(شاداب مرتضٰی)
سرمایہ دارانہ تحریک نسواں (لبرل فیمنزم) کا نعرہ ہے کہ:
“ہم عورتوں کی آزادی اور برابری چاہتے ہیں”۔
اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا اس بات کا مطلب یہ ہے کہ:
الف: ساری عورتیں غلام اور نابرابر ہیں اور انہیں مردوں کے مساوی آزادی اور برابری چاہیے (یا)
ب: کچھ عورتیں غلام اور نابرابر ہیں جبکہ کچھ عورتیں آزاد اور برابر ہیں اور ان غلام اور نابرابر عورتوں کو آزاد اور برابر عورتوں کی طرح آزادی اور برابری چاہیے۔
لبرل فیمنزم عورتوں کی “طبقاتی” تقسیم سے ماورا ہو کر تمام عورتوں کو مرد کا غلام سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ یہ عورت کی غلامی اور نابرابری کو نجی ملکیت سے پیدا ہونے والے طبقاتی نظام اور معاشرتی نابرابری میں دیکھنے کے بجائے اسے آزادی اور برابری کے مابعدالطبعیاتی لسانی کلیوں میں تلاش کرتا ہے۔ یہ اس تاریخی مغالطے کا شکار ہے کہ عورت ہمیشہ سے مرد کی غلام رہی ہے حالانکہ آثارِ قدیمہ اور بشریاتی سائنسوں نے یہ بات کب کی ثابت کردی ہے کہ قدیم اشتراکی عہد میں عورت کو مرد پر فوقیت و سبقت حاصل تھی۔
لبرل ازم اور خواتین کے معاملے پر اس کا نکتہ نظر، یعنی لبرل فیمنزم، انسانی معاشرے کے ارتقاء کے سائنسی نکتہ نظر سے بے بہرہ بھی ہے اور سائنس کا نام لیوا ہونے کے باوجود معاشرے کی سائنس، یعنی سماجی سائنس سے خوف ذدہ بھی۔ لبرل مائنڈ سیٹ یہ بات تسلیم کرنے پر تیار نہیں کہ انسانی معاشرہ فطرت کا حصہ ہونے کی حیثیت سے اسی طرح فطری قوانین کا پابند ہے جس طرح دیگر تمام مظاہرِ فطرت! یہ فطرتی سائنسوں کو تسلیم کرنے پر تیار ہے لیکن سماجی سائنس کا زبردست مخالف ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ سماجی سائنس کی نظر میں سرمایہ دارای نظام انسانی معاشرے کے ارتقاء کے سفر کی آخری منزل نہیں ہے۔ جس طرح تغیر و تبدیلی تمام فطرت کا خاصہ ہے اسی طرح انسانی معاشرہ بھی مستقل تبدیلی کے لازمی قانون کے تحت سرمایہ داری نظام سے زیادہ بہتر سماجی نظاموں کی طرف جائے گا۔ سرمایہ داری نظام معاشرے کی ترقی کی اس راہ میں اب صرف ایک رکاوٹ ہے اور لبرل ازم اس رکاوٹ کا نظریاتی محافظ ہے۔
اور یہ بات تو اس کے لیے سوہانِ روح ہے کہ سائنسی کمیونزم کے بانیان کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے انسانی معاشرے کے ارتقاء کے فطری قوانین کو دریافت کر کے ان کی درجہ بندی اسی سائنسی صحت اور اسی دور میں کر ڈالی تھی جس صحت کے ساتھ اور جس دور میں چارلس ڈارون نے حیاتیاتی ارتقاء کے فطری قوا نین دریافت کیے تھے۔
انسانی سماج کے ارتقاء اور انسانوں کے درمیان نابرابری، عدم مساوات اور ناہمواری کے حامل سماجی رشتوں کی توجیہ کے لیے لبرل ازم کے پاس سوشل ڈارون ا زم کا مجہول، غیر سائنسی اور بچکانہ نظریہ ہے جس کے مطابق انسانی معاشرے کا ارتقاء طاقتور اور کمزور انسانوں کے درمیان جنگ و جدل سے ہوتا ہے جس میں وہی انسان کامیاب ہوتے ہیں جو طاقتور ہوں۔ چنانچہ سوشل ڈارونزم طاقتور انسانوں یعنی سرمایہ دار طبقے کے ظلم و جبر کی نظریاتی و فلسفیانہ اختراع سے زیادہ کچھ نہیں۔ یورپ میں عرصہ ہوا کہ معاشرتی ارتقاء کے بارے میں ہربرٹ اسپینسر وغیرہ کے ایسے نظریات کو بوگس اور غیر سائنسی قرار دے کر مسترد کیا جا چکا ہے۔
لبرل سرمایہ دارانہ فیمنزم اپنے طبقاتی تعصب کے سبب حکمران طبقے کی عورت اور مزدور طبقے کی عورت میں زمین و آسمان جتنی گہری خلیج دیکھنے سے قاصر ہے۔ جس طرح یہ ہر سماجی، معاشی اور سیاسی سوال پر سرمایہ داری نظام کے تحفظ کے لیے طبقاتی تقسیم کو پوشیدہ رکھتے ہوئے غیر طبقاتی پوزیشن اختیار کرتا ہے اور انسان کی آزادی، مساوات، ترقی اور خوشحالی کے مسائل کو عمومی انداز سے پیش کرتا ہے اسی طرح یہ عورت کی آزادی، برابری اور ترقی کے اہم سوال کو بھی عمومی انداز سے پیش کرتا ہے۔
اپنی سرمایہ دارانہ طبقاتی فطرت کے عین مطابق لبرل ازم دیگر تمام سوالوں کی طرح عورت کی آزادی اور برابری کے سوال کو اٹھاتے ہوئے یہ بنیادی بات فراموش کردیتا ہے کہ معاشرے میں عورت بھی مرد کی طرح طبقوں میں تقسیم ہے۔ ایک طرف نجی ملکیت کے مالک دولت مند حکمران طبقوں کے خاندان اور ان کی عورتیں ہیں اور دوسری جانب غریب محنت کش خاندان اور ان کی عورتیں ہیں۔ خاندان کی ان دونوں متضاد قسموں میں حکمران طبقے کی عورت محنت کش طبقے کے مرد سے زیادہ خوشحال اور بااختیار ہے۔
یہ عورت کی آزادی کے سوال کو اٹھاتے ہوئے یہ نہیں پوچھتا کہ یہ کس طبقے کی عورت کی آزادی چاہتا ہے، حکمران طبقے کی عورت کی آزادی یا محکوم محنت کش طبقے کی عورت کی آزادی؟ ہیلری کلنٹن، مشعل اوباما، فریال تالپور، مریم نواز، آصفہ بھٹو، شرمیلا فاروقی، ایان علی اور حکمران زمیندار، سرمایہ دار، تاجر، بیوروکریٹ طبقے کی بیگمات اور خواتین کی آزادی یا کھیتوں، فیکٹریوں، گھریلو صنعتوں اور گھرملازماؤں کے طور پر حکمران طبقوں کے مرد اور عورتوں دونوں کے استحصال کا شکار رہنے والی عورتوں کی آزادی اور برابری؟
لبرل فیمنزم عورتوں کی طبقاتی تقسیم سے ماورا ہو کر عورتوں کے حقوق کی جس تحریک کا پرچار کرتا ہے اس کا مقصد ، دانستہ و نادانستہ، یہ ہے کہ سرمایہ دار طبقے کے استحصال کے خلاف محنت کش طبقے کی مجموعی طبقاتی جدوجہد کو مرد اور عورت کی لڑائی میں تقسیم کر کے کمزور کر دیا جائے۔ محنت کش طبقے کی عورتوں کو محنت کش مردوں کے ساتھ مل کر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف متحدہ طبقاتی جدوجہد کے لیے منظم و آمادہ کرنے کے بجائے انہیں صنفی برابری اور آزادی کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کر دیا جائے۔ اورسرمایہ داری نظام کے خلاف محنت کش طبقے کی حاکمیت کی جدوجہد کرنے والے دانشوروں، تعلیم یافتہ سیاسی کارکنوں اور خصوصا خواتین لیڈروں اور کارکنوں کو “تمام عورتوں کے حقوق” کی عمومی جدوجہد کی مابعدالطبعیاتی منطق کے زریعے تحریکِ نسواں کی طبقاتی نوعیت پر کنفیوز کر کے ان کی جدوجہد کو لبرل سرمایہ دارانہ جدوجہد کے فریم ورک میں قید اور محنت کش عورتوں، خصوصا پرولتاریہ عورتوں کی تنظیم و تربیت سے دور رکھا جا سکے۔
یہی وجہ ہے کہ لبرل فیمنزم میں صنفی برابری، سیکس کی آزادی، پسند کی شادی، جنسی ہراساں کرنے اور گھریلو تشدد جیسے عمومی معاملات پر زور تو ملتا ہے لیکن محنت کش عورتوں کے لیے مرد کے برابر اجرت، سرکاری طور پر کم از کم مقررہ اجرت کی ادائیگی پر عملدرآمد، آجر کی طرف سے کام کے مقررہ اوقات اور حفاظتی ماحول میں کام کے معیارات کی پاسداری، معاوضے کے ساتھ بیماری کی چھٹی، ماہواری اور زچگی کی معاوضے کے ساتھ چھٹی، کام کی جگہوں پر طبی سہولیات، آجر کی طرف سے خوراک اور ٹرانسپورٹ کی سہولت، یونین سازی کا حق اور اس طرح کے بنیادی انسانی حقوق پر کوئی دھیان دکھائی نہیں دیتا۔ سرمایہ دار طبقے کے ہاتھوں محنت کش عورت کے استحصال کے خلاف لبرل فیمنزم بالکل خاموش ہے۔
تو کیا سوشلسٹ صنفی برابری، پسند کی شادی، عورتوں پر تشدد اور انہیں جنسی ہراساں کیے جانے کے خاتمے وغیرہ سے متعلق عورتوں کے حقوق کی تحریک کے مخالف ہیں؟ ہر گز نہیں۔ ہم عورتوں کی مکمل آزادی کے خواہاں ہیں۔ لبرل فیمنزم یہ خواہش تو ظاہر کرتا ہے کہ عورت آزاد ہو لیکن سماجی سائنس سے بے بہرہ ہونے کے سبب یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ عورت آزاد کیسے ہوگی؟ عورت کی آزادی سرمایہ دارانہ لبرل فریم ورک میں رہتے ہوئے خواتین کے انفرادی حقوق کی عمومی تحریک سے نہیں ہوگی۔ اس کے لیے سرمایہ دارانہ نجی ملکیت اور اس سے جنم لینے والے ظالمانہ سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کے خاتمے کی ضرورت ہے۔
سائنسی کمیونزم کی رو سے سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کا خاتمہ صرف پرولتاریہ طبقہ (مزدور مرد اور مزدور عورت) ہی کرسکتا ہے اور پرولتاریہ عورت کی شمولیت کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ اس لیے خواتین کی آزادی کا راستہ پرولتاریہ طبقے اور پرولتاریہ عورت کی سرمایہ داری نظام کے خلاف متحدہ انقلابی جدوجہد سے مشروط ہے۔ اقتدار حاصل کر کے پرولتاریہ طبقہ سرمایہ دارانہ نجی ملکیت اور اس سے جنم لینے والے طبقاتی نظام کو ختم کر کے عورت سمیت تمام انسانوں میں موجود ہر قسم کی نابرابری کا نام و نشان مٹا دے گا۔ اس کا ثبوت سابقہ اور موجودہ سوشلسٹ ریاستیں ہیں جہاں عورت کی نابرابری کی قانونی، سماجی، معاشی اور سیاسی، الغرض ، ہر شکل کو ختم کر کے دکھا دیا گیا ہے جب کہ یورپ کے ترقی یافتہ ترین سرمایہ دارانہ لبرل جمہوری ریاستوں میں عورت آج بھی نابرابری کا شکار ہے۔