سائنسی عہد اور تخلیقی عمل کا سائنسی تصور
از، ناصر عباس نیر
جب تک ادب کے تخلیقی عمل کا علمیاتی پس منظر سامنے نہ ہو، یہ طے کرنا مشکل ہے کہ ادب کے لیے تحریک ضروری ہے یا نہیں۔علمیاتی پس منظر کی وضاحت سے یہ فیصلہ از خود ہو جاتا ہے کہ تحریک، ادب یا بڑے ادب کی تخلیق میں معاون ہے یا رُکاوٹ۔ بالعموم ادب کو کسی محرک کی ’’پیداوار‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ محرک کی تفہیم و تعبیر اور مصِنّف کے تخلیقی عمل پر اس کی اثر اندازی سے متعلق تصورات بدلتے رہے ہیں مگر یہ بنیادی نکتہ برابر پیشِ نظر رہا کہ مصنّف کا تخلیقی عمل ایک نوع کے محرک کا محتاج ہے۔ یہ محرک تخلیق کار کی فوری دسترس سے باہر ہوتا ہے، اِن معنوں میں کہ وہ اس محرک کومحسوس کر لیتا ہے اور بعد ازاں اس کی تفہیم بھی کر لیتا ہے، مگر وہ اسے پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ مابعد الطبیعیاتی عہد کی اصطلاحات میں تخلیقی عمل کے محرک کو میوزز، انسپریشن، الہام، القا، غیب کہا گیا جب کہ سائنسی عہد میں اس محرک کو بہ یک وقت لاشعوری اور شعوری قرار دیا گیا ہے، اور جو بنیادی فرق مابعد الطبیعیات اور سائنس میں ہے، وہ ان ہر دو کی اصطلاحات کے مفاہیم میں بھی سرایت کر گیا ہے۔۔۔ مابعد الطبیعیات ماوراے حسِ وجود میں ایقان رکھتی ہے اور سائنس فقط حسی وجود کو تسلیم کرتی ہے۔ یونانی تخلیق کی دیویوں (میوزز) کو مابعد الطبیعیاتی وجود اور تمام تخلیقی قوت و دانائی کا سر چشمہ تسلیم کرتے تھے۔ مثلاً ہیسڈ (Hesoid) (۷۰۰ق م) نے Theogony میں میوزز کی زبانی یہ بات درج کی ہے:
’’ہمیں خبر ہے کہ جھوٹی باتوں کو کس طور پر کہا جائے تو وہ سچ لگتی ہیں مگر ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہمیں کب سچ بات کہنا ہوتی ہے۔ ‘‘
گویا میوزز نے یہ فیصلہ کیا کہ شاعری ایک ایسا جھوٹ ہے جو سچ لگے یا شاعری کا سچ ہونا اِتنا ضروری نہیں جتنا ضروری اس کا سچ لگناہے (اسی بات کو بعد میں افلاطون نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا)لیکن شاعری کی بنیادی رمز کا شعور، شاعر میوزز ہی سے حاصل کرتا ہے ؛شاعر محض ذریعہ ہے۔ یہی بات ایک الگ پیرایے میں غالب نے کہی ہے:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب، صریرِ خامہ نوائے سروش ہے!
تخلیقی عمل کے سائنسی تصورات شاعر انہ مضامین کا سر چشمہ، میوززیا غیب کے بجائے خود تخلیق کار کی ذات میں تلاش کرتے ہیں۔ میوززاور غیب، تخلیقی کار کی ذات سے باہر اور ماوراہیں۔ تخلیقی عمل کے سائنسی تصورکا آغاز صحیح معنوں میں جرمن فلسفی کانٹ سے ہوا۔ کانٹ سے پہلے انسانی ادراک کو منفعل سمجھا گیا مگر کانٹ نے ادراک کو فعال تجربہ قراردیا۔۔۔ اُس کا مؤقف تھا کہ ہم باہر کی دُنیا سے معروضیت اور عِلتیت (Causality) وصول نہیں کرتے (جیسا کہ دیکارت، ہابز اور لاک کا خیال تھا) اُن پر مسلّط کرتے ہیں۔ کانٹ ہی سے رُومانوی جمالیات کا آغاز ہوا جس میں فرد کو تمام تر تخلیقی فعالیت کا منبع قرار دیا گیا (بعد ازاں اے ڈبلیو شلیگل اور کالرج نے بنیادی اور ثانوی متخیلہ کی جو تھیوری پیش کی، وہ بہ راہِ راست کانٹ کے اثرات کا نتیجہ ہے)۔ گویا یہ تسلیم کیا جانے لگا کہ تخلیق کار ذریعہ نہیں، سر چشمہ ہے۔ وہ کسی ماورا ایجنسی پر انحصار کرنے کے بجائے، خود اپنی ذات میں مکمل و خود کفیل ہے۔ پورے جدید عہد اور اِس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جدید ادب کے پس منظر میں یہی تصور کار فرما ہے اور ادب کو تحریک سے وابستہ کرنے کی ساری گڑ بڑ کا آغاز بھی یہیں سے ہوا۔ گڑ بڑ کی اس کہانی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ذات کے تصور کو سامنے رکھا جائے۔ ایک گروہ ذات کو فرد کی انفرادی مِلک قرار دیتا ہے جب کہ دُوسرا اِسے سماجی و ثقافتی مِلک سمجھتا ہے۔تاہم دونوں گروہ اس نکتے پر متفق ہیں کہ ذات، ایک طبعی اور ارضی حقیقت ہے، ماورائی نہیں۔ اُنیسویں صدی میں مغربی نقاد اور مفکر، یہ راے ظاہر کرنے لگے کہ ادب کی بنیاد ’’خیال‘‘ پر ہے۔ مفکرین کا جو گروہ ذات کو سماجی و ثقافتی مِلک قرار دیتا ہے، اُس کا مؤقف ہے کہ خیال کو باہر سے اَخذ کیا جاتاہے۔ اس گروہ کے سر خیل میتھیو آرنلڈ ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
’’تخلیقی قوت جس مواد سے کام لیتی ہے اور جس مواد پر اپنی بنیاد رکھتی ہے، وہ ’’خیالات‘‘ ہیں۔۔۔ تخلیقی صلاحیت نئے خیالات کی دریافت میں اپنے جوہر کا اظہار نہیں کرتی۔‘‘
آرنلڈ کے نزدیک تخلیق کار موجود خیالات کو فن کارانہ انداز میں پیش کرتا ہے، اُنھیں جنم دینے والا فلسفی ہے اور انھیں سماج میں ایک نظام کی صورت دینے کا فریضہ نقاد کے سپرد ہے۔ کم و بیش اسی بات کو مار کسی نقادوں نے ذرا مختلف اندا زمیں پیش کیا اور کہا کہ تخلیقی مواد، سماجی طبقاتی شعور میں وجود رکھتا ہے۔ حقیقت نگاری اور فطر ت نگاری کی تحریکوں نے بھی تخلیقی مواد کو باہر سماج میں یا انسانی وجود میں( یعنی ان تجربات میں جو باہر سے تعامل کا نتیجہ ہیں)تلاش کرنے کا رویہ اپنایا۔ ساختیات نے تخلیقی مواد کو ثقافتی شعریات میں مُضمر دیکھا۔ مفکرین کا جو گروہ ذات کے خود کفیل ہونے کے نظریے کا حامی ہے، وہ تخلیقی خیالات کا ماخذ بالعموم لا شعور کو قرار دیتاہے۔ لاشعور، انفرادی (فرائیڈ) یا اجتماعی (ژونگ) ہو سکتا ہے مگر ماورائی نہیں۔ یہ ایک انسانی و ارضی چیزہے۔
اس طور جدید سائنسی عہد میں ادب کے تخلیقی عمل سے متعلق بنیادی تصوریہ وضع ہو ا کہ ادب ارضی، انسانی، سماجی و ثقافتی چیز ہے اور تخلیق کار ذریعہ نہیں، سر چشمہ ہے۔ تاہم تخلیق کار کے سر چشمہ ہونے کی تعبیرات ایک سے زائد سامنے آئیں؛ ایک تعبیر کو نقل (Mimetic) اور دُوسری کو تخیّل (Imaginative) کہا جا سکتا ہے۔ آرنلڈ، تمام مارکسی نقاد اور حقیقت نگار، نقل پر مبنی تعبیر کے قائل ہیں اور تمام رومانیوں اور جدیدیوں کو دُوسری طرز کی تعبیر کا حامل ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
نقل کے اصول کے مطابق تخلیقی خیال یا اس کا پر و ٹو ٹائپ پہلے سے موجود ہے، مصنّف اِسے محض فن کار انہ انداز میں پیش کرتا ہے جب کہ تخیّل کے اصول کی رُو سے خیال کو دست یاب مواد کی مدد سے تشکیل دیا جاتا ہے۔ لہٰذا دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پہلا اُصول تخلیقی فعل کو اِرادی و شعوری اور دُوسرا غیر ارادی و لاشعوری قرار دیتا ہے۔ جو لوگ پہلے اُصول کی صداقت میںیقین رکھتے ہیں، وہ ادب (کی اصلاح وبہتری) کے لیے لازماً تحریک کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔وہ آرنلڈ اور ان سے متاثرنقاد ہوں(جس بزرگ نے نئی ادبی تحریک کی ضرورت پر زور دیا ہے وہ آرنلڈ ہی سے متاثر ہیں)یا مارکسی نقاد،ادبی تحریک کا واویلا کرتے ہیں ۔ اور جن لوگوں کے نزدیک ادب ایک غیر ارادی فعل ہے ،وہ ادب کے لیے تحریک کو بے جو از قرار دیتے ہیں۔