(منیر احمد فردوس)
کتابوں کے سلسلے میں میرا مسئلہ بہت پیچیدہ رہا ہے۔ پہلی سطر سے کتاب جب تک میری انگلی تھام کر مجھے اپنے ساتھ نہ لے جائے تب تک نہ میں کتاب کے ہاتھ آتا ہوں اور نہ کتاب میرے ہاتھ، چاہے اپنی اپنی جگہ پر ہم جتنے بھی جتن کر لیں۔ لہذا میرا یہ ماننا ہے کہ کسے اپنا نا اور کسے دھتکارنا ہے، اس کا فیصلہ کتاب کرتی ہے قاری نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں اردو ادب کے چند بڑےناموں کو باوجودہزارہا کوشش کے آج تک نہیں پڑھ سکا ، جس میں سرِفہرست نام راجندر سنگھ بیدی کا ہے، جن کی نثر پڑھ کر مجھے ہمیشہ تھکن کا احساس ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ دوست میری اس بات کوکج فہمی کہیں یا بے ادبی مگر حقیقت یہی ہے ۔ اب پتہ نہیں کتاب قاری کا انتخاب کیسے کرتی ہے؟ اس میں کیا دیکھ کر چھان پھٹک کرکے فیصلہ کرتی ہے کہ کسے چھوڑ نا اور کسے ساتھ لے جانا ہے۔
مگر جو کتاب مجھے اپنا بنا لیتی ہے تو پھر میں بھی مکمل طور پر اسی کا ہوجاتا ہوں اور اپنے اندر سے ہجرت کر کے اس کتاب کے زندہ جہانوں میں اتر جاتا ہوں ۔ مہینوں سرشاری میں ایسے گزر جاتے ہیں کہ واپسی کا خیال ہی نہیں رہتا۔میرے نزدیک تو سچی بات یہ ہے کہ اگر مادی ضرورتیں اور پیٹ پوجا اس دنیا کا مسئلہ نہ ہوتا تو کتابوں کی دنیا ہی سب سے بہتر دنیا تھی ۔
“دو تحریریں” بھی میرے لئے ایک ایسی ہی کتاب ثابت ہوئی، جو نئے ذائقے اور نئے زاوئیے لے کر آئی، جسے میں نے پڑھنا شروع کیا تو مجھے اپنی کوئی سدھ بدھ نہ رہی۔ کہنے کو تو کتاب میں دو تحریریں ہیں مگر درحقیقت اپنے بطن میں بہت ساری تحریر یں چھپائے ہوئے ہے، جیسے ایک مدار میں گردش کرتے بے شمار سیارے اور کہکشائیں ۔
“دوتحریریں” بنیادی طور پر نہ افسانوں کی کتاب ہے، نہ ناول ہے اور نہ ہی دیگر اصناف میں سے کوئی اور نثری صنف مگر اس کی خوبی یہی ہے کہ اس میں بیک وقت افسانوں کا ذائقہ بھی شامل ہے، ناول کی خوشبو بھی محسوس ہوتی ہے اور دیگر اصناف کی بودوباش بھی ۔افسانے میں اگر زندگی سے چرایا ہوا ایک لمحہ بولتا ہے تو ناول میں پوری زندگی اپنے عہد کے دکھ درد بیان کر تی ہے اور یہی دونوں خوبیاں دو تحریریں جیسی خوبصورت کتاب میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔کیونکہ اس میں فعال کردار بھی ہیں ، جاندار مکالمے بھی ہیں ، جزئیات کے ساتھ ساتھ خوبصورت منظر نگاری بھی اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور متحرک کہانیاں بھی دھڑکتی ملتی ہیں۔
“دو تحریریں ” دو مصنفین کا مشترکہ کارنامہ ہے ۔ “دل بھٹکے گا” جیسا شاہکار ناول تخلیق کرنے والے ناول نگار اور صحافتی ایوانوں میں ہلچل مچا دینے والے معروف صحافی و کالم نگاراحمد بشیر اور ان کی اہلیہ محمودہ احمد بشیر کی محبت نے اس کتاب کو تحریر کیا ہے۔
پہلی تحریر بعنوان “میں اور احمد بشیر” جو محمودہ احمد بشیر کی لکھی ہوئی ہے۔ اتنی دلکش اور دلربا تحریر ہےکہ پڑھتے ہوئے قاری کو یوں لگتا ہے جیسے شدید حبس میں اچانک ٹھنڈی ٹھنڈی پھوار شروع ہو گئی ہے جو روح تک کو تازہ کر دیتی ہے۔ محمودہ بنیادی طور پر ادیب نہیں ہیں، اسی بات کا انہیں بہت فائدہ پہنچا ہے اور تحریر نے ان کے لکھنے کا معصوم جذبہ دیکھتے ہوئے ان کا خوب ساتھ نبھایا ہے ۔ ایک بہت ہی خوشگوار معصومیت ان کے لفظ لفظ سے جھانکتی نظر آتی ہے، جس نے تحریر کو بے ساختگی کے ساتھ ساتھ انوکھے پن سے نواز دیا ہے۔ حالانکہ ممتاز مفتی، ابنِ انشاء، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، مرزا ادیب اور دیگر بڑے بڑے ادیبوں کا ان کے گھر آنا جانا تھا مگر پھر بھی انہوں نے ادب کو اوڑھنا بچھونا نہ بنا یا اور ہمیشہ گھریلو خاتون کے طور پر خود کو احمد بشیر اور ان کے ادیب دوستوں کی خدمت کے لئے وقف کئے رکھا۔ مگر اس کے باوجود ان کی تحریر ادبی چاشنی اور تخلیقیت سے بھرپور ہے۔
“میں اور احمد بشیر” مجھے یادوں کا وہ خوبصورت شہر لگا جہاں وہ آج بھی رہتی ہیں بلکہ پہلے وہ اکیلی رہتی تھیں اور اب اس شہر کے دروازے انہوں نے سب کے لئے کھول دیئے ہیں۔ جب میں یادوں کے اس شہر میں داخل ہوا تو حیرت مجھ سے لپٹ گئی ۔ میرے سامنے ایک نئی دنیا تھی، ایک نیاعہد تھا جہاں ہر طرف خوبصورتیاں ہی خوبصورتیاں تھیں۔ چاروں طرف امن کی فاختائیں اڑتی پھر رہی تھیں ، ایک روح پرور سکون تھا اور صاف ستھری پرکیف روایات تھیں۔ میرے وہاں قدم رکھتے ہی بچپن کی محمودہ ہنستی مسکراتی میرے سامنے آ کھڑی ہوئیں اور مجھے ساتھ لے جا کر اپنا شہر دکھانے لگیں۔ انہوں نے مجھے کہاں کہاں نہیں گھمایا اور کس کس سے نہیں ملوایا۔ میں حیران حیران انہیں خوش گپیاں اور مزے کی زندگی جیتے دیکھتا رہا۔ کبھی وہ اپنی دوست منیرہ (علامہ اقبال کی بہن) سے ملنے جا رہی ہیں تو کبھی مشہور اداکارہ و گلوکارہ مسرت نذیر کے گھر بھاگی جا رہی ہیں جہاں وہ قرآن مجید بھی پڑھتی ہیں اور ان کی امی کے ساتھ مل کرموسیقی کی لمبی لمبی تانیں بھی لگاتی ہیں۔ وہ دونوں مل کر گلیوں میں کھیلتی کودتی بھاگی بھاگی سودا سلف لینے جا رہی ہیں۔ اپنی کلاس فیلو صبیحہ خانم سے بھی ملواتی ہیں۔احمد بشیر سے شادی پر میں ان کی بارات کھیتوں میں سے پیدل جاتے ہوئے دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں۔پھر وہ مجھے اپنے گھر کے ایک کونے میں بٹھا دیتی ہیں اور چپ رہنے کا اشارہ کرتی ہیں ۔ تھوڑی دیر بعد ممتاز مفتی وہاں پہنچ جاتے ہیں اور بے تکلفی سے پوچھتے ہیں کہ مودی میرے لئے کنجر ہانڈی پکائی کہ نہیں؟ کراچی سے صرف تمہارے ہاتھ کی پکی کنجر ہانڈی کھانے آیا ہوں۔ ممتاز مفتی انگلیاں چاٹتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں تو ان کے جاتے ہی ابنِ انشا ءسر جھکائے پریشان سے گھر میں داخل ہوتے ہیں۔ احمد بشیر نے پوچھا تو کہنے لگے”یار وہ مجھ سے لاپروائی کر رہی ہے، اس لئے میں خود کشی کر رہا ہوں۔ ” احمد بشیر پوچھتے ہیں کہ کب اور کس جگہ خودکشی کرنی ہے؟ ریلوے سٹیشن پر ابھی۔ ابنِ انشا ءنے جواب دیا۔چلو پھر میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں اور وہ دونوں چل پڑتے ہیں۔میں حیرت سے پلکیں جھپکانا بھول گیا۔ ادب کا اتنا بڑا نام اور یہ کام ۔ ۔ ۔ ؟ میرے چہرے پر برستی حیرت دیکھ کر محمودہ مسکرا دی۔ اچانک ماؤزے تنگ کی بات پر چھوٹی سی گوپی (بشریٰ انصاری) احمدبشیر سے ڈانٹ کھاتی ہے اور ڈر کے مارے قریب رہنے والی دادی کے گھر بھاگ جاتی ہے۔ پھر دیکھتا ہوں کہ احمد بشیر نیلا پربت فلم بنانے کے لئے بے چین ہوئے پھرتے ہیں اور محمودہ انہیں تسلیاں دیتی ہیں اور فلم کے لئے گانے بھی ریکارڈ کرتی ہیں۔فلم ریلیز ہوئی اور بری طرح ناکام ہو گئی ۔ گھر میں فاقوں کے لشکر چڑھ دوڑتے ہیں ، محمودہ اور احمد بشیر صرف ایک کھیرا کھا کر دن گزارنے لگتے ہیں۔ میری پریشانی محمودہ نے بھانپ لیتی ہیں مگر مسکراتے چہرے کے ساتھ مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتی ہیں۔میں چپ چاپ یہ نرالے صابرانہ انداز دیکھنے لگا۔ان ہی پریشانیوں میں وہ اپنی سب سے بڑی بیٹی نیلم احمد بشیر کو بیاہ کر امریکہ روانہ کر دیتے ہیں۔
منظر بدلتا ہے اور ممتازمفتی گرفتار ہو جاتے ہیں احمد بشیر کی ایک پڑوسن کی محبت میں اور زاروقطار روتے پھرتے ہیں ۔ پھر کیا دیکھتا ہوں کہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ وہاں آ کر مفتی کی دیوانگی کو آپس میں ڈسکس کرتے ہیں اور دکھی مفتی کو تسلیاں دیتے ہیں۔
عید کا دن ہے اور گھر میں پکانے کو کچھ نہیں۔ میں ایک بار پھر پریشان ہو گیا مگر محمودہ نے مسکراتے ہوئے مجھے پھر سے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں مرزا ادیب ملنے ان کے گھر آ گئے۔ جاتے وقت وہ بازار سے لائے ہوئے آلو ساتھ لے جانا بھول گئے اور محمودہ نے جلدی سے وہ آلو پکا کر عید گزاری اور میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگیں جیسے پوچھ رہی ہوں کہو کیسی رہی؟اورمیں اس عظیم عورت کی وفاؤں پر رشک بھری نظروں سے انہیں دیکھنے لگا۔
پاکستان بنتے ہی دنگے شروع ہو جاتے ہیں اورہنگاموں کے دوران محمودہ کی آنکھوں کے سامنے لوگ پاگل ہو کر ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتارنے لگتے ہیں۔ محمودہ اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی یہ سب کچھ دیکھ کر چیخنے لگتی ہیں۔ ممتاز مفتی کی بہن کی فیملی ہندوؤں کے محلے میں پھنسی ہوئی ہے ۔ احمد بشیر جاتے ہیں اور خود کو ہندو کہہ کر ان کو چھڑا کے لے آتے ہیں۔میں ان کی دلیری اور حاضر دماغی پر دم بخود رہ جاتا ہوں۔
1965 کی جنگ، لاہور میں خوف و ہراس، کلفٹن کے سیر سپاٹے، اسلام آباد کی افسری، نوکریوں کا بار بار چھوٹنا، موج مستی، فاقے، مہما ن نوازیاں ، دکھ سکھ ، خوشی غم، غرض ایک عہدِ زریں ، اخلاقی اقدار سے سجا ایک سماج اور روایات سے بھرپور زندگی نامہ اس تحریر کے اندر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ میری نظر میں یہ چھوٹی سی تحریر اردو ادب کی بڑی بڑی کتابوں پر بھاری ہے۔اسلوب ایسا جاندار کہ منظر قاری کی آنکھوں میں جی اٹھتے ہیں اور کرداروں کے مکالموں کی بازگشت صاف سنائی دیتی ہے۔محمودہ کی تحریر قاری کو ہنساتی ہے، رلاتی ہے، گدگداتی ہے بلکہ بعض جگہوں پر دل میں ایک ہوک سے اٹھنے لگتی ہے۔میں ابھی بہت کچھ دیکھنا چاہتا تھا مگر مجھے محمودہ احمد بشیر نے اشارہ کرتے ہوئے پیچھے دیکھنے کو کہا ، میں نے مڑ کر دیکھا تو احمد بشیر صاحب مجھے بلا رہے تھے۔ میں چپ چاپ ان کی طرف بڑھ گیا ۔ ان کی آنکھوں میں دکھ کی گہری پرچھائیاں تھیں اوروہ مجھے اپنے ساتھ لے کر کتاب کی دوسری تحریر “خون کی لکیر” میں اتر گئے۔
میں ایک دم سے پریشان ہو گیا کہ اتنے خوبصورت دور سے نکل کر یہ اچانک 1947 کے سرخ زمانے میں، میں کہاں آ گیا؟میں نے دیکھا ،ہر طرف سہمے ہوئے لوگوں کے قافلے ہی قافلے ہیں جو اپنے بوڑھوں بچوں کے ساتھ خوف کے سائے میں ہندوستان سے پاکستان اور پاکستان سے ہندوستان جا رہے ہیں۔
احمد بشیر مجھے ساتھ آنے کا اشارہ کرتے ہیں اور ممتاز مفتی کے ہمراہ مال روڈ کی طرف چل پڑتے ہیں ۔ اسمبلی بلڈنگ پر نیلی پگڑیوں والے ہجوم میں ماسٹر تارا سنگھ کرپان ہوا میں لہرا کر نعرے مار رہا ہے ” جو مانگے گا پاکستان، اس کو ملے گا قبرستان” ہجوم کی آنکھوں میں خون اترا ہوا دیکھ کر میں سخت گھبرا جاتا ہوں مگر احمد بشیر مجھے حوصلہ دے کر خاموش رہنے کو کہتے ہیں۔پھر وہ مجھے سٹیشن پر لے چلتے ہیں ، جہاں انہیں ان کا دوست خان غازی کابلی نظر آتا ہے۔ پوچھنے پر وہ کہتا ہے ” میں کسی ایسے ملک میں نہیں رہ سکتا جس میں صرف مسلمان رہتے ہوں۔”سٹیشن پر ہر طرف لاہور کے ہندو مسافر ہندوستان جانے کے لئے ٹرین کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ عورتیں خوفزدہ اور مرد سہمے ہوئے ہیں اور اپنے روتے ہوئے بچوں کوگھرکیاں دے کر چپ کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
“جناح نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا۔ ہمیں گھر بار چھوڑنے پڑے۔” ایک سکھ بگڑا
“تارا سنگھ کا بیڑا غرق ۔ آگ تو اسی نے لگائی۔ پرماتما اس کا منہ کالا کرے۔ ” سفید بالوں والی بڑھیا گرجی
احمد بشیر کو اچانک اپنے ماموں اشفاق نے آواز دی تو وہ مجھے اس ہجوم سے نکال کر ماموں کے ہمراہ اپنے آبائی گاؤں ایمن آباد چلے آئے۔ ایمن آباد سٹیشن پر پہنچے تو ٹرین سے ان کے جاننے والے دیوان مایا بھی اپنی خوفزدہ فیملی کے ساتھ اترے اور بولے ” لاہور میں افراتفری ہے۔ میں نے سوچا کچھ دنوں کے لئے رادھی بیٹی کو ایمن آباد لے آؤں، یہاں امن چین ہے۔ یہ پاگل پن دور ہو جائے گا تو لاہور چلی جائے گی۔ ہوسٹل میں رہنا ٹھیک نہیں۔”
احمد بشیر میرا ہاتھ پکڑے اپنے ماموں کے ساتھ تانگے پر بیٹھ گئے۔ تانگہ جب پل وائے دائرے کے پاس پہنچا تو سامنے سڑک پر میں نے تین گٹھڑیاں پڑی دیکھیں۔ گھوڑا ہنہنا کر رک گیا، سب اتر پڑے۔ رادھی کا گلا صاف کٹا ہوا تھا اور گردن سے خون بہہ رہا تھا۔ دیوان مایا اوندھے پڑے تھےاور ان کے پیٹ سے خون کی دھار بہہ رہی تھی۔ ان کے چھوٹے بھائی کے سینے میں بھی برچھی پروئی ہوئی تھی۔ میں ششدر رہ گیا۔ ایمن آباد میں بھی خوف اپنی جڑیں پھیلا چکا تھا ۔
ہندو راتوں رات شہر خالی کر کے اپنے بال بچے اور زیور کپڑا لے کر چلے گئے۔ ان کے جانے پر لوٹ مار شروع ہو گئی۔ ایمن آباد کی مضمحل اور لٹی ہوئی بستی میں ہلچل مچ گئی، ہر طرف چیخ و پکار سنائی دینے لگی۔ دکانیں ، گھر اور لوگ آگ میں جلائے جانے لگے، چاروں طرف دھواں ہی دھواں تھا۔ یہ دنگے فساد دیکھ کر میں شدید خوفزدہ ہو گیا مگر احمد بشیر نے مجھے حوصلہ دیا ۔
جب دھواں چھٹا تو منظر بدل چکا تھا۔رات کا وقت تھا اور ہم ایمن آباد کے ریلوے سٹیشن پر کھڑے تھے ۔جہاں ہر طرف لاشوں کے ڈھیر پڑے ہوئے تھے اوربیچوں بیچ چار برس کی چھوٹی سی کرشنا خوف سے سمٹی کھڑی تھی۔ احمد بشیر کے ماموں اشفاق نے لپک کر اسے جیسے ہی گود میں اٹھا یا تو کرشنا کی چیخ نکل گئی۔ اس کی ننھی سی پیٹھ پر بڑا سا خنجر کھبا ہوا تھا۔ ماموں نے اس کا خنجر نکالا تو وہ تکلیف کی شدت سے تڑپ اٹھی۔ میرا کلیجہ منہ کو آ گیا ۔ احمد بشیر نے میرا ہاتھ پکڑا اور وہاں سے چل پڑے۔ اچانک کسی نے احمد بشیر کی ٹانگ پکڑ لی۔ تیس پینتیس سال کی عورت خون میں لت پت پڑی تھی اور زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی ۔ احمد بشیر نے اسے اٹھا کر پیٹھ پر ڈال دیا۔ میں یہ سب دیکھ کر غش کھا گیا مگر احمد بشیر نے مجھے تسلی دی اورخاموش رہنے کو کہا۔ چوبارے کی گلی میں ایک گنوار ایک نوخیز لڑکی کو گھسیٹ کر لے جا رہا تھا، جس کا دایاں ہاتھ خون سے لتھڑا ہوا تھا اور زبان باہر نکلی ہوئی تھی ۔ میں یہ منظر دیکھ کر غمزدہ ہو گیا اور میری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ اچانک میں نے احمد بشیر سے ہاتھ چھڑا لیا ، وہ سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگے۔
میں نے کہا ” مجھ میں آگے پڑھنے کی تاب نہیں۔” احمد بشیر میری پست ہمت پر دھیرے سے مسکرائے اور مجھے ہلکا سا دھکا دیا تو میں” خون کی لکیر” سے باہر آ گرا۔ اپنے آس پاس دیکھا تو میں اپنے کمرے میں تھا اور رات کے دو بج رہے تھے۔ بیوی بچے گہری نیند سوئے پڑےتھے۔ “دو تحریریں” کتاب میرے سینے پر دھری تھی اور میری آنکھوں کی نمی میں خوف سے پیلی پڑی کرشنا کی صورت تیر رہی تھی اور میں آگے پڑھنے کا یارا نہ رکھنے والا اس سوچ میں ڈوب گیا کہ بیچاری معصوم کرشنا کا کیا ہوا ہو گا ؟
“دو تحریریں” کتاب نے مجھے مجھ سے چھین کر اپنا آپ پوری شدت سے محسوس کروایا۔ میری نظر میں یہ کتاب دو الگ الگ زمانوں کی وہ داستانیں ہیں جہاں ایک طرف خوبصورت زمانے کروٹیں لیتے ہیں تو دوسری طرف سرخ منظروں سے ایک نئی منزل تشکیل پاتی نظر آتی ہے، جسے کسی بھی دور میں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں تحریروں کے ذائقے ، اسلوب اور رنگ جدا جدا ہیں ۔ایک تحریرجتنی معصوم اور سادہ ہے تو دوسری اتنی ہی تیکھی اور بے چین کر دینے والی ہے۔ میری نظر میں” دو تحریریں” زندہ اور دھڑکتی ہوئی ایک ایسی کتاب ہے جس میں داخل ہو کر ایک کردار کی طرح گذشتہ عہد میں وقت گزارنا ہر نسل کے لئے بے حد ضروری ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ ماضی میں جانے کے لئے کسی ٹائم مشین کی ضرورت نہیں ہوتی، یقین نہ آئے تو اس کتاب سے بات کر کے دیکھ لیجئے۔