قاسم یعقوب
مادری زبان کی تعلیم بچے کا پہلا ادارہ تھا جہاں سے بچہ سماج کی فکری روایت کو سمجھنے کی کوشش کرتا۔ اصل میں زبان کی تعلیم میں، بچے کو سماجیات کی تعلیم دی جاتی۔ بچے گھروں سے سماجی احترام کو سیکھتے اور یوں یہ سماجی شراکت داری ذاتی تجربات کو اجتماعی کلچر بنا دیتی۔ اس سلسلے میں قران کی تعلیم محض مذہبی تعلیم نہیں تھی بلکہ اس میں خطے کی روایت کو ادراک کرنے کی تعلیم پوشیدہ تھی۔ بچہ اپنی زبان کی تاریخی اور ثقافتی جڑت کو پہچانتا اور پھر اُس روایت کو آگے بڑھاتا یا اُسے ساری عمر اپنی پہچان میں رکھتا۔
مجھے یاد ہے ہم صبح کی نماز پڑھ کر ایک چھوٹے سے مصلّے پر تین، چار بہن بھائی اپنے والد سے قرآن پڑھتے اور عربی زبان کی دروبست کے رموز سے آگاہ ہوتے۔ ہمارے والد بہت اچھی عربی جانتے تھے۔ عربی کے علاوہ وہ بیک وقت انگریزی اور فارسی سے بھی کما حقہ واقف تھے۔اُردو اور پنجابی تو وراثتی زبانیں تھیں۔ ہمارے آبائی گھر خوشاب کی ساٹھ سالہ پرانی تعمیر کے دوران میرے والد کی لکھی ہوئی عربی تحریریں ابھی بھی زندہ اور تابندہ ہیں اس خط کی نفاست سے اُن کی عربی اور زبان کی دسترس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔قرآن مجید کو نستعلیق میں لکھا کرتے اور کہتے کہ نستعلیق میں قرآن اپنے خطے کی ثقافت میں ڈھل جاتا ہے۔ عربی زبان سے آشنائی حاصل کرنااور وہ بھی اپنے والد سے سیکھنا،یقیناً ایک زندہ روایت تھی جو ہماری نسل تک آتے آتے کمرشل ازم میں ڈھل چکی ہے۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ میرے بڑے بھائی کی بیٹی کو قرآن پڑھانے کے لیے ایک مولوی صاحب آتے ہیں۔ وہ اپنا سائیکل گیراج میں رکھتے ہیں اور اُسی دوران ایک چائے کا کپ اُن کے لیے چھلنی سے رِسنا شروع ہو جاتا ہے وہ ابھی پڑھانا شروع نہیں کرتے ، اسی دوران چائے پیش کر دی جاتی ہے۔ وہ چائے کے خاتمے تک نہایت محبت سے نورانی قاعدہ پڑھاتے ہیں اور چائے کے ختم ہوتے ہی اپنی سائیکل نکالتے ہیں اور ___یہ گئے اوروہ گئے۔ میری بھتیجی بھی اپنے بے ڈھنگے دوپٹے کو سر سے اس طرح کھینچ کر پھینکتی ہے جس طرح اسے پھاڑ ہی ڈالے گی۔ یوں یہ مذہبی فریضہ اور نہایت اہم زبان دانی کا سلسلہ کسی بازار کے بند ہو جانے کے بعد والا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ اور تو اور میرے ایک دوست نے کال سنٹر بنایا ہوا ہے۔ اس کال سنٹر کے دو سیکشن ہیں۔ ایک میں یورپ اور امریکی ممالک کے مسلمان گھرانوں کو قرآن پڑھانے کے پیکج دیے جاتے ہیں اور دوسرے سیکشن میں درجن بھر کمپیوٹرز پر اس جال میں پھنس جانے والے مسلمان گھرانوں کے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ وہ آن لائن پڑھتے ہیں۔اور یہ دورانیہ کوئی بیس منٹ تک ہوتا ہے۔اس دوران اگر کوئی بچہ آن لائن نہ ہو تو وہ مولوی صاحب اچھی سی مووی بھی دیکھ سکتے ہیں تا کہ وقت کا ضیاع نہ ہو۔ ان کال سینٹرز کے دو سیکشن ہوتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قران پڑھانے کے لیے گاہک کس طرح’’ گھیرنے‘‘ ہیں ,اس اہم ٹاسک کو مولویوں سے دور رکھا جاتا ہے۔ورنہ وہ اگلے دن خود بھی یہ کام کر کے اُن کے مقابلے میں کال سنٹر بنا سکتے ہیں۔ ان کال سینٹروں کی کمرشل ازم کی بُو میں مجھے کبھی کبھار اپنے والد صاحب کے مصلّے کی یاد آ تی ہے جہاں ہم تین چار بہن،بھائی بیٹھ جایا کرتے تھے اور کس والہانہ محبت سے نورانی قاعدہ پڑھتے________ مگر افسوس اب تو اس صارفیت کی منہ زور طغیانی میں ہر چیز کٹاؤ کی زد میں آتی جا رہی ہے۔
بات زبان کی ہو رہی تھی۔ زبان ہمارے بچوں کا مسئلہ نہیں رہا۔ وہ زبان کو ایک بے کار اور اضافی چیز تصور کرنے لگے ہیں۔ زبان کے ساتھ اگر ادب بھی شامل کر دیا جائے تو یہ اور بھی بے کار اور مضحکہ خیز تصور بننے لگتا ہے۔ عربی، فارسی اور اُردو تو دور کی بات ذرا کسی سے پوچھیں کے کتنوں کو انگریزی آتی ہے۔ نا جانے کیوں ہم نے چار لفظوں کو ترتیب میں کردینے کو زبان آشنائی سمجھ لیا ہے۔ ایک دن میں فیض صاحب کے ایک پروگرام میں شریک تھا جس کی مہمان خصوصی فیض کی چھوٹی بیٹی منیزہ بھی تھی۔ انھوں نے سٹیج پر آ کر بڑے مصنوعی انداز سے کہا کہ مجھے انگریزی آتی ہے میں کوشش کروں گی کہ اُردو میں بات کروں، میری اُردو بہت ’’ویک‘‘ ہے۔ مگر میں نے دیکھا کہ انھوں نے بہت اچھی اور عام فہم اُردو بولی جس طرح کی اُردو وہاں پر موجود ہر مقرر بول رہا تھا۔ان مقررین میں افتخار عارف بھی شامل تھے۔منیزہ کا نہایت خوبصورت جواب عارفہ سیدہ نے دیا۔ وہ جب اسٹیج پر آئیں تو کہنے لگی کہ فیض صاحب جو زبان لکھ کر اور بول کر دنیا بھر میں تہذیب یافتہ کہلائے ، آج وہی زبان نہ لکھ کر اور نہ بول کر اُن کی بیٹی تہذیب یافتہ کہلا رہی ہیں۔
ہم نے زبان کو کچھ غیر ضروری قرار دے دیا ہے ورنہ زبان تو وہ فریم ہوتا ہے جس میں خیالات کی تصویرجوڑی جاتی ہے۔ یہ وہ زائچہ ہے جو چہرے کے خط و خال کی تشکیل کرتا ہے۔ غالب نے کہا تھا کہ’’رازِ مکتوب بہ بے ربطیِ عنواں سمجھا‘‘۔ زبان کی بے ربطی ہمارے نسل کی خیالات اور خوابوں کی بے ربطی کو بیان کر رہی ہے۔ میر انیس ایک دفعہ مشاعرہ پڑھ رہے تھے ۔ کسی شعر کے ایک لفظ کی ادائیگی پر سامنے بیٹھے ایک شاعر نے آوازہ لگایا: میر صاحب یہ تلفظ غلط ہے۔ میر صاحب ایک دفعہ تو ٹھٹھکے مگر فوراً بولے : ’’نہیں یہ لفظ ٹھیک ہے اور میں نے درست تلفظ کے ساتھ باندھا ہے۔‘‘ اُن صاحب نے کہا کہ سند پیش کریں۔ میر نے پھر توقف کیا اور بولے: ’’میرے گھر میں میری ماں ایسے ہی بولتی ہے۔‘‘ گھروں میں تعلیم کا یہ انداز تو بالکل ختم ہو چکا مگر افسوس تعلیمی ادارون میں بھی اب ایسا التزام نہیں رہا۔ بچہ بھرا بیگ لے کر جاتا ہے مگر خالی ہی لوٹ آتا ہے۔
سر بالکل ایسے بجا فرمایا آپ نے۔ بچے اردو لکھنا تو کیا پڑھنا بھی نہیں جانتے۔ اور اشرافیہ کی خواہش یہ ہے کہ ان کے بچے اردو بولیں بھی نہ۔ یہی رواج آہستہ آہستہ نیچے سرایت کر جائے گا