(قاسم یعقوب)
فلسفے کی زبان میں استدلال یعنی Reasonسے مُراد وہ ذہنی عمل ہے جو واقعات اور حقائق کو منطقی انداز سے جوڑ سکے یا اُن کی تصدیق کر سکے۔حقائق کو اُن کی اصل کے ساتھ دیکھ لینا اور انھیں ایک دوسرے کے ساتھ ملا کے منطقی نتائج اخذ کر لینے کی صلاحیت Reasoningیامنطقی استدلال کہلاتی ہے۔ استدلالی قوت ہر ذہن کا خاصا نہیں ہوتی۔ اشیا تو باہر (Object)میں موجود ہوتی ہی ہیں مگر اُن سے وابستہ ذہنی تخیلات یا فکری نتائج موضوعی(Subjective)نوعیت کے ہوتے ہیں اسی لیے Reasoning کا عمل خالصتاً موضوعی عمل ہے ہر ذہن کے پاس استدلال کی قوت مختلف ہو سکتی ہے۔ حقائق یا واقعات کے پس منظر میں موجودReasoning کئی طرح کے نتائج مرتب کر سکتی ہے۔ Reasoning کا عمل اجتماعی عمل نہیں بلکہ انفرادی عمل ہوتا ہے ۔جو مشترکہ صفات کی بنا پر ایک طرح کا قرار دیا جا سکتا ہے مگر اسے اجتماعی طریقۂ استدلال نہیں کہہ سکتے۔
فلسفے میںReasoning کی دو بڑی اقسام ہیں ایک استخراجی اور دوسری استقرائی___ان کی استدلائی خصوصیات سے بھی ہم سب واقف ہیں۔ارسطو کے دیے ہوئے ان اسباق سے کون واقف نہیں۔ مگر مجھے Reasoning کی ایک اور شاخ پر گفتگو کرنی ہے اور وہ ہے ’’دانش ورانہ استدلال‘‘ یعنی Intellectual Reasoningّّ______ میں اسے ایک مختلف اور نہایت اہم شاخ سمجھتا ہوں۔
دانش ورانہ استدلال فلسفے کی Reasoning کا ہی ایک حصہ ہے۔ سماج کا دانش ورانہ مطالعہ سماجی حرکیات کو من و عن قبول نہیں کرتا بلکہ سماجیات کی از سرِ نَو تشکیل کرتا ہے۔ سماجی مطالعہ واقعات کو واقعہ نہیں سمجھتا بلکہ بہت سے واقعات کو ایک لڑی میں دیکھ کر اُن پر فیصلہ (Judgment)دیتا ہے۔دانش ورانہ استدالال سماج پر تنقیدی نگاہ رکھتا ہے اور اُسے ظاہری دیکھنے کی بجائے اُس کے پس منظر میں جھانکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
دانش ورانہ استدلال سماجی مطالعات کو ایک جگہ اکٹھا دیکھنے کی کوشش کرتا ہے یعنی ہر علم سے فائدہ اٹھاتا ہے یا ہر علم جوسماج کی فطرت یا اصل کو سمجھنے میں مدد فراہم کرے دانش ورانہ استدلال کے کام آتا ہے۔ سماجی مطالعات سماجی علوم جیسے معاشیات، سیاسیات،تاریخ، فلسفہ، مذہبیات، نفسیات اور ادبیات پر مشتمل ہو سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ میڈیائی علوم نے بھی سماجی مطالعات کو وسعت دی ہے۔میڈیا سماج کی تشریح ایک نئے ڈیجیٹل طریقے سے کرنے کی کوشش میں ہے۔ میڈیا اس تشریحی منصب پر موجود تو ہے مگر ایک علم کی طرح نہیں بلکہ ایک طاقت کے روپ میں۔ وہ جو تشریح کرتا جا رہا ہے وہی سچ اور حقیقت سمجھی جاتی ہے۔ میڈیا جن فکروں اور رجحانات کو سماج کا مرکز قرار دیتاہے یا حاشیہ پہ دھکیلتا ہے، وہ اُسی طرح قبول کر لی جاتی ہیں۔میڈیائی علم کسی تھیوری کی بنیاد پر نہیں بلکہ اشیا یا واقعات کی پیش کش کی بنیاد پر ایک فکر یا فلسفہ تشکیل دیتا ہے ، وہی چیز یا واقعہ اگر کسی اور طرح پیش کیا جائے تو وہ چیز یا واقعہ مکمل بدل سکتا ہے۔یہ بہت بڑی علمی یا فکری سرگرمی ہے ۔میڈیا اپنی اس طاقت سے بھی پوری طرح آگاہ نہیں۔
دانش ورانہ استدلال ان سماجی علوم جنھیں ہومینٹیز(Humanities) بھی کہا جاتا ہے، پر کلی انحصار نہیں کرتا، بس ان علوم سے مدد لیتا ہے اور اپنا استدلال(Reasoning)بناتا ہے۔ہومینٹیز کا ماہر ان علوم کو توسیع دیتا ہے ان علوم سے معاشرے کو بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر دانش ورانہ استدلال ان علوم سے اتنی مدد ہی لیتا ہے جو اُس کے استدلال کے لیے ضروری ہو یا اُس کی Reasoningکو منطقی ربط دے سکے۔ سیاست کے میدان میں جو ہو رہا ہے وہ صرف سیاسی علم تک محدود نہیں ہوتا ہے اُس کے اندرونی روابط(Links)معاشیات، مذہبیات اور تاریخی حقائق سے بھی ملے ہوئے ہوتے ہیں۔علمِ معاشیات جنھیں دکھانے یا ملانے سے قاصر ہوگا ۔ ان بے ربط روابط(Missing Links)کوڈھونڈنا اور انھیں ملانا،دانش ورانہ استدلال کا کام ہوگا۔اسی طرح مذہبی زیر دستی یا بالا دستی محض چند عقائد تک محدود عمل نہیں بلکہ ان کے پس منظر میں انسانی نفسیات، خطوں کی تہذیبی تاریخ اور معاشی کڑیاں غائب ہوتی ہیں جنھیں دانش ورانہ استدلال اپنی تنقیدی بصیرت سے کھوج نکالتا ہے۔
میں اگر کچھ اور آگے بڑھوں تو اس دانش ورانہ استدلال یا Reasoning کوبھی دو حصوں میں تقسیم کر سکتا ہوں:
ایک:دانش ورانہ بصیرتIntellectual insight) (
دوسرا:دانشورانہ تفتیش(Intellectual Inquiry)
بصیرت وہ مرحلہ ہے جو سماج میں موجودسماجی حرکت کی بے ربطی کو پہچانتی ہے، جو تناظر اور تناسب کو ماپ لیتی ہے۔ کسی بھی دانش ورانہ عمل کا یہ پہلا مرحلہ ہو سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ سماج کا ایک اہم مسئلہ سماج میں پنپ رہا ہو اور دانش ورانہ بصیرت کی نظروں سے اوجھل ہو۔علومِ انسان چیخ رہے ہوں اور دانش ورانہ بصیرت اس پورے علم سے ہی نابلد ہو۔ سو بصیرت سماجی اعمال کی دانش ورانہ اہمیت کو کھول کے سامنے لاتی ہے اور انھیں ڈھونڈ نکالتی ہے۔جس طرح آرٹ کی جمالیات کو تشکیل دینا ایک تخلیقی عمل ہے مگر جمالیات کی پہچان کرنا بھی ایک نیم تخلیقی سرگرمی ہے جو آرٹ کی تشکیل دینے سے پہلے موجود ہوتی ہے۔جمالیات میں اسے ’’ذوق‘‘ کہا جاتا ہے۔بصیرت بھی استدلال کا پہلا مرحلہ ہے جو استدلال کے دوسرے مرحلے’’ تفتیش‘‘ کی بنیاد رکھتی ہے۔ دوسرا مرحلہ ان اعمال یا مسائل کی دانش ورانہ تفتیش ہے،ایک دانش ور ہر وقت سماجی مسائل یا حقائق کی Intellectual Inquiryسے گزرتا رہتا ہے۔یہ Inquiryمحض اشیا یا واقعات کو جوڑنے اور کھنگالنے سے لے کر اُن کی اصل تک پہنچنے کا نام ہے۔ تفتیش کا یہ عمل دانش ور کو سماجیات سے آگاہ کرتا اور سماجیات سکھاتا ہے۔
دانش ورانہ تفتیش (Inquiry)سے ہر صاحبِ بصیرت گزرتا ہے۔ سماج کا ہر سنجیدہ کردار جیسے بزرگ، خاندانوں کے سربراہ وغیرہ ایسی دانش ورانہ تفتیش کو اپنی فکر کا حصہ بنائے رکھتے ہیں اور اسی تفتیش کے بل بوتے اُن کے پاس بہت سے نقطہ ہائے نظر موجود ہوتے ہیں جو دانش ورانہ استدلال تو نہیں مگر اپنی تئیں ایک نظریاتی فکر کا درجہ ضرور پا جاتے ہیں۔ ان کرداروں کی طرح بہت سے شعبہ جات جیسے استاد، ادیب،وکلا ، سیاست دان، منصفین ، صحافی وغیرہ بھی اس طرح کی دانش ورانہ تفتیش کے عمل سے گزرتے ہیں۔ سماجی سطح پر بہت سے واقعات اس قسم کی تفتیش پیدا کرتے ہیں۔جو مختلف نظریات یا نقطہ ہائے نظر بناتی ہے۔
ادیب خصوصی طور پردانش ورانہ استدلال کا سامنا کرتا ہے، کیوں کہ ادیب کا کام ہی سماج کی حرکیات کو محسوس کرنا اور ہر لمحہ ایک inquiryسے گزرنا۔ ادیب کا عمل تو سماجیات کے بغیر مکمل ہی نہیں ہو سکتا۔ یہ الگ بات کہ ادیب اُس کا اظہار آرٹ میں کرے یا اُسے غیر فنی اظہار میں پیش کرے۔مگر ایسا نہیں ہو سکتا ہے ادیب اپنے معاشرے کی سماجی حرکیات سے مکمل طور پر بے بہرہ ہو ، اُسے اپنے سماج کے اہم علمی مراکز معاشیات، سیاسیات، انسانیات، مذہبیات وغیرہ سے کوئی دلچسپی ہی نہ ہو۔وہ واقعات یا اشیاکی حقیقت کو سمجھنے کی طرف پہلی جہت ’’بصیرت‘‘ سے ہی محروم ہو۔
ایسا صرف اُسی صورت ہو سکتا ہے جب ادیب نے آرٹ کی بنیادی روح کو قابو میں لینے کی بجائے اُس کی جسمانی حالت کو ہی حتمی سمجھ لیا ہو۔ایسی صورت میں آرٹ سماجی عمل نہیں محض فنی چیز بن کے رہ جاتا ہے۔چند اصولوں کی پیروی میں لفظوں کا ہیر پھیر۔
اُردو ادیب سماجیات سے بالکل کورا کیوں ہو گیا ہے۔Reasoningکا شائبہ بھی اردو ادیبوں کے ہاں موجود ہے؟ میں اگر اس کا جواب بے لاگ طریقے سے دینا چاہوں تو نہیں کہوں گا۔اُردو ادبا تخلیقی سطح پر زیادہ تر غزل سے وابستہ ہیں۔ اس کے بعد نظم پھر افسانہ اورآخر میں ناول سے وابستہ ہیں۔شاعری سے فکشن کی طرف جائیں تو ادبا کی تعداد کم ہوتی نظر آئے گی۔بہت کم ہوں گے جو ہومینٹیز سے آگاہ ہوں گے، ورنہ شاعری تک تو ایک سکہ بند روایت کی چھاپ کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔
ایک وقت تھا جب ادیبوں کا سماجی کردار کسی بھی زندگی کے دوسرے شعبوں کے ماہرین جیسے سیاست دان، صحافی، تاریخ دان، ماہرِ معاشیات یا مذہبی عالم سے زیادہ تھا۔ لوگ دانش ورانہ سوالات ایک ادیب سے پوچھنے میں زیادہ سہولت محسوس کرتے۔ ادیب ہی زندگی کی تشریح کرتے کیوں کہ وہ علومِ انسانی سے پوری طرح آگاہ تھے۔اُن پر اپنی رائے رکھتے تھے۔مگر رفتہ رفتہ ادیبوں نے اپنے آپ کو سماجی دانش ورانہ استدلال سے خود کو کنارہ کر لیا۔ادیبوں کی صلاحیت چند جذباتی واقعات کی’ فن کارانہ پیش کش‘ تک محدود ہو گئی۔ وہ Reasoningجو ادیب کا ہر وقت کا ذہنی و جذباتی عمل تھا، ختم ہو گیا ہے۔
اس وقت ہمارے خطے میں جو دانش ورانہ بحران آ چکا ہے اس کی ایک بڑی وجہ کم علم اور اپنے سماجی حرکیات سے بے بہرہ ادیبوں کی بہتات ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستانیت کی تشریح حسن عسکری کر رہے تھے۔ ممتاز شیریں اور ن م راشد عالمی سطح پر پاکستانیت اورایشیائی سماج کا مقدمہ پیش کر رہے تھے۔وزیر آغا اور سیدعبداللہ صاحب کلچر کے مباحث چھیڑ رہے تھے۔ ترقی پسند معاشیات، سوشیالوجی اور تاریخ کے بطن سے نئے سماج کو بنتا دیکھ رہے تھے۔ تاریخ ، فلسفہ اور دنیا بھر کا سماجی مطالعہ ترقی پسندوں کی گفتگوؤں کا مرکز تھا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ادیب کی جگہ نام نہاد صحافی قوم کی دانش ورانہ کمی پوری کر رہے ہیں۔ صحافی تو دور کی بات خبریں پڑھنے والے اینکرز پوری سماجیاتی تاریخ لکھ رہے ہیں، قوم کی فکری ’’رہنمائی‘‘ کر رہے ہیں۔ ہمارا ادیب اس فکری و تاریخی تبدیلی سے مکمل نابلد ہے۔
البتہ فکشن نگار کسی حد تک سماجیات سے جڑنے کی کوشش میں ہیں مگر یہ ادیب بھی آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔کچھ یہی حال تنقید کا بھی ہے۔ Reasoningنام کی کوئی چیز اُردو تنقید میں نہیں ملتی۔ اس وقت ہندوستان اور پاکستان کے مشترکہ تنقیدی سرمایے میں درجن بھر نام ہیں جو تنقید کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہیں مگر جامعاتی سطح سے لے کر ادبی حلقوں تک جو تنقید لکھی جا رہی ہے وہ دانش ورانہ استدلال سے مکمل طور پر خالی ہے۔ہماری جامعاتی تنقید آج بھی میرتقی میر کا نظریۂ عشق اور میر انیس کی شاعری میں چشمۂ فرات ڈھونڈ رہی ہے۔
مجھے اُن چند ادیبوں کے نام لینے میں خوشی محسوس ہو رہی ہے جو ادبی محاذ پر سماجی دانش ورانہ فکریات کا مقدمہ پیش کر رہے ہیں اور ادیبوں کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ان ادیبوں میں ناصر عباس نیر، آصف فرخی،سید کاشف رضا، ادریس آزاد،نعیم بیگ،حنا جمشید، نصیر احمد ناصر، نسیم سید، مبشر زیدی ،حسنین جمال، نور الہدی شاہ، وغیرہ چند نام ہی لیے جا سکتے ہیں جو ادب سے بھی وابستہ ہیں اور دانش ورانہ علمی روایت سے بھی۔ کچھ نئے نام جیسے فارینہ الماس، شکور رافع اور جنید الدین بھی ہیں جو ادب اور اس روایت کو ایک ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔مگر آپ ادیبوں کی فہرست پہ نظر ڈالتے جائیں اور سوچتے جائیں کہ اس قدر گھمبیر مسائل میں ادیب کہاں ہیں، وہ باقاعدہ طور پر معاشرے کے مسائل پر لکھنا یا بات کرنا اپنے ادبی عمل کی نفی قرار دے رہے ہیں۔ اُنھیں یہ دانش ورانہ عمل، ادب میں رکاوٹ محسوس ہورہا ہے بلکہ وہ ادیبوں کو ان اخباری اور صحافیانہ قسم کے مفروضات میں وقت ضائع نہ کرنے کامشورے بھی جاری کر رہے ہیں۔
اس فکری انتشار کے دور میں اگر ادیبوں نے اپنا کردارادا کیا ہوتا شاید ہمیں گھٹیا قسم کی فکریات سے نجات ملی ہوتی اور ہم سماج کے مسائل سے ایک مثبت ’’مکالمہ‘‘ کرتے جو استدلالی نوعیت کا ہوتا۔ ہم قوموں کی تاریخ، نفسیات اور فلسفیانہ تشریحات کی روشنی میں بہتر سماج کو تشکیل دے رہے ہوتے۔
اس وقت یہ گیپ اُن دانش وروں نے پُر کرنے کی کوشش کی ہے جو ادب سے نہیں بلکہ اپنا مطالعہ سماجی علوم سے اٹھارہے تھے۔ ان دانش وروں میں وسعت اللہ خان، خورشید ندیم،وجاہت مسعود ،یاسر چٹھہ،عاصم بخشی، ذیشان عالم،عرفان شہزاد، محمد شعیب، فرنود عالم، سید انور محمود، عثمان قاضی، آصف جاوید، سلمان حیدر، لبنی مرزا، نعیم بلوچ،فیاض ندیم، عماد ظفر وغیرہ نمایاں ہیں۔یہ دانش ور سماج کی دانش ورانہ تشریح کر رہے ہیں مگر سماجی مطالعات کو اپنی بنیاد بناتے ہوئے۔
ادیبوں کی معاصر نسل اپنی روایت کو بھلا چکی ہے۔ وہ سماج کو ادبی عمل سے خارج کر چکی ہے۔ ادیب ابReasoningجیسی استدلالی فکر سے عاری ہو چکے ہیں۔ اُن کے ہاں کسی سماجیات کی تشکیل کا عمل جاری نہیں۔ غزل نظم اور افسانوں کے روایتی موضوعات اور اُن کی فن کارانہ چابک دستیاں ادیبوں کی گفتگوؤں اور ریاضتوں کا مرکز بن چکی ہیں جو چیخ چیخ کرادیبوں کی سماجیاتی موت کا اعلان کر رہی ہیں ۔
بہت خوب۔۔۔۔۔۔ داد اور دعائیں