ابو اسامہ
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ سوشل ورک
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد
عاطف نثار نجمی
ریسرچ اسکالر ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
عالمی ادب میں ایسے ادیب جنہوں نے اپنے ادب میں مقامی لہجہ اور مقامی رشتوں کے تانے بانے کو قومی اور بین ا لاقوامی منظرنامے میں پیوست ہونے پر زور دیا ہے تو راہی معصوم رضا کا نام اپنی تمام تر حسیات کے ساتھ اردو-ہندی ادب میں ایک نایاب اور منفرد مقام رکھتا ہے – دوسری جانب انہوں نے اپنے ادب کے ذریعہ روزمرہ کی قومی و مقامی، سماجی و سیاسی حقیقتوں کاتاریخی بیانیہ اس انداز میں خلق کیا ہے کہ تاریخ اور موجودہ وقت کے درمیان ایک نہ ٹوٹنے والا ربط دکھائی پڑتا ہے-ایک ایسا ادیب جو نہ صرف نظریے کی اعتبار سے بلکہ تجربی اور عملی طور پر بھی اپنے اسٹینڈ پر اصولوں کے تحت نہایت مضبوطی کے ساتھ ایستادہ ہے- ادیب جب وقت کے فلسفوں اور اس کے تقاضوں نیز الجھنوں کو اپنی تحریروں میں جگہ دیتا ہے تو پھر وہ وقت کی حدوں سے باہر نکل کر اپنے ادب کو ایک شاہکار بنا دیتا ہے- غم اگر وقتی ہو تو بیان بھی وقتی ہوتا ہے مگر جب وہ روگ بن کر ناسور کی شکل اختیار کر لے تو بیان ایک تاریخ کی شکل اختیار کرلیتا ہے-
راہی معصوم رضا کی نمایاں تخلیقات میں آدھا گاؤں ، ٹوپی شُکلا، ہمت جون پوری، نیم کا پیڑ، اوس کی بوند ،دل ایک سادہ کاغذ، کٹرہ بی آرزو، سین پچھتر اور اسنتوش کے دن نمایاں حیثیت رکھتی ہیں- ان کی تخلیقات کو پڑھتے ہوئے ان کا سیاسی، تاریخی، سماجی اور ثقافتی شعور آپ اپنے گرد و پیش میں پوری تابناکی سے محسوس کر سکتے ہیں- ان کے ادب کو عصری حالات سے مربوط کرتے ہوئے جدید تقاضوں سے ان کی معنویت پیدا کرنا کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے کیونکہ انہوں نے جن مسائل پر قلم رکھا ہے وہ تہذیبوں کے سینوں پر رکھے ہوئے ایسے زخم ہیں جن کے اثرات اور نتائج دیرپا ہیں- مثلاً آدھا گاؤں ہے تو ماضی پرستی/ یادِ ماضی (Nostalgia) اور مستقبل کے بھارت کی تاریخ کی ایک دھندلی تصویر آپ کے سامنے ہے، جس میں وقت کی سلوٹیں ہیں، بچھڑنے کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے، گنگولی (راہی کا گاوٴں) ہے، تقسیم ہے، اور ہندوستانی مسلمان ہیں- آدھا گاؤں تو سماجی ، تاریخی اور سیاسی کلچر کی حقیقی طاقت ہے – ٹوپی شکلا ہے تو سیکولرزم کا المیہ ہے کہ ٹوپی کے ارد گرد ایسے لوگ ہیں جو تعلیم یافتہ تو ہیں مگر خطرناک حد تک فرقہ پرست بھی ہیں- ہمت جون پوری ہے تو زندگی کی سنگھرش گاتھا ہے- دوسری جانب وقت کی صلیب پر دستک دیتی اوس کی بوند ہےجس میں ہزاروں دل، دلوں کی دوریوں کی وجہ سے بے دل ہو گئے ہیں- دل ایک سادہ کاغذ ہے تو انسانی زندگی کا المیہ ہے- اندرا گاندھی کی سنہ 75 والی ایمرجنسی کی دہشتناکی ہے تو کٹرہ بی آرزو ہے – فرقہ وارانہ ماحول کی بھیانکتا ہے تو اسنتوش کے دن ہے- غرض کہ انفرادی طور پر راہی کے متن میں ایک بار اتر کر دیکھنے پر لگتا ہے کہ جو مسائل راہی نے کئی دہائی پہلے اٹھائے تھے وہ آج جس کے تس بنے ہوئے ہیں- اس لیے عصری ماحول میں راہی سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ راہی خود بھی مشترکہ تہذیب کا بہترین تربیت یافتہ ہے اور بمبئی جیسے ایک بڑے شہر میں بسے ہونے کے باوجود بھی اپنے گاؤں کی مٹی میں اندر تک دھنسا ہوا فرد ہے- ورنہ کیا بات ہے کہ راہی کو اپنے ایک ناول کی تمہید میں یہ تک کہنا پڑا کہ میں تین ماؤں کا بیٹا ہوں: نفیسہ بیگم، گنگا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جن میں نفیسہ بیگم تو مر چکی ہیں لیکن گنگا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہیں- انسانی شناخت کی خوبصورتی در حقیقت بدلتے ہوئے جدید تقاضوں کی روشنی میں ذرا تلاشیے تو کتنے لوگ ایسے ہوں گے جن کا شعورِ محبت اپنی مٹی کے تئیں اس قدر پختہ ہو بالخصوص شہروں کے باشندے جنہیں ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر وطن پرستی کے قصیدے پڑھنے کے بعد ‘ سب کچھ اچھا ہے’ جیسے خیالات ان کی راتوں کو سکون بخش دیتے ہیں-
راہی معصوم اندرونی اور بیرونی دونوں قسم کی تنقید پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے تھے- اس لیے جہاں وہ مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی ایک خاص پس منظر میں رکھتے ہیں جو ہر طرح سے لٹے پٹے ہیں تو دوسری جانب آپسی تضادات اور کشمکش کا بیان بھی اسی بیباکی سے کرتے ہیں – وہ آئندہ بھارت کی تصویر با لخصوص مسلمانوں کی سماجی اکائی پر زبردست چوٹ کرتے ہوئے تفصیل سے تذکرہ کرتے ہیں کہ اسلام اصولی طور پر ذات پات کے نظام کے خلاف ہے، لیکن عملی تجربے میں چھوٹی بڑی ذات کا سوال ہندو مذھب کی طرح ہی مضبوط ہے- یعنی مسلمانوں میں سید، شیخ، پٹھان جیسی نام نہاد اعلیٰ ذاتیں جو لا ہوں، راقیوں، قصائیوں، کنجڑوں وغیرہ کو بھی ہندوؤں کی چھوٹی ذاتوں کے ہم پلہ رکھتی ہیں- موجودہ دور میں مسلمانوں کی یہ سماجی صورت حال کتنی بدل گئی ہے؟ اپنے ایک ناول میں راہی بار بار یہی سوال اٹھاتے ہیں کہ جب اندھا اعتقاد کسی سماج میں پیدا کر دیا جاتا ہے تو سچ- جھوٹ، خیالی پلاؤ- حقیقت کے بیچ کی دیواریں ٹوٹ جاتی ہیں- موجودہ دور میں ہر طرف اندھ بھکتی کے سیاق میں اس رکھ کر دیکھیں تو تصویر بہت حد تک واضح ہو جاۓ گی -اگر ہمیں واقعی یہ سمجھنا ہے کہ مذہب اور کلچر کو عوامی نفسیات میں کیسے استعمال کیا جاتا ہے تو اوس کی بوند اور نیم کا پیڑ ذہنوں کو کھول دینے والی کتابیں ہیں-
کچھ یہی کیفیت ٹوپی شکلا میں بھی ہے- یونیورسٹی کیمپس کے ارد گرد گھومنے والا یہ ناول آج کئی یونیورسٹیوں کی پول پٹی کھولتا ہے- کیمپس کی سیاست کے ارد گرد گھومنے کے باوجود ٹوپی شکلا فرقہ واریت پر زبردست طمانچہ ہے- راہی کے الفاظ کی دھار کہیں کہیں ہمیں چھیل کر رکھ دیتی ہے مثلاً ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ہندو مسلم دنگوں میں ایک بار پھرابال سا آجاتا ہے، جس سے ہر طرف لاشیں ہی لاشیں نظر آجاتی ہیں—– ہندوستانی لاشیں- یہ لفظ ہندوستانی لاش کسی انسان کی لاش نہیں ہوتی بلکہ فسادات میں متاثر ہر شخص خواہ ہندو ہو یا مسلمان، دنیا کے نقشے پر موجود اس سب سے عظیم جمہوریت اور سیکولر ازم کی لاش ہوتی ہے- سچ کہیں تو یہ لاشیں عالم انسانیت کی لاشیں ہیں جن کو وقت کا رتھ روند کر آگے نکل گیا ہے اور ہمارے ہاتھ بس ندامت، تھکن ، بیروزگاری اور بے بسی جیسے جُھنجھنے ہیں- فسادات کی صورت حال موجودہ دور میں بھی کم و بیش یہی ہے- کچھ اس طرح کی عکاسی سین پچھتر میں بھی ہوئی ہے- فلمی دنیا پر مبنی اس ناول میں بھی فسادات کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ان دنوں (یعنی آزادی کے فوراً بعد کے عہد میں) شمالی ہندوستان میں اس خیال کو ماننا ایک فیشن تھا کہ عزت و آبرو صرف ہندو عورت کےپاس ہوتی ہے مسلم عورت کے پاس صرف بدن ہوتا ہے- بدن کی سیاسیات اور نفسیات پر انہوں نے مثالوں کے ذریعہ ایسے اشارے دیے ہیں جنھیں ہم موجودہ فسادات کی روشنی میں پرکھ سکتے ہیں کہ کس طرح عورتوں کو ایک سامان کی طرح استعمال کیا جاتا ہے جو مشکل لمحوں اور خالی اوقات میں حملہ آوروں کی نفرت کو آسودگی دیتی ہیں- راہی معصوم کے بیان کردہ آزادی کے فوراً بعد کے شمالی ہندوستان کا وہ طبقہ اور اس کی ذہنیت کس حد تک بدلے ہیں کہ آج بھی ہمیں اس قسم کی مثالیں دیکھنے اور سننے کو مل جاتی ہیں- اس قسم کی عکاسی اسنتوش کے دن میں بھی ہے-
اوس کی بوند کی شہلا کو سنئے تو آنے والے وقت کی آہٹ کا گماں ہوتا ہے- بنیاد پرستی اور فرقہ وارانہ سماج کے قدیم تصورات سے زخم خوردہ شہلا کی رگوں میں خالص ہندوستانی خون بہہ رہا ہے- وہ نام نہاد اخلاقیات کا انکار کرتی ہوئی طنزیہ لہجے میں پدما سے پوچھتی ہے کہ اچھا پدما رانی یہ بتاؤ کہ جائسی، قطبن، تاج، رحیم، عثمان وغیرہ کس کھیت کی مولی ہیں؟ اور کبیر کو کب گرفتار کرے گی تمہاری سرکار؟ پدما کے گھر کا ماحول دین دیال کی ذہنیت سے متاثر ہے- تبھی تو وہ [پدما] ان سے پوچھتی ہے، جب مسلمان لوگ پاکستان بنا ِلِہن ہیں تو جاتے کیوں نہیں؟ یہ ملچھ کب تک ہمارے دیش کو ناپاک اور بھرشٹ کرتے رہیں گے؟ یہ سوال صرف پدما کا نہیں ہے بلکہ پورا ہندوستان اس سوال کے تباہ کن لپٹوں میں گھرا ہوا ہے- کسی تہذیب کا مجموعی زوال اور اقدار میں گراوٹ کا مشاہدہ کرنے کے لیے اوس کی بوند ایک زندہ مثال ہے-
راہی معصوم نے صرف فرقہ واریت پر نہیں لکھا بلکہ عصری حالات میں ان کے یہاں عورتوں کے مسائل کا بھی بھرپور بیان ہے- آدھا گاؤں میں وہ لکھتے ہیں کہ آسیہ چھ بچوں کی ماں بننے کے باوجود بھی با لکل ڈھیلی نہیں ہوئی تھی اور اُمّل [جو کہانی میں شادی کے تین دن بعد ہی بیوہ ہو گی تھی] بالکل ڈھیلی ہو گئی تھی کیوں کہ وہ ماں نہیں بن سکتی تھی- اس کی چھاتیاں لمس کا انتظار کرتے کرتے سوکھ گئی تھیں- آنکھوں کا رس تنہائی کی تیز دھوپ میں بھاپ بن کر اڑگیا تھا- اس کی صراحی دار گردن میں جیسے سوراخ ہوگیا تھا کہ آواز کی ساری مٹھاس قطرہ قطرہ کر کے بہ گئی تھیں- اب یہاں پر ذرا دیر کو ٹھہر کر سوچیں تو مسلم سماج میں بیوگی کو لے کر ذہنیت کتنی بدلی ہے یہ کسی سے چھپا نہیں ہے- راہی معصوم نے بہت سارے مظاہر کو علامت کے طور پر استعمال کیا ہے جیسے ٹوپی شکلا کی موت در اصل ایک انسان کی موت نہیں بلکہ ایک عہد کی موت ہے- وہ ٹوپی شکلا کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ خود کشی کسی بھی تہذیب کی موت ہوتی ہے، آدھا گاؤں میں بے شمار گالیا ں تھیں، ٹوپی شکلا میں ایک بھی گالی نہیں ہے مگر یہ پورا ناول ایک گندی گالی ہے جسے میں ڈنکے کی چوٹ پر بک رہا ہوں- یہاں پر یہ بھی قابل مذکور ہے کہ راہی صاحب کے کئی ناولوں میں سیدھی سیدھی سفاک گالیاں ہیں، اس سلسلے میں ان سے ایک بار پوچھا بھی گیا تھا کہ آپ کے ناولوں میں اتنی گالیاں کیوں ہوتی ہیں۔ راہی صاحب نے جواب دیا کہ اگر میرے ناول کا کوئی کردار گاوٴں کا کوئی اوباش لڑکا یا شہر کا کوئی اٹھائی گیرا فرد ہے تو اس کے منہ سے میں گیتا کے شلوک تو نہیں پڑھواوٴں گا، اگر میں گالیاں نہ لکھوں تو کیا لکھوں **** پھر تو پڑھنے والے اپنی طرف سے گالیاں گڑھنے لگیں گے تو صاحب گالیوں کے معاملے میں مجھے اپنے کردار کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں۔
سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ راہی معصوم نے جس انسانی فطرت ، اقتدار اور وسائل کے آپسی روابط کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے نتائج کا نقشہ ادب میں کھینچا ہے وہ لاثانی ہے- محسوس یہ ہوتا ہے کہ مسائل جن پر انہوں نے بے تحاشا لکھا ہے وہ ہماری کئی نسلوں تک چلنے والے ہیں- وسائل پر قابض طبقے کی فطرت اور ان کے اعمال کے پس پشت کار فرما عوامل کو راہی صاحب نے بلا کسی ادبی مبالغے کے بڑی چابکدستی سے لکھا ہے- گھریلو مسائل، سماجی اور سیاسی مسائل ، محفلوں اور بیٹھکوں میں ہونے والے مباحثے، وجودی بحران سے جوجھتا ہوا انسان، انسانی رشتوں کےبیچ حائل بے شمار وعدے اور معاہدوں کے درمیان راہی صاحب ایک بہترین فوٹوگرافر اور مصور ہیں- راہی معصوم رضا کے یہاں بے شمار ایسے مسائل ہیں جو عصری حالات کے فریم ورک میں اپنی تمام تر معنویت کے ساتھ فٹ بیٹھتے ہیں- یہ کہا جا سکتا ہے کہ ساٹھ کی دہائی کے بعد ہندوستانی ادب میں راہی ایک منفرد نام ہیں- اس ملک کے عام آدمی کے لیے ایک ایسا جہان جس میں فقدان اور دکھ تکلف کے ساتھ ساتھ ہیں- لیکن اس میں عشق و آرام اور فرحت کے پل بھی ہیں جس میں نفرت کے ساتھ ساتھ الفت اور محبت کی ایسی دھارائیں بھی ہیں جو انسانی نفسیات کی اندرونی پرتوں کو کھولتی ہیں- انسانی زندگی کے غم و الم سے بھرے ہوئے ماحول میں چند ایسے لمحات بھی ہیں جو آدمی کو اپنے جذبہٴ حصار میں کھینچ لیتی ہیں-