ساون، سیلاب اور ڈیم
از، اصغر بشیر
ساون کی یادیں ابھی کچھ دن بعد شروع ہو ں گی۔ لیکن راوی سے امید لگانا دل دکھانے کے بہانے کے سوا کچھ اور نہیں ۔ کیا ہم کبھی اپنی آنے والی نسلوں کو بتا سکیں گے کہ راوی ہماری لوک داستانوں میں کس طرح رومانوی کردار ادا کرتی رہی ہے؟ جس تیزی کے ساتھ ہم راوی اور پانی کے دوسرے ذخائرکو صفحہ ہستی سے مٹا رہے ہیں اور اس کی جگہ گندگی کے جوہڑ ، ملوں اور فیکٹریوں کے فاضل مادہ اس میں بھر رہے ہیں یقیناً ہماری آنے والی نسلیں یا تو ہماری لوک داستانوں کو جھوٹا کہیں گی یا پھر ہم سے اس وجہ سے نفر ت کرئیں گی کہ ہم بہت ظالم تھے جو اپنے ورثے کو بھی تہس نہس کر گئے۔
چند حقائق پاکستان کی گھمبیر صورتحال کو مزید واضح کرکے قارئین کے سامنے لانے میں میری مدد کریں گے۔ آئی ایم ایف کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں پانی کے اوسط استعمال کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر ہے۔ اسی طرح جی ڈی پی کےایک یونٹ کی پیداوار کے لیے پانی کے استعمال کے حوالے سے پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا میں پانی کا سب سے زیادہ بے دریغ استعمال پاکستان میں کیا جاتا ہےجس کے نتائج بہت سنگین ہیں۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق پانی کی قلت کے شکار ممالک میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے۔ پاکستان میں اوسط 1017 کیوبک میٹر پانی سالانہ فی کس کے حساب سے موجود ہے جب کہ آئی ایم ایف کے مطابق اگر اوسط پانی 1000 کیوبک میٹر فی کس تک پہنچ جائے تو اس کو قلت میں شمار کیا جائے گا۔ جبکہ پانی کی فی کس موجودگی 2009ء میں 1500 کیوبک میٹر تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان پچھلے چھے سالوں میں قریباً پانچ سو کیوبک میٹر پانی اوسطاً گنوا چکا ہے۔ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو آئندہ چند سالوں میں پاکستان کے اندر پانی کی قلت سنگین ترین خدشات کو ابھارے گی۔
زیر زمین پانی کو استعمال کے لیے آخری اور ناگزیر ماخذ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی طرف اسی وقت رجوع کیا جاتا ہے جب دوسرے تمام ذرائع ختم ہوچکے ہوں یا پہنچ سے باہر ہوں۔ اس طرف سے بھی حالات اتنے ہی پریشان کن ہیں۔پچھلے چند سالوں میں پانی کی سطح اوسطاً 20فٹ نیچے گر گئی ہے جبکہ بعض علاقوں میں پانی کی سطح 60 فٹ تک نیچے گر گئی ہے۔ یہی نہیں پانی کے بے دریغ استعمال سے ایک طرف تو قدرتی آبی چکر متاثر ہوا ہے تو دوسری طرف پانی میں زہریلے مادے شامل ہونے کی وجہ سے پینے کے قابل نہیں رہا۔ یہ سب نشانیاں اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ پاکستان کے زیر زمین آبی ذخائر بھی خطرناک حدوں کو چھو رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کن وجوہات کی بناء پر پاکستان اس صورت حال کا سامنا کر رہا ہے؟
بے شک پاکستان کا اکثر پانی بنا استعمال میں آئے سمندر کی نظر ہو جاتا ہے۔ پانی کے اس ضیاع کو روکنے کا بہترین ذریعہ ڈیم بنانا ہے۔ لیکن چونکہ پاکستان کی سیاست میں اس کو بنیادی اہمیت حامل رہی ہے۔ اس لیے یہ پہلو فوری حل کے طور پر میسر نہیں ہوسکتا۔ دوسرا جواز یہ پیش کیا جا تا ہے کہ انڈیا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے پانی پر نہ صرف بند باندھ رہا ہے بلکہ پاکستان کے دریاؤں پر بھی ڈیم بنا رہا ہے۔ انڈیا کو پابند کیا جانا کہ وہ پانی کے بہاؤ کو بے قاعدہ نہ ہونے دے؛ بظاہر ناممکن نظر آتا ہے اس لیے اس کو پہلو کو بھی نظر انداز کر دینا چاہیے۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ آبادی کا بے قاعدہ پھیلاؤ ، پانی کی نامناسب مینجمنٹ ، اور نہری پانی کے ڈھانچے میں مرمت کی شدید ضرورت کی وجہ سے پاکستان آج اس صورت حال کا سامنا کر رہا ہے۔اسی پہلو پر حکومت ِ وقت کو زور دینےکی ضرورت ہے۔
پانی کا مناسب استعمال اسی وقت شروع ہوگا جب عوام کے اندرپانی کی حفاظت کا کوئی شعور موجود ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو ترغیب دی جائے۔ پانی کے استعمال پر قیمت لاگو کرنے سے عوام میں پانی کے محتاط استعمال کا شعور پیدا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف اپنی رپورٹ میں پاکستان کے لیے پانی پر قیمت لاگو کرنے کی اسٹریٹجی تجویز کرتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں پانی کی مینجمنٹ کا کل خرچہ حکومت برداشت کرتی ہے۔پاکستان میں قریباً نوے فیصد پانی زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ اس سےوصول کی جانے والی رقم اس پر آنے والے اخراجات کے عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ اگر پاکستان پانی پر مناسب قیمت لگائے اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کو آبی نظام کی مرمت پر لگایا جائے تو ایک اندازے کے مطابق قریبا ً سات سو پچاس لاکھ ایکڑ فٹ پانی بچایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اس سے حاصل ہونے والی رقم کو اسی نظام کی مرمت پر لگایا جا سکتا ہے۔ حکومت جو بھی کرئے اسے چاہیے کہ فوری اقدامات اٹھائے ایسا نہ ہو دیر ہو جائے۔
I am thankful to http://www.aikrozan.com for publishing my article.