خرم سہیل
ہندوستان کی فلمی صنعت میں بے شمار ایسی فلمیں ،جن کودیکھنے کے بعدایک تاثر ذہن میں رہ جاتاہے۔فلم صرف کہانی بیان کردینے کافن نہیں،بلکہ اس میں کرداروں کے ذریعے مکالمہ اورموسیقی کی بدولت جذبات کااظہار بھی ہوتاہے۔برصغیر پاک وہند کے سینماکی تاریخ میں موسیقی ایک اہم ہتھیار کے طورپر بھی استعمال ہوئی ہے،جس کی گدگدی سے فلم بین کو متوجہ کرلیاجاتاہے۔موسیقی بطورہتھیار رومانوی فلموں میں زیادہ استعمال ہوتی ہے،لیکن رومان میں اگرشدت کااحساس بھی انڈیل دیاجائے، توپھروہ دوآتشہ ہوجاتی ہے۔بالی ووڈ کے تجربہ کار اوررومانوی فلموں کے کاریگر’’مہیش بھٹ‘‘ اس فن میں تاک ہیں،جہاں فلم ان کہے حروف اورتشنہ خواہشوں کی عکاس بن جاتی ہے۔
مہیش بھٹ کے خیال میں زندگی کو محسوس کرنا ہی درحقیقت فن ہے،انہوں نے فلم بناتے وقت زندگی کو اس کے اصل معنوں میں فلم بند کیا،اسی لیے فلم بین جب ان کی بنائی ہوئی فلمیں دیکھتے ہیں،توانہیں اس میں اپنے احساسات کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ان میں سے بعض پہلوتوایسے ہوتے ہیں،جنہیں شاید ہم کسی سے بیان بھی نہ کرنا چاہیں،مگر مہیش بھٹ کی فلموں کاانتخاب ہمیں رسواکروادیتاہے۔بلوغت میں قدم رکھنے کے بعد نوجوان نسل کے مسائل،رومان کی آنچ محسوس کرنے والے دھڑکتے دل،میٹھی موسیقی کے دلدادہ نوجوانوں کو ان کی بنائی ہوئی فلمیں اپنی طرف متوجہ کیے رکھتی ہیں۔وہ ان فلموں کی موسیقی سے لطف اندوزہوتے اوراپنے تصور کے پردے پر اپنے اپنے کرداروں کے ساتھ وقت بتانے کوبے چین دکھائی دیتے ہیں۔
مہیش بھٹ کافنی کیرئیر ایک طویل پس منظر رکھتاہے۔انہوں نے 1974میں فلم’’منزلیں اوربھی ہیں‘‘سے اپنی ہدایت کاری کاآغاز کیا۔فلم کے پردے پر سرگرم رہنے کے ساتھ ساتھ وہ تھیٹرسے بھی وابستہ رہے۔کئی دہائیوں سے فلمیں تخلیق کرنے کے کام میں وہ اب تک بالی ووڈ کی تقریباً نصف فنکار نفری کو اس صنعت میں متعارف کرواچکے ہیں۔پہلے خود فلمیں بناتے رہے،پھراپنے پروڈکشن ہاؤس کے ذریعے اپنا یہ کام دوسری نسل کو منتقل کردیا۔اب ان کی صاحب زادیاں ’’پوجابھٹ‘‘اور’’عالیہ بھٹ‘‘بھی ہدایت کاری اوراداکاری میں ہمہ تن مصروف ہیں۔دونوں کو بے باکی والد سے ورثے میں ملی ہے۔اس لیے ان کے حسن کا طلسم سرچڑھ کر بول رہاہے۔ان کے چاہنے والے بھی بے شمار ہیں۔
مہیش بھٹ اپنے کیرئیر میں اب تک 100کے قریب فلمیں بناچکے ہیں۔ان فلموں کے موضوعات عام انسان کی زندگی اوراحساسات کی عکاسی کرتے ہیں۔رومان اور جرم وسزا کی کہانیاں ہیں ،جن میں قابل ذکر فلموں میں ،گینگسٹر،وہ لمحے،روگ،زہر،مرڈر،فٹ پاتھ ،انتہا،جسم،پاپ،راز،گناہ،قصور،کاتوس،سنگھرش، ارتھ، لہو کے دورنگ،ہم ہیں راہی پیار کے،سایہ،زہر،روگ،نظر،کلیوگ،ہماری ادھوری کہانی،لوگیمزاوردیگر فلمیں شامل ہیں۔کئی ایک فلموں کے تو دواورتین پارٹ بھی بن چکے ہیں،جیسے راز،مرڈراورجسم وغیرہ ہیں۔ان فلموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہیش بھٹ ،رومان کے ساتھ جرائم اورانسانی کوتاہیوں کو بھی موضوع بناتے ہیں۔سماجی مسائل بالخصوص انسان کے داخلی معاملات کو فلم کے پردے پر پیش کرنے کی کامل مہار ت کے حامل صرف مہیش بھٹ ہی ہیں۔ان کی فلموں اورموضوعات پر بے حد تنقید بھی ہوتی ہے،مگرکوئی فلم ساز بھی کیا کرے،اگرسماج کا چہرہ بدنما ہے، تووہ فلم کے پردے پربھی ویساہی دکھائی دے گا۔
ان کی کہانیوں میں رومان کے معاملے میں عورت کو حساس دکھایا ہے جو کہیں مرد کو حسین دھوکے دیتی ہے اور کبھی خوبصورت گناہوں پر آمادہ کرتی اور مدہوش کردیتی ہے ،اس کی مثال کئی فلمیں ہیں جن میں ،دھوکہ،جسم،زہر،راز،قصور وغیرہ شامل ہیں ۔اسی طرح کہیں یہ عورت دماغ سے کام لینے والے کو دل کی دنیامیں لے جاتی اوراپنے حسن کے جنگل میں بھٹکا دیتی ہے ۔مثال کے طورپرفلم’’روگ‘‘جس میں ایک پولیس انسپکٹر جس کو نیند نہیں آتی،وہ ماہر نفسیا ت کے زیرعلاج ہوتاہے۔انہی دنوں ایک خوبصورت عورت کا قتل ہوجاتا ہے، وہ جائے واردات پر پہنچتا ہے، گھر میں لگی اس ماڈل کی تصویریں دیکھ کر اپنا ہوش کھو بیٹھتا ہے۔ تفتیشی عملے کو واپس تھانے بھیج کر خود اُسی گھر میں رات بسر کرتا ہے اور نیند بھی اس کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیتی ہے ۔اسی طرح گینگسٹر میں ایک لڑکی محبوبیت کا ناٹک رچا کر کس طرح اپنے محبوب کو پولیس والوں کے حوالے کردیتی ہے ،وہ بھی ایک عورت کا روپ ہے۔مرڈراورجسم کی کہانیاں بھی انہی جرائم کی داستان کو بیان کرتی ہیں۔
مہیش بھٹ کی فلموں میں ایک چالاک عورت کا روپ بھی نمایاں ہوتاہے جو زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے ،محبت فروخت کرسکتی ہے ،اپنی اداؤں سے کسی کو بھی ڈس سکتی ہے۔کہیں کہیں ان فلموں میں وہ عورت بھی ہے، جس کی محبت کسی کو جرم کی دنیا سے باہر نکال لیتی ہے ،محبتوں اور نفرتوں کے بہت سے راز ان فلموں میں کھُلتے دکھائی دیتے ہیں ۔دل میں چُھی ہوئی ان کہی باتوں کو ،اِن فلموں کے مکالمہ نویسوں نے بہت خوبصورتی سے سمیٹا ہے ۔بھٹ پرڈکشن کی فلموں میں ایک خوبی یہ بھی ہے، انہوں نے کچھ ممنوعہ موضوعات کو بھی کیمرے کی آنکھ میں قید کیاہے۔ایک مثال فلم ’’تمنا‘‘ہے جس میں ایک ہیجڑے کو کچرے کے ڈھیر سے ناجائز بچہ ملتا ہے اور وہ اس کو پالتا ہے ،اس کے لیے اپنی زندگی وقف کردیتا ہے اور اپنی مامتا کو نچھاور کردیتا ہے مگر بے رحم دنیا کا سلوک وہی ہے جو ہمیشہ سے بدی کا نیکی کے ساتھ رہا ہے ، مہیش بھٹ کی یہ فلم ان کو ہمیشہ آرٹ فلموں کی تاریخ میں زندہ رکھے گی ۔
مہیش بھٹ کی فلموں میں موسیقی کاپہلو بہت مضبوط اورمتاثرکن ہوتاہے۔اسی لیے ان کی فلمیں دیگرفلم سازوں کی فلموں سے منفردمحسوس ہوتی ہیں۔ کچھ تخلیق کارتو ایسے ہیں ،جن سے مہیش بھٹ نے بخوبی کام لیاہے،جس طرح موسیقاروں میں ’’ایم ایم کریم ‘‘اورگیت نگاری میں ’’سعید قادری ‘‘کا امتزاج بہت حسین ہے ،ان دونوں نے کئی فلمیں ایک ساتھ کی ہیں اور لازوال میوزک تشکیل دیا ہے ،فلم ’’روگ‘‘اور ’’جسم ‘‘ اس کی بہترین مثال ہیں ۔’’میں نے دل سے کہا، ڈھونڈ لانا خوشی ،ناسمجھ لایا غم تو غم ہی سہی ‘‘اور’’تیرے اس جہاں میں اے خدا ،وہ جو نہیں تو لگتا ہے کچھ بھی نہیں ‘‘وہ گیت ہیں جو ہمیشہ سماعتوں میں نقش رہیں گے ، اسی طرح فلم جسم کا گانا’’جادو ہے نشہ ہے ‘‘اور ’’آوارہ پن‘‘کو کون بھلا سکتا ہے ۔اسی طرح،قصور،پاپ،راز،گینگسٹر،وہ لمحے کی موسیقی کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی اور 1997میں بننے والی فلم ’’تمنا ‘‘کی موسیقی کو بھی نہیں بھلایا جاسکتا ،اس فلم کے نغمے جن میں ’’شب کے جاگے ہوئے تاروں کو بھی نیند آنے لگی ‘‘اور ’’گھر سے مسجد ہے بہت دور ،چلوں یوں کرلیں ،کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے ‘‘وہ نغمے ہیں جو سماعت کے راستے دل میں اتر جانے والے نغمے ہیں۔مہیش بھٹ نے عاطف اسلم اورراحت فتح علی خان جیسے پاکستا ن کے گلوکاروں کوابتدائی طورپر اپنی فلموں میں گائیکی کاموقع دے کر ان کو مضبوط سہارادیا،آج وہ دونوں بالی ووڈ کی معروف اوراہم آوازیں ہیں۔
بھٹ صاحب کی فلموں میں ناظرین کے لیے فلم زندگی کی تلخیوں سے تھوڑی دیر کے لیے فرار کا ایک راستہ ہوتا ہے اور اس راستے سے وہ خیال کی دنیا میں داخل ہوتا ہے ،جہاں اس کی مرضی کے کردار رہتے ہیں ،دل کی خواہشوں کی تکمیل ہوتی ہے ۔مہیش بھٹ آنکھوں میں سجے ہوئے ان خوابوں کا خیال رکھتے ہیں ،دل میں پوشیدہ اور زبان پر آکر رُکی ہوئی بات کو بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور اپنی فلموں کے ذریعے انہوں نے ،اس ہنر کو ثابت کیا ہے خواب دیکھنے والے نوجوان طبقے میں بھٹ کیمپ کی فلموں کی مقبولیت کا راز یہی ہے کہ وہ ان کہی کو کہنے کا ہنر جانتے ہیں ۔فلم کی کہانی ہو یا میوزک ،اس میں ناظرین کی پسند کو مد نظر رکھا جاتا ہے ۔کہیں کہیں ان کی فلمیں رومان سے شہوت کی طرف بھی جاتی ہیں لیکن درحقیقت یہ بھی ایک ایسے پہلو کی عکاسی ہے جو ہماری جبلی ضرورتوں سے جڑا ہوا ہے ،انسان کی محبت اور ہوس میں ایک باریک لائن ہوتی ہے ،اس کو مہیش بھٹ کی فلموں میں نہایت خوبصورتی سے دکھایا جاتا ہے ۔
20ستمبر 1949کو پید اہونے والے مہیش بھٹ نے اپنے فلمی کیرئیر میں بے شمار ہٹ فلمیں دی ہیں اور بالی دوڈ میں رومانوی فلموں کے رجحان کو فروغ دیا ہے ۔آپ نے کچھ فلموں میں اداکاری بھی کی مگر پھر مستقل طورپر ہدایتکاری اور اسکرپٹ رائٹنگ سے وابستہ ہوگئے ۔انہوں نے کم بجٹ اور ہلکے پھلکے موضوعات کا انتخاب کیا ،اسی لیے ہر خاص و عام نے آپ کی فلموں میں دلچسپی لی اور پھربالی وڈ کے اسٹارڈم کو بھی آپ نے توڑا اور نئے چہروں کو سامنے لائے اور بہت سے پاکستانی فنکاروں کو بھی اپنی فلموں میں متعارف کروایا ۔پاکستان اور انڈیا کے مابین ثقافتی روابط بہتر بنانے میں بھی آپ کی بے شمار خدمات ہیں ،اس کے صلے میں انڈیا کی عوام سے آپ کو طعنے بھی سننے پڑے مگر آپ نے ہمیشہ پاکستانی فنکاروں کے ساتھ تعاون کیا اور آج ہمارے سینماؤں میں انڈین فلمیں زینت بن رہی ہیں ،اس کا سہرا بھی مہیش بھٹ کے سر جاتا ہے ۔پاکستان آمد کے موقع پر میں نے ان سے ملاقات میں کہا’’اپنی زندگی پرکوئی کتاب لکھیں‘‘تومسکراکرکہنے لگے۔’’ابھی زندگی میں کیاہی کچھ نہیں،جب کوئی کمال کریں گے توپھرلکھیں گے۔‘‘
جب بھی سریلی موسیقی اوررومانوی کہانیوں کی بات نکلے گی،تووہ مہیش بھٹ تک جائے گی۔ایسی فلموں کے کردار ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ،اِن فلموں کے نغمے گونجتے ہیں، یادوں کی باز گشت کی آواز گیتوں میں سنائی دیتی ہے ۔ان کو فلموں کودیکھتے ہوئے اپنے آپ سے مکالمہ کرنے کوجی چاہتاہے ،یہی مہیش بھٹ کی فلموں کا جادوہے،جوسرچڑھ کربولتاہے،چاہے کوئی کتنی تنقید کرے،مگران مدھر گیتوں کوسماعت کیے بغیررہ نہیں سکتا،یہی بھٹ صاحب کا فن عروج ہے۔۔۔