میڈیا، زبان اور پاکستانی معاشرہ
از، قاسم یعقوب
اکیسویں صدی کے پہلے ہی عشرے میں پاکستانی معاشرے کو دو ہیجان انگیز تبدیلیوں سے گزرنا پڑا۔ ایک واقعہ نائن الیون کا تھا جس کے آفٹر شاکس کا براہِ راست شکار پاکستان بنا ۔ طالبانی باقیات اپنے تمام فکر و فلسفہ کے ساتھ پاکستان کی جغرافیائی حدود میں داخل ہو گئی جس کا پیچھا کرتے ہوئے اتحادی ممالک کی افواج بھی پاکستان میں در آئیں۔یہ عجیب صورتِ حال تھی اس سے پہلے 79میں بھی یہ سب کچھ دیکھا جا چکا تھا جب روس افغانستان میں داخل ہوا اور اُس کو روکنے کے لیے امریکہ اس علاقے میں ’’اپنا حق‘‘ سمجھتے ہوئے داخل ہوا مگریہ سب کچھ پاکستان سے باہر تھا ،ایک ہمسائیہ ملک میں ہُوا تھا۔اس دفعہ یہ جنگ پاکستان کے اندر لڑی گئی جس نے پاکستان کی معاشی اور معاشرتی زندگی کو ہی درہم برہم نہیں کیا بلکہ فکری سطح پر بھی قوم میں انتشار پیدا کیا۔ سماجیات کے رشتے ٹوٹنے لگے اور لوگ دوبارہ رجعت پسندی کی طرف لَوٹنے لگے۔
دوسری بڑی تبدیلی اس عشرے کے آغاز ہی میں الیکٹرونک میڈیا کا ظہور تھا۔ایک دم کئی چینلز بالکل آزادانہ انداز سے ملکی سیاسی اور سماجی صورتِ حال کو نشانہ بنانے لگے۔ چوں کہ اس خطے میں صرف ایک ٹی وی اسٹیشن تھا جو مکمل طور پر حکومت کے زیرِ اثر تھا۔اس لیے عوامی سطح پر اظہارِ رائے کی آزادی کی کوئی تربیت نہیں تھی ،ایک ہی چینل پر نیوز، سپورٹس، تھیٹر، ڈرامہ اور فیچر پروگرامز پیش کئے جاتے۔ایک دم ہر شعبے کا الگ الگ چینل سامنے آنے لگا۔ پاکستانی عوام کے لیے یہ بھی عجیب تھا کہ ایک چینل سارا دن صرف خبریں ہی سناتا جائے، اسی طرح صرف سپورٹس اور ڈرامے ہی چینلز دکھاتے جائیں۔ یوں ایک طرح کی بے اعتدالی دونوں طرف سے پیدا ہوئی۔ عوام (ناظرین)کی طرف سے بھی اور چینلز کے مالکان اور پروڈیوسرز کی طرف سے بھی________چینلز نے بھی بے اعتدالی سے کام لیا اور ناظر بھی سمجھنے سے قاصر رہا کہ چھوٹے سے واقعے کو اتنا بڑھا چڑھا کے کیوں پیش کیا جا رہا ہے۔
اصل میں میڈیا کا کردار سمجھنے سے پہلے ہمیں اپنے معاشرے کی نفسیات کامطالعہ کرنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے کی سیاسی اور سماجی زندگی میں بہت بے اعتدالی اور بے ترتیبی ہے۔ جب ملک کے چیف جسٹس کو بالوں سے پکڑ کر وین میں ڈالا جا رہا ہو گا تو دیکھنے اور دکھانے والے دونوں پریشان اور ہیجان انگیز صورتِ حال سے گزریں گے اور اُن پر تبصرے بھی بہت متنازعہ اور کثیر فکری ہوں گے۔مجھے ایک دفعہ ایک نہایت اہم شاعر اور یونیورسٹی پروفیسر نے یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ’’ دیکھیے ، ہمارے چینلز پر ایک ہی خبر باربار ہر آدھے گھنٹے بار دوہرائی جاتی ہے اور پھر رات کو اُن پر تبصرے ہوتے ہیں، بھلا ہمارے دور میں پی ٹی وی پر ایسا ہوتا تھا؟‘‘ میں نے اُنھیں کہا کہ نیوز چینل پر تو خبریں ہی ہوں گی ناں۔ اور پی ٹی وی تو صرف نیوز چینل نہیں تھا، اگر آپ نے ڈرامے دیکھنے ہیں یا سپورٹس تو آپ سپورٹس یا ڈرامہ چینلز پر جائیں‘، حتی کہ اب تو کوکنک اورمذہبی چینلز بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں‘‘۔ یہ وہی فرق ہے جو نئی صورتِ حال میں آنے کے بعد بھی پہلی صورتِ حال میں رہنے سے ہو جاتی ہے۔
پاکستانی معاشرے میں اسی قسم کا تضاد آپ کو ہر جگہ ملے گا۔ میرے خیال میں میڈیا کی آزادی کا مثبت اور منفی اثریکساں رہا ہے۔ اس چیز کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ہاں کتنے ادارے خود احتسابی کے عمل سے شفاف طریقے سے گزرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ انصاف کی صورتِ حال کتنی تسلی بخش ہے؟ اور کس قدر ایک عام آدمی اپنی ذاتی زندگی میں آزاد اور سہولت یافتہ ہے؟ میرے خیال میں اگر ایسی صورتِ حال ہوتی تو میڈیا کے پاس کوئی موضوع ہی نہ ہوتا بلکہ میڈیا تعمیری کاموں کی فہرستیں ہی شائع کر رہا ہوتا۔ اس کی مثال میں آپ یورپ کے بہت سے ممالک لے سکتے ہیں جہاں سیکڑوں ٹی وی چینلز کام کرتے ہیں مگر سیاسی اور خانہ بربادی کے موضوعات خال خال ہی ملتے ہیں مگر ہمارے خطے میں خصوصاً ہندوستان اور پاکستان میں معاشرتی بے ترتیبی کومیڈیانے اپنے حصارمیں لیا ہُوا ہے۔ آپ خود سوچیں جس ملک کے کھلاڑی افیون اور میچ فکسنگ جیسے سنگین جرائم کا شکار ہوں وہاں کھیل میں تندرست فکر کا پروان چڑھنا کتنا مشکل ہے۔سو ایسا ہونا ہی ہے، میڈیا نے ان سب ایشوز کو پینٹ کرنا ہی ہے ۔ ہاں البتہ Directions اور اصلاح ہو سکتی ہے مکمل تبدیلی تو ایک اور بے اعتدالی کو جنم دے دے گی۔
پاکستانی میڈیا نے کچھ زبان کے حوالے سے بھی اہم کام سر انجام دیے ہیں جس کی طرف بہت کم دھیان گیا ہے جن میں چند ایک تو بہت اہم ہیں:
۱۔ اُردو زبان کو جتنی اہمیت ٹی وی چینلز نے دی ہے ،شاید جامعات نے بھی اُردو زبان کے پھیلاؤ کے لیے اتنا کام نہیں کیا۔ یاد رہے میں نے پھیلاؤ کہا ہے(معیارنہیں) جو ترقی کا پہلا زینہ ہوتا ہے۔ یہیں سے زبان کی خالص شکل متعین کرنے کے لیے کام کیے جاتے ہیں۔ جیسے انگریزی دنیا کے ہرکونے میں گئی اور بگڑی بھی____مگر اُس کی خالص شکل ابھی تک قائم ہے۔کیوں کہ اُن کے ہاں زبان کو ایک سماجی علم کا رُتبہ دیا جاتا ہے اور اُس پر سائنسی بنیادوں پہ کام ہوتا ہے۔ ایک انگریزی اخبار نے جب چینل بنایا تو انگریزی زبان میں شروع کیا مگر کچھ مہینے کے بعد ہی وہ انگریزی زبان کی کلچر سےناآشنائی کی وجہ سے چینل کو اُردو میں لے آئے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔یہ پورا تہذیبی مطالعہ ہے کہ آخر ایک مستند انگریزی اخبار کوعوام سے مخاطب ہونے کے لیے اُردو کا انتخاب کیوں کرنا پڑا!
۲۔ میڈیا نے رسم الخط کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہر وقت نستعلیق کو دکھایا جائے گا تو اس کے مقابل رومن رسم الخط کیسے پنپ سکے گا!اُردو رسم الخط کے کلچر کا یہ زمانہ آ گیا ہے کہ اب اُردو بولنے سمجھنے والے رومن رسم الخط سے تقریباً اُکتا گئے ہیں اور اب سوشل میڈیا کی زبان اُردو رسم الخط (نستعلیق؍ نسخ) میں منتقل ہو گئی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب غالب کے دیوان کو رومن رسم الخط میں چھپنے پہ احباب کہہ رہے تھے کہ غالب کو لکھنے دیا جائے جیسے بھی لکھا جاتا ہے آخر اس بہانے غالب پڑھا تو جا رہا ہے۔
۳۔زبان کے بعد بڑا اہم کام علاقائی اورقومی زبان بولنے والوں کے درمیان دوریاں ختم کرنا ہے۔ میڈیا نے یہ کام بہت احسن طریقے سے نبھایاہے۔ دنیا بھر کے کسی بھی کونے میں بیٹھا شخص ٹی وی چینلز کے ذریعے ملک کے سیاسی ، سماجی، تہذیبی اور معاشی اُتارچڑھاؤ میں خود کو شامل سمجھتا ہے۔ اسی طرح خطے کے اندر بھی تہذیبی اورعلاقائی دوریوں کو میڈیا نے اُن کے مسائل کے آئینے میں اُجاگر کیا ہے اور مرکزی یا قومی دھارے میں لانے کا اہتما م کیا ہے۔
میڈیا وار اُس وقت کم ہوگی جب تہذیبی سطح پر کچھ مضبوط رویے سامنے آنا شروع ہوئے۔ ثقافتی طور پر ابھی بہت عدم توازن صورتِ حال ہے جس کا فائدہ میڈیا اٹھا رہا ہے۔ دوسرا اہم نکتہ عوام کی تربیت بھی ہے عوام شاید اسی طرح کے مزاج کو پسند کرنے لگے ہیں ۔