(شیبا اکرم)
’’سوار، گھوڑے کو سرپٹ دوڑا رہا تھا۔ رفتار ایسی تھی کہ پلک جھپکتے ہی یہ جا وہ جا۔ اور ظاہر ہے، ایسی رفتار اس تجربہ کار شہسوار کی صرف تفریح نہیں بلکہ مجبوری بھی تھی۔ اسے بادشاہ سلامت کا کوئی اہم پیغام بر وقت پہنچا کے جنگ کے ممکنہ خطرے کو ٹالنا تھا۔ ذرا سی غفلت اور لمحہ بھر تاخیر کا نتیجہ ہولناک ہو سکتا تھا۔ لیکن اس پر اعتماد ایلچی کے لیے یہ سب کھیل تھا اور وہ کھیل ہی کھیل میں ایسے خطروں کو اتنی آسانی سے مات دے جاتا تھا کہ اگلا خطرہ اس سے نمٹنے سے پہلے اپنی ’’خطرناکی ‘‘ کے پر تولتا تھا اور پھر ہار کی امید پرہی اس سے سامنا کرتا تھا۔ وہ ہواؤں کو مات دے کے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ ہر چیز اس کے سامنے سرنگوں ہو کر اسے راستہ دے رہی تھی۔ راستہ جیسے اس کی رفتار سے ڈر کر خود کو ممکنہ حد تک سمیٹ رہا تھا کہ منزل خود اس کے سامنے آ جائے۔ یعنی یوں کہیے کہ وہ آگے نہیں جا رہا تھا بلکہ منزل اس کے پاس آ رہی تھی۔ سب ٹھیک تھا، لیکن جانے کیا ہوا کہ اس کے کانوں میں بادشاہ کی چیخ و پکار سنائی دی،’’اگر تم نے پیغام پہنچانے میں تاخیر کی تو۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ تو اور اس کے بعد کا انجام اس کے دل میں بیٹھ گیا، لمحوں میں ہزاروں نحوست زدہ خیال اس کے سامنے رکاوٹیں بن کے کھڑے ہو گئے، یہ رکاوٹیں اس کے لئے نئی تھیں، پہلی بار ان کا سامناہوا تھا اور وہ مشاق گھڑ سوار اس کے بعد کے خیالات میں ایسا گرا کہ اسے زندگی میں پہلی بار محسوس ہوا کہ وہ سوار نہیں سواری ہے اور اس کے کاندھوں پر کوئی اورسوار ہو گیا ہے: یہ ’خوف‘ تھا۔ ایسا خوف جس کا خالق انسان خودہوتا ہے اور پھر اپنی تخلیق سے اکثر مات کھا کے اپنی اشرف المخلوقیت کی ذی شرف مسند اپنی تخلیق کے لیے خالی کر دیتا ہے۔
کیا عجیب تضاد ہے کہ حضرت خوف ہر وقت حضرت انسان پر سوار رہتے ہیں کہ انسان سوار ہو کے بھی سواری بن گیا ہے۔ تو کیا فرق پڑتا ہے اگر کوئی یہ کہے کہ ’’خوف، آدمی ہے‘‘ یا پھر’’آدمی ،خوف ہے۔‘‘ ذرا دوڑائیے نظر، اس معاشرے پر، گھروں، سڑکوں اور بازاروں پہ ہر طرف خوف دھندناتا پھر رہا ہے۔ ہر چلتا پھرتا آدمی چلتا پھرتا خوف ہے اور خوف بھی کیا عجیب سوار ہے ’’کہ ہاتھ باگ پر ہے اور پا ہے رکاب میں۔‘‘ خوف آدمی کے اندر زندہ ہے اور آدمی خوف کا ایسا مطیع مردہ گھوڑا ہے کہ جو بغیر چابک کے بھی اس کے ایک اشارے پر یوں سرپٹ دوڑتا ہے کہ گردش وقت بھی اسے یوں رشک کرتی ہے جیسے شاعر اپنے رقیب پر رشک کرتا ہے۔
کہتے ہیں،’’خوف کا وجود کہیں نہیں ہے، سوائے دماغ کے۔‘‘ تو کیا، شاعر سے معذرت کے ساتھ، یہ کہنا بجا ہو گا کہ ’’کہتے ہیں جس کو خوف، خلل ہے دماغ کا‘‘
یہ ’’دماغی خلل‘‘ کیسا متعدی مرض ہے کہ آدمی، آدمی کو چھوتا نہیں اور صرف دوسرے آدمی کے خیال سے ہی، خیال کے نرغے میں آیا آدمی ’’خوف‘‘ کا شکار ہو جاتا ہے۔
والدین کو اولاد سے خوف ہے کہ زندگی کے اس پل صراط پہ ایک قدم بھی ادھر ہوا اور ہمیشہ کے لیے بھٹکے۔ اولاد کو والدین سے، کہ و ہ نئے دور کے مسائل کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔ بھائی، بہن خوف زدہ ہیں کہ گھر کی تقسیم مساوی کیسے ہو، یعنی والدین کے جنازے سے پہلے خیالوں میں اس گھر کا روز جنازہ روز نکلا ہوا ہوتا ہے۔ ساس، بہو سے خوف زدہ ہے اور بہو کو ’’پہلا تاثر، ہی آخری تاثر ہے‘‘ کے خوف کی بیماری ہے۔ تعلیم کی روشنی پھیلانے میں پر عزم نجی سکول کا مالک اس خوف میں ہے کہ اس کے’’دیرینہ آشنا‘‘ سے سکول کی فیس کم کروانے سے کس حد تک بچا جا سکتا ہے اور ادھر والدین اس خوف میں ہیں کہ کس طرح قائل کریں کہ فیس کے علاوہ دیگر اخراجات پہ (بچوں کی سٹیشنری، کتابیں،یونیفارم وغیرہ) میں جس حد تک سودے بازی ممکن ہے وہ کریں۔ دکاندار گاہک کی عقابی نظروں سے اپنا غیر معیار ی مال بچا کر بیچنے کی فکر میں ہے اور گاہک گھر سے نکلتے ہیں اس خوف میں ہے کہ کاش کوئی ایسا یونیورسل فارمولا ہاتھ میں آ جائے کہ دکان دار سے دام اور معیار میں کبھی مات نہ کھائے۔ مالک خادم کے ’خرام خور‘‘ ہونے کا بوجھ دل میں لیے ہوئے ہے اور ملازم کو مالک فرعون کا قریبی رشتہ دار معلوم ہوتا ہے۔ شاعر کو رقیب سے خوف، ادیب کو نقاد کی جانب داری اور نقاد کو ادیب کے ادب کے بہانے کوئی خفیہ مقصد کی تشہیر کا خوف، دوست کو دوست کے مطلبی ہونے کا خوف، خون کے رشتے کو دوسرے خون کے رشتے کے سفید ہو جانے کا ڈر، اور رنگ میں بھنگ کیوں نہ پڑے جب ہر شخص کو دوسرے شخص سے گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کا خوف ہے۔ ہر آدمی کو دوسرے آدمی کے مذہب، مسلک، قوم ، ملک،رنگ اور نسل کا خوف۔ یعنی ’’یہاں سب بکتا ہے‘‘ میں شاید ’سب‘ کا مطلب’’خوف‘ ہے اور خوف بکتا ہی کب ہے،بھلا ؟؟
ایک بار پھر شاعر سے معذرت، کیا ایسا نہیں ہے کہ، ’’دین آدم، فی سبیل اللہ ،’خوف‘ تو پھر آدمی تقدیر کے ہاتھوں کھلونا کب ہے یہ تو خوف کی کٹھ پتلی ہے جسے وہ جیسے چاہے استعمال کرتا ہے، آدمی کا زندگی کے سٹیج میں IN اور Exit کے درمیان کا سارا کردار، سارے مکالمے اور حتٰی کہ حرکات و سکنات کا مصنف خوف ہی ہوتا ہے اور خوف اصل میں ہے کیا، جب کہ یہ حقیقت میں ہے ہی نہیں، اس کا نہ ہو نا انسان کے ہونے پہ بھاری پڑ گیا ہے اور اس کا معمہ شاید to be or not to be کے جیسا ہی ہے، یعنی ’’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘‘۔
ہم سب اپنے اوپر سوار خوف کو اتار اتار کے تھک گئے ہیں، یہ ہٹ دھرم سوار اترتا ہی نہیں ہے، اور پھر کیسے اترے، خوف کاپورا لشکر ہے اورلشکر بھی ایسا کے جس کے سامنے آدمی کی کیفیت یوں ہے کہ ’’لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔‘‘ لیکن ٹھہرئیے، ایک ترکیب ہے اس کو مات دینے کی۔ ہم اپنے سروں پر دوسروں کی ذات سے منسلک خوف اگر کم نہیں کر سکتے توکم از کم ایک کام ممکن ہے کہ ہم وہ خوف جو ہماری ذات سے دوسروں کے کاندھوں پر سوار ہیں ختم کر سکتے ہیں، یہ اتنا ہی آسان ہے جتنا سانس لینا، اور اگر یہ کام بھی مشکل ہے تو پھر آئیں غالب کے ساتھ مل کے یہ نوحہ پڑھیں کہ’’آدمی کو بھی میسر نہیں ،انساں ہونا‘‘۔