(عثمان عابد)
یہ 29مئی 2016 کی رات تھی۔ گیارہ مشکوک افراد گہرے سرخ رنگ کی جیپ میں ریشیاں کو عبور کرتے ہوئے لیپا کی وادی میں داخل ہو رہے تھے۔ جیپ کے اندر ایک پراسرار سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ایک انجانے سے خوف نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ جیپ کسی ناگن کی طرح آڑھے ترچھے راستوں پر بل کھاتی ہوئی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔
اچانک سامنے سے آنے والی سرچ لائیٹ کی تیز روشنی نے جیپ میں بیٹھے افراد کی آنکھوں کو چندھیا دیا۔ ڈرائیور کو بادلِ نخواستہ جیپ روکنا پڑی۔ تیز روشنی کے اندر سے اچانک ایک فوجی بر آمد ہوا۔ سب لاچار نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ ڈرائیور نے اپنے ساتھ بیٹھے شخص کو اشارہ کیا۔ جیپ کا اگلا دروازہ کھلا اور ایک لمبا تڑنگا جوان جیپ سے باہر نکلا ۔ جیپ میں بیٹھے افراد دھڑکتے دلوں کے ساتھ ایک دوسرے کو دہشت زدہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ فوجی جیپ سے باہر نکلنے والے جوان کی حرکات و سکنات کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا تھا۔ مشکوک شخص فوجی جوان کے پاس پہنچ چکا تھا۔
ارے بھئی یہ کسی فلم کا سسپنس سے بھرپور سین ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی آپ کو خوفزدہ ہونے ضرورت ہے۔ جیپ سے باہر نکلنے والا شخص ہمارے پیارے دوست صداقت کا کزن کاشف اعوان تھا اور جیپ میں سوار افراد بھی را کے ایجنٹ ہرگز نہیں تھے۔ جی ہاں! بات دراصل یہ ہے کہ فارمیسی کی ڈگری مکمل ہونے کی خوشی میں ہم کلاس فیلوز نے پلان بنایا کہ اختتامی دنوں کو کسی طریقے سے یاد گار بنایا جائے۔ بس اس پلان کو فوراً عملی جامہ پہنانے کے لئے کاشف احسان، ارسلان رسول، فرحان مختار، ارشاد احمد، آصف علی، اسد علی، بھائی عمر اور استاد میرو پر مشتمل برگیڈ تیار ہو گئی اور ہم صداقت حسین (جن کا تعلق مظفر آباد سے ہے) کی قیادت میں بہاولپور سے آزاد کشمیر روانہ ہو گئے۔ آزاد کشمیر میں گزرے یہ چند دن ہماری زندگی کے یادگار ترین دن تھے۔ صداقت بھائی کی پر خلوص محبت اور مہمان نوازی بھی بھلائے نہ بھولے گی۔ اس سفر کی مکمل روداد تو پھر کبھی سہی فی الحال آپکو وادیِ لیپا کی سیر کرواتا ہوں۔
چیک پوسٹ کو عبور کرنے کے بعد ہم لوگ وادی لیپا میں داخل ہو گئے۔ موسم کو بھی شاید ہمارے آنے کی خبر مل چکی تھی۔ یکا یک آسمان سے باران رحمت برسنے لگی۔ راستہ واقعی بہت دشوار تھا۔ حنیف نامی جیپ کا ڈرائیور (جو ایام جوانی میں خود بھی فوج میں رہ چکا تھا )نے ہمیں بتایا کہ وادیِ لیپا کا شمار پاکستان کے ایسے علاقوں میں ہو تا ہے جو سرحد سے قریب ہونے کے باعث ہمہ وقت دشمن ملک کی توپوں کی زَد میں رہتا ہے۔ ہمارے وہاں پہنچنے سے ایک دن پہلے بھی دشمن ملک نے وہاں شدید گولہ باری کی تھی۔
اس علاقے کی حساسیت کے پیش نظر یہاں عام افراد کا داخلہ ممنوع ہے۔ وادی لیپا میں آنے سے پہلے آپ کو حکام سے خاص اجازت نامہ لینا پڑتا ہے۔ اسی لئے بہت کم سیاح اس علاقے کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس اس مشکل کا حل کاشف اعوان کی صورت میں موجود تھا جو خوش قسمتی سے آرمی کے ریٹائرڈ آفیسر ہیں۔ جیپ لیپا کے دشوار گزار راستوں پر رواں دواں تھی۔ راستے کے دونوں اطراف میں گھنا جنگل تھا۔ جہاں مقامی افراد کے مطابق اکثر چیتے اور دوسرے خونخوار درندے بھی دکھائی دیتے تھے۔
کالی سیاہ رات میں برستی بارش کے دوران آڑھے ترچھے راستوں پر چلتی سرخ جیپ میں سوار ہم لوگ ایک انجان منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ ایسی جگہ پر چیتے جیسے خونخوار درندے کا تصور کر کے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ سب کی آنکھوں میں ایک انجانے خوف کی موجودگی کے باوجود ایک دوسرے کو چھیڑنے کا سلسلہ رکنے کی بجائے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید بڑھتا چلا گیا۔ کیا شاندار لمحات تھے واہ!
اللہ اللہ کر کے جیپ ایک بستی میں داخل ہو گئی۔ بارش تھمنے کی بجائے مزید تیز ہو گئی تھی۔ موسلا دھار بارش کے دوران ڈرائیور نے جیپ کا دروازہ کھولا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ ڈرائیور کی اس حرکت پر ہم سب کی گھگی بندھ گئی کہ ہم سب کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نہ جانے وہ کہاں غائب ہو گیا تھا۔ یہ تو بھلا ہو صداقت بھائی کا جنہوں نے ہمیں بتایا کہ رات کے اس پہر دراصل ڈرائیور ہمارے لئے کسی سرائے کا بندوبست کرنے گیا ہے۔ صداقت بھائی کی بات سن کر سب کی جان میں جان آئی۔ خدا خدا کر کے انتظار کے یہ لمحات اختتام پذیر ہوئے اور اندھیرے کے اندر سے ہماری امیدوں کا محور یعنی جیپ کا ڈرائیور برآمد ہوا۔ جیپ کو وہیں لاک لگا کر اس نے ہمیں چلنے کو کہا۔ تھوڑی سی مسافت طے کرنے کے بعد جیسے ہی ڈرائیور بائیں جانب کو مڑا ہم سب بھی اس کے پیچھے ہو لیئے۔ تھوڑا آگے جا کر سامنے دیکھا تو لکڑی سے بنی ایک سرائے ہمارا استقبال کر رہی تھی۔ لکڑی کی بنی سیڑھیاں چڑھ کر جب ہم اوپر پہنچے تو دو کمروں پر مشتمل اس سرائے کو دیکھ کر سب نے سُکھ کا سانس لیا۔
ارے میں نے آپ سے استاد میرو کا تعارف تو کروایا ہی نہیں۔ دراصل جو گاڑی اُن آٹھ ، نو دنوں کے دوران مسلسل ہمارے ساتھ رہی اس کے ڈرائیور استاد میرو ہی تھے۔ بہت ہی ملنسار اور عاجز انسان ہیں۔ گفتگو کے دوران جب وہ اپنے مخصوص انداز میں ’ہاں نا‘ کہتے تو ہم سب بے اختیار ہنسنے پر مجبور ہو جاتے لُڈو کھیلنے کے ایسے شوقین کہ ایک مرتبہ شرط میں اپنی گاڑی تک داؤ پر لگا دی اور بد قسمتی سے وہ یہ شرط ہار گئے۔ گاڑی سے ہاتھ دھونے کے باوجود آج بھی لُڈو ان کا پسندیدہ کھیل ہے۔ اس رات بھی استاد میرو اور جیپ کے ڈرائیور حنیف کے دوران لُڈو کا میچ زور و شور سے جاری تھا اور ہم سب تماشائی بنے دونوں کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں سب تھکن سے چور ہو کر سو گئے۔
رات کے تقریباً دو اڑھائی بجے کوئی مجھے زور زور سے جھنجھوڑنے لگا۔ اس ناگہانی آفت پر میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ تین خوفناک شکلوں والے انسان نما جن (جو دراصل ارسلان، فرحان اور ارشاد ہی تھے) مجھے باہر آنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ وجہ پوچھنے سے پہلے ہی میرے کانوں میں کسی کے گانے کی آواز آنے لگی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ باہر جانا چاہتے تھے۔ کمبل وغیرہ اوڑھ کر جیسے ہی سرائے سے باہر نکلے تو بارش تھم چکی تھی۔
سیڑھیوں سے نیچے اتر کر ہم سب آواز کی سمت بڑھنا شروع ہوگئے۔ تھوڑا سا آگے جا کر بائیں جانب مڑے تو انکشاف ہوا کہ سامنے موجود مکان کی بالائی منزل سے آوازیں آرہی ہیں۔ ہم تینوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور سیڑھیاں چڑھ کر بالائی منزل کے دروازے تک پہنچ گئے۔ اندر موجود افراد نے کھڑے ہو کر ہمارا استقبال کیا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی ہم تینوں پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ یہ سب اپنے دوست کی شادی کی خوشی میں اکھٹے ہوئے ہیں اور اپنے سامنے ہار مونیم رکھے گا نا گانے والا شخص کوئی عام گلوکار نہیں بلکہ وادیِ لیپا کا مشہور ترین گلوکار ’’گلفام‘‘ ہے۔ گلفام کی آواز میں واقعی جادو تھا جو سامع کو بلا اختیار جھومنے پر مجبورکر دیتا تھا۔اُس نے ہماری فرمائش پر بھی چند گانے سنائے ۔ اس دوران ان لوگوں نے چائے سے ہماری خاطر تواضع کی۔
ذرا چشمِ تصور میں وہ منظر لائیں کہ رات کے آخری پہر میں آپ وادی لیپا میں موجود ہوں۔۔۔ سامنے وادی کا مشہور گلوکار گانا گا رہا ہو اور آپ گانا سننے کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں پکڑے کپ سے ذرا دیر کے بعد چائے کی ایک چسکی لے رہے ہوں۔ ہمیں یہ سب کچھ ایک خواب کی مانند لگ رہا تھا۔ لیکن اس کم بخت نیند کا کیا کریں جوسولی پر بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔ سو نیند کی پری نے اس جادوئی حصار کو توڑتے ہوئے ہمیں وہاں موجود افراد سے اجازت لینے پر مجبور کر دیا اور ہم بالآخر واپس سرائے پہنچ کر ایک مرتبہ پھر نیند کی وادی میں کھو گئے ۔
رات کی کالی دیوی کے صبح کی روشنی میں تبدیل ہوتے ہی سب اُٹھ چکے تھے ۔ ایک اور شاندار صبح ہمارا استقبال کر رہی تھی ۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم سب تیار ہو کر گاؤں میں موجود ایک چھوٹے سے ہوٹل میں ناشتہ کے لیے پہنچ گئے ۔ پراٹھے ، آملیٹ اور چائے کے ساتھ سب نے خوب سیر ہو کر ناشتہ کیا۔ ناشتے کے بعد سب جیپ میں سوار ہو گئے ۔ ایک مرتبہ پھر جیپ اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی ۔ تھوڑی ہی دیر بعد وادی لیپا کا اکلوتا ہائیڈرو پاور پلانٹ ہماری نظروں کے سامنے موجود تھا۔ وہاں موجود عملے کے مطابق یہ پاور پلانٹ تقریباً 1.6میگا واٹ تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ اس پلانٹ کو اچھی طرح دیکھنے کے بعد ہم ایک مرتبہ پھر روانہ ہوئے ۔ ہمارا اگلا پڑاؤ کنڈل شاہی تھا۔ جیپ نے جیسے ہی کنڈل شاہی کی سرحد کو عبور کیا ہمیں ایسے لگا کہ جیسے ہم واقعی کسی خواب نگر میں داخل ہو گئے ہیں۔ بڑے بڑے سر سبز میدان کہ جن کے چاروں اطراف میں قدرت نے بڑی ترتیب کے ساتھ درخت اُگائے ہوئے ہیں میں جانور گھاس چر رہے تھے ۔ ایسا دلکش نظارہ کہ جو آنکھوں سے گزر کر سیدھا دل میں اتر رہا تھا ۔ سفر کی ساری تھکان ایسے دور ہوئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔ جنت کے اس ٹکڑے نے واقعی ہمیں سحر میں مبتلا کر دیا تھا۔ سب بھوک سے نڈھال دکھائی دے رہے تھے ۔۔۔سو طے پایا کہ یہیں کھانا پکایا جائے ۔ آصف بھائی (جن کے ہاتھوں میں اللہ تعالیٰ نے ذائقہ اور برکت دونوں رکھی ہے ) نے ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے گزشتہ رات ہی چنے بھگو کر جیپ میں رکھ دئیے تھے۔ چنا پلاؤ بنانے کے لیے اب چاول درکار تھے ۔ مقامی آبادی سے آئے دو بچے بھی ہمیں دیکھ کر وہاں آگئے ۔ بچوں نے بتایا کہ تھوڑی سی مسافت پر ان کا چھوٹا سا گاؤں موجود ہے جہاں ایک دوکان سے انہیں چاول مل سکتے ہیں ۔ دو لوگوں کو چاول لینے بھیج کر آصف بھائی نے کمان سنبھال لی اور سلنڈر پر آگ جلا دی ۔ آگ کے جلتے ہی ہماری اُمیدوں کے چراغ بھی جل اٹھے اور سب چنا پلاؤ بنانے میں جت گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں مشترکہ کاوشوں سے چنا پلاؤ تیار ہو چکا تھا۔ لیکن یہ کیا ۔۔۔ کسی نے شاید چپکے سے بادلوں کو ہمارے آنے کی خبر دے دی تھی۔ آن کی آن میں پوری وادی پر کالی گھٹا چھا گئی اور ایک مرتبہ پھر موسلا دھار بارش شروع ہو چکی تھی ۔ تیز بارش کے ساتھ ننھے منھے اولے بھی پڑنا شروع ہوگئے۔ مقامی بچوں نے بتایا کہ یہاں ایسے ہی ہوتا ہے ۔ دھوپ، آندھی ، بارش ، اولے۔۔۔ کسی بھی وقت موسم اپنے تیور بدل سکتا ہے ۔ موسلا دھار بارش کا زور کچھ کم ہوا تو سب نے درختوں کی اوڑھ میں خوب سیر ہو کر چنا پلاؤ کھایا ۔ اسے تحریر کرتے ہوئے میں آج بھی اس کا ذائقہ محسوس کر سکتا ہوں۔ چنا پلاؤ کھانے کے بعد ڈرائیور نے جیپ واپس موڑ لی ۔ جیپ مظفر آباد کی جانب رواں دواں تھی اور ہماری اگلی منزل تھی ناران اور کاغان ۔ جس کی روداد انشاء اللہ کسی اور کالم میں ۔