بدلنا چاہیے وقت کے تقاضوں میں ڈھلنا چاہیئے ۔لیکن جدیدیت اور مغربیت کے فرق کو سمجھتے ہوئے۔ہمیں عورت کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر بھی احتجاج کرنا چاہیے ۔قانون اور نظام پر نظر ثانی کی بھی بات کرنا چاہیے بلکہ یہ جنگ لڑنا چاہئے لیکن خدارا قندیل بلوچ کے افعال کو بری الزماں قرار دے کر اس انداز زندگی کو پروموٹ ہرگز نہ کریں ۔ورنہ اور بھی کئی لڑکیاں بظاہر روشن خیال اور آزاد زندگی کو اپنی تمناؤں کی حصول کے لئے ناگزیر جانتے ہوئے اپنا سب کچھ اور اپنی زندگی بھی ہار بیٹھیں گی۔۔