(منیر فیاض)
جان ایشبری (John Ashbery)کا شمار بیسویں صدی کے عظیم ترین امریکی شعرا میں ہوتاہے۔وہ پلٹزر سمیت امریکا کے تقریباً تمام اہم شعری انعامات اپنے نام کر چکا ہے۔اس کی نظم قاری کواس امر پر مجبور کرتی ہے کہ وہ موضوعاتی ، اسلوبیاتی اور ساختیاتی سطح پر شاعری کے بارے میں اپنے روایتی تصور کو تر ک کر کے زبان کی نئی حدود اورفکر کی نئی قوتوں کا ادراک اور تجربہ کرے۔ نقاد سٹیفن کوچ نے اس کی شاعری کو ایسی سرگوشی کہا ہے جو بیک وقت فطانت اورابہام سے معمور ہے اور ایسی لہر کے مانند ہے جوواضح اور مبہم ہونے کی دو چوٹیوں کے درمیان محوِ خرام رہتی ہے۔ انگریزی شاعری کے آدھے نقاد اسے دورِ حاضر کی انگریزی شاعری کا باوا آدم مانتے ہیں اور باقی آدھوں کو اس کی شاعری سمجھ ہی نہیں آتی۔ ایسے شاعروں کی ایک پوری پلٹن ہے جو اس کے اتباع میں شاعری کر رہے ہیں۔
۱۹۵۶ میں شائع ہونے والی اس کی اولین کتاب Some Treesکو Yale Young Poets انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اس کتاب کے بارے میں مشہور شاعر W.H.Audenکا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے یہ ساری کتاب پڑھی مگراس کا ایک لفظ بھی سمجھ نہیں سکے۔
اس کی ۱۹۷۵ میں چھپنے والی کتابSelf Portrait in a Convex Mirrorکو اس کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔اس کتاب پر اسے پُلٹزر سمیت کئی انعامات ملے۔اس کتاب میں شامل اسی عنوان کی حامل طویل نظم بیسویں صدی کی شاعری میں ایک منفرد اہمیت کی حامل ہے۔
ایشبری کا اسلوب طبع زاد ہے جسے بعض اوقات Multi-phonicکہا جاتا ہے۔ اپنے اسلوب میں وہ بہت سارے اسالیب یکجا کر دیتا ہے۔یہ ایک نئی طرح کا بیانیہ ہے جوتصویری، علامتی، نفسیاتی، داخلی خود کلامی، مکالمہ، بآوازِبلند فکر اور شعور کی رو وغیرہ جیسے بہت سے بیانیوں کا امتزاج ہے۔ مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب وہ ایک ہی نظم میں اپنا انداز اچانک بدل لیتا ہے اورپے در پے بدلتا جاتا ہے۔ اس کے پاس متنوع اسلالیب موجود ہیں اور اس کے ہر اسلوب میں اخفا اور اشتباہِ معنی کا کوئی نہ کوئی سلیقہ ضرور ہوتا ہے۔ابہام کو وہ نظمِ جدید کے لئے لازم سمجھتا ہے اور اس قسم کی نظم کہنے کا جواز دیتے ہوئے کہتا ہے’’زندگی نے مجھے جو پیغامات دیئے وہ سادہ، واضح اور مکمل نہیں تھے اس لئے میری نظم بھی پیچیدہ ،مبہم اور ادھوری ہے‘‘۔
اسے نظم میں تجربہ کرنے کا لپکا بھی ہے اور حوصلہ بھی، اور یہ حوصلہ بھی کہ ایک تجربے کی کامیابی کے اسے دوسروں کے لئے چھوڑ کر اگلا تجربہ کرنے کے لئے آگے بڑھ جائے۔ایسا کرنے سے اس کے ناقدین کی محنت اور تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ابھی بھی اس کا یہ کہنا ہے کہ وہ ایسی نظم لکھنا چاہتا ہے جس کے بارے میں کوئی نقاد کچھ بھی کہہ سکنے کے قابل نہ ہو۔
نظم نگاری آغاز کرنے سے قبل اس نے کچھ عرصہ پیرس میں مصوری کی اور بعد میں فنِ مصوری کے نقاد کی حیثیت سے بھی کام کیا۔اس کے ہاں ایسی نظموں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں وہ مصوری کی تکنیک استعمال کرتا ہے۔ ا س کے ہاں سرئیلزم اور ایکسپرشنزم کی تکنیکیں زیادہ ملتی ہیں مگر وہ اکثر انہیں بھی چھوڑتے ہوئے کہیں آگے نکل جاتا ہے۔ زیرِنظر نظم اس کے اولین مجموعہ Some Treesمیں شامل ہے۔اس نظم میں مصور جدید عہد کا فنکار ہے جو روایت سے محض انحراف نہیں بلکہ مکمل بغاوت کر رہا ہے۔ عمارتیں ماضی کے شاہکاروں کی علامت کے طور پر دیکھی جا سکتی ہیں اور ان پر موجود لوگ ایسے فنکار ااور ناقدین ہیں جو روایت کے اصولوں کے آگے مکمل طور پر جھکے ہوئے ہیں۔ وہ جدید فنکار کے ذہن میں موجود معصومانہ ابہام کو سمجھنے پر آمادہ ہی نہیں بلکہ اس کی کاوشوں کو روایتی اصولوں کے تحت یکسر رد کر رہے ہیں۔نظم کا مصور اس روایتی فکر سے بغاوت کرتا ہوا نظر آتا ہے جو فن کو نقالی کہتی ہے اور اس لئے وہ کسی ذریعے کے بغیر اپنے موضوع کو کینوس پر لانا چاہتا ہے۔ دعا کی عالمت بھی نظم میں بار بار آئی ہے ۔ اس نظم کی کئی سطحیں قائم کی جا سکتی ہیں۔
مصور
عمارتوں اور سمندر کے درمیان بیٹھے
وہ سمندر کو تصویر کرنے میں لطف لیتا تھا
مگرجیسے کوئی بچہ یہ سمجھے
کہ صرف خاموشی اختیار کر لینا دعاکرنا ہے
اسے یہ توقع تھی کہ اس کا موضوع
ریت پر بھاگتاہُوا آئے
اور اس کے برش پر قابض ہوکر
اپنی شبیہہ کینوس پر چپکا دے
نتیجتاً اس کے کینوس پر کہیں پینٹ نہیں تھا
جب تک کہ اونچی عمارتوں کے مقیم لوگوں نے
اسے کام پرنہیں لگا دیا:’’برش کو وسیلہ بنا کے
استعمال کرنے کی کوشش کرو۔تصویر کرنے کے لئے کسی ایسی چیز کا انتخاب کرو
جو ذرا کم غصیلی اورکم حجم ہو، اور تابع ہو
کسی مصور کے مزاج کے،یا،شاید،کسی دعا کے ‘‘
وہ انہیں اپنی دعا کیسے سمجھاتاکہ فن نے نہیں
فطرت نے خود کینوس پر قابض ہونا ہے؟
اس نے اپنی بیوی کو نئے موضوع کے طور پر منتخب کیا
اسے وسیع کھنڈروں کی طرح بناتے ہوئے
جیسے تصویر نے خود
اپنے آپ کو بھلاتے ہوئے
برش کے بغیر اپنا اظہار کر دیا ہو۔
کچھ ہمت باندھتے ہوئے
ایک خلوص بھری دعا زیرِلب بڑبڑاتے ہوئے
اس نے اپنے برش کو سمندر میں ڈبکی دی
’’میری روح، جب میں یہ تصویر پینٹ کروں
تو تُو ہو جو میرا کینوس برباد کرے‘‘
یہ خبرجنگل میں آگ کی طرح عمارتوں میں پھیل گئی:
’’وہ اپنے موضوع کے لئے سمندر کو واپس چلا گیا‘‘
تصور کرو، ایک مصور کو اس کے موضوع نے مصلوب کر دیا ہو!
برش اٹھانے تک کی سکت نہیں
اس نے عمارتوں سے جھک کے دیکھتے ہوئے فنکاروں کو
خباثت بھری ہنسی ہنسنے کی ترغیب دی:’’ہماری اب یہ دعا نہیں
کہ خود کو کینوس پر اتاریں
یا تصویر بنانے کے لئے سمندر کو سامنے بیٹھنے کا کہیں‘‘
دوسروں نے اعلان کیا کہ یہ اس کی اپنی تصویر ہے
آخرش موضوع کے تمام نشانیاں
دھندلانے لگی
کینوس کو بے رنگ چھوڑتے ہوئے
اس نے اپنا برش نیچے رکھ دیا
اچانک ایک چیخ، جو ایک دعا بھی تھی
پُر ہجوم عمارتوں سے بلند ہوئی
انہوں نے اسے اس کی تصویر سمیت
سب سے اونچی عمارت سے سمندر میں اچھال دیا
سمندر نے اس کے کینوس اور برش کو ہڑپ کر لیا
جیسے اس کے موضوع نے
دعا ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا ہو