یہ تصویر ہمارے اجتماعی رویوں کی عکاسی کر رہی ہے۔ ہم سب کچھ جان بوجھتے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہیں مگر ہم کچھ نہیں کر پاتے۔ ریلوے ٹریک تقریباً پاکستان کے ہر حصے میں پھیلا ہوا ہے ۔ ریلوے لائن کو سگنل فری بنایا گیا تھا تا کہ ٹرینوں کی آمد کو کسی تاخیر اور رکاوٹ کے بغیر جاری رکھا جا سکے۔ اس سلسلے میں پُل، انڈر پاس اور ریلوے بھاٹک بنائے گئے۔ چوں کہ یہ سارا ٹریک انگریزوں نے بچھایا، اس لیے اس کی بنیادوں میں بہترین کاری گری ملتی ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ حالات نے پلٹا کھایا تو زندگی پیچیدہ ہونے کی وجہ سے یہ پُل، اور کراسنگز نامکمل اور تھوڑے محسوس ہونے لگے۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ کئی شہری آبادیوں میں بھی بھاٹک اور پلوں کی شدید کمی کا احساس ہوتا ہے۔ پورا شہر ایک طرف کھڑا دوسری طرف جانے کا منتظر دکھائی دیتا ہے۔ گذشتہ کچھ حادثات نے پھاٹکوں کی اہمیت کو دوچند کر دیا ہے۔ سینکڑوں معصوم افراد ان پھاٹکوں کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نگین مسئلے کی طرف توجہ دی جائے اور حالات بہتر کئے جائیں۔ ورنہ معلوم نہیں کتنے اور افراد اس بے گناہ قسم کی موت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان مرنے والوں میں ہمارا نمبر بھی ہو سکتا ہے۔