اصغر بشیر
یقیناً آپ نے بھی پرائمری میں نیلی راوی اور ساہیوال کی گائے کے بارے میں پڑھا ہوگا۔ لیکن یہ بات شائد نئی ہو کہ ساہیوال، اوکاڑہ اور پتوکی کا بیلٹ پاکستان میں سب سے زیادہ دودھ پیدا کرنے والا علاقہ ہے۔ یہ اسی بیلٹ کی وجہ سے ہے کہ پاکستان پوری دنیا میں دودھ کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے ۔یہ اسی بیلٹ کی وجہ سے ہے کہ پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا دودھ پیدا کرنے والا ملک ہے۔ آج سے پہلے تک حکومتیں اس بیلٹ کو ڈیری کے حوالے سے ترقی دینے کا سوچتی رہی ہیں لیکن شہباز شریف صاحب کو نجانے کیا سوجھی کہ انہوں نے کول پاور پلانٹ لگانے کا سوچ لیا۔ ہم کچھ عرصہ تو خاموش رہے کہ شائد ادھر سے کوئلہ دریافت ہونے والا ہے جو حفظ ماتقدم کے طور پر پہلے ہی پلانٹ لگانے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ لیکن پھر پتہ چلا کہ اس میں استعمال ہونا والا ڈھیر سارا کوئلہ درآمد کیا جائے گا تو سوچا کیوں نہ کہا جائے کہ شہباز شریف صاحب ایک نظر ادھر بھی!
ساہیوال اوکاڑہ کے درمیان میں لگنے والے پاور پلانٹ سے کیا کیا فوائد حاصل ہونگے اس پر بحث پھر کبھی ہوگی ابھی صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ 1200 میگا واٹ کے کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ کا مطلب ہے کہ اس پلانٹ سے ایک گھنٹے میں اوسطاً 1200 کلو گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ ، نوکلو نائٹرس آکسائیڈ، اور پانچ کلو گرام سلفر ڈائی آکسائیڈ خارج ہوگی۔ یہ گیسیں پھر زمین پر تیزابی بارش کی صورت میں دوبارہ برستی ہیں۔ جس سے سطح زمین پر موجود ہر چیز سست موت کا شکار ہو جاتی ہے۔یہ بات بھی قابل ِ غور ہے کہ بیس سال کی ریسرچ سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ سمندری جانوروں میں پارے کی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ ہیں۔
صرف یہی نہیں ان گیسوں سے ہوا کی آلودگی بارش کے ذریعہ زیر زمین پانی کے ذخائر کو آلودہ کر دیتی ہے ۔ اسی طرح یہ فوڈ کے چکر کا حصہ بن کر انسان اور جانوروں کی خوراک کا حصہ بن کر صحت کے لیے مستقل خطرہ بن جاتی ہے۔ کوئلے سے چلنے والے کارخانوں کے علاقے میں جانوروں اور انسانوں میں سانس کی بیماریاں ایک عام مسئلہ بن جاتی ہیں۔ یہ پتہ نہیں کہ پنجاب حکومت نے ان مسائل پر غور کیا ہے یا نہیں ، لیکن پنجاب گورنمنٹ نے این او سی جاری کر دیا ہے۔
پاکستان میں جہاں توانائی کا بحران ہے وہیں پر پانی کا بحران بھی دن بدن قریب آتا جا رہا ہے۔ لیکن ساہیوال پاور پلانٹ سے ایسا لگتا ہے جیسے پانی وافر مقدار میں موجود ہے۔ ایک 1200 میگا واٹ کے پاور پلانٹ کو چلانے کے لیے دس لاکھ کیوبک فٹ پانی روزانہ چاہیے جس کو سادہ طور پر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ساہیوال کے کنارے سے بہنے والی نہر صرف اسی کام کے لیے رہ جائے گی۔ یہ اتنا پانی ہوگا کہ اس سے قریباً 57000 کسانوں کا روزگار چل سکتا ہے۔
اب کوئلہ کی طرف آتے ہیں۔ پاکستان میں تھر پارکر کے مقام پر کوئلہ موجود تو ہے لیکن اس میں سیم زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کو استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے لازمی طور پر جنوبی افریقہ یا انڈونیشیا سے کوئلہ منگوانا پڑے گا۔ ساہیوال پاور پلانٹ میں اندازاً 600 ٹن کوئلہ فی گھنٹہ کے حساب سے استعمال ہو گا یعنی ایک دن میں 14000 ٹن اور ایک سال میں قریبا ً 35لاکھ ٹن کوئلہ درآمد کرنے کی ضرورت ہوا کرئے گی۔ ایک ٹرین کو کراچی سے ساہیوال چکر لگانے میں پانچ دن لگا کریں گے۔ اس کام کے لیے پاکستان ریلوے کو 500ملین امریکی ڈالر کی ریل گاڑیاں درآمد کرنا پڑیں گی۔
اب اگر ملک میں پہلے سے موجود پلانٹس پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ملک میں پہلے ہی چند مقامات پر کوئلے سے چلنے والے پلانٹ لگائے گئے مگر وہ فی الوقت بند پڑے ہیں۔ اگر ہمیں کوئلےکے پلانٹس پر پیسے خرچنے کااتنا ہی شوق ہے تو کیا بہتر نہ ہوتا کہ ہم پہلے مرمت ہونے والے پلانٹس پر توجہ دیتے؟ دوسری طرف مستقل بنیادوں پر مہنگے درآمدی خام مال پر انحصار کرنے سے بہتر ہے اپنے کم معیاری معدنی ذخائر کو استعمال کیا جائے۔اگر کوئلے کی درآمدات کی بجائے پاک ایران پائپ لائن پر کام کیا جاتا تو بہتر نہ ہوتا؟ یقیناً ہمیں حقائق کو بطور حقائق قبول کرنے کے لیے ابھی تہذیبی سفر کی کئی منزلیں پار کرنا ہوں گی۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر ملکی کوئلے کو مدنظر رکھتے ہوئےیہ پلانٹ تھر پارکر میں لگایا جاتا جس سے نہ صرف ملکی ذخائر استعمال میں آتے بلکہ اس سے درآمدی اخراجات کی بچت بھی ہو جاتی۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مستقبل کے بوجھ کا احساس لگا کر ترقیاتی منصوبے بنائیں تا کہ کل ترقیاتی منصوبے تنزلی کا باعث نہ ہوں۔ شہباز شریف صاحب سے بس اتنی گزارش ہے کہ ہمیں ترقی کا لالچ دے کرہمارا تہذیبی ورثہ اور ہماری آنے والی نسلوں کی زندگیاں داؤ پر نہ لگائیں۔
میرے خیال میں یہ کام ماہر ارضیات کا ہے کہ وہ بتائیں کہ کہاں کول پاور پلانٹ لگانا ہے۔ جب یہ بات ثا بت ہوگئی کہ استعمال ہونے والا ڈھیر سارا کوئلہ درآمد کیا جائے گا تو معاملہ یہنی پر ختم ہو جاتا ہے۔ میں یس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ” اگر ہمیں کوئلےکے پلانٹس پر پیسے خرچنے کااتنا ہی شوق ہے تو کیا بہتر نہ ہوتا کہ ہم پہلے مرمت ہونے والے پلانٹس پر توجہ دیتے”