سرگودھا میں بیس لوگوں کو عقیدت نے مارا؟
(رضا علی)
آپ نے بھی یہ دردناک خبر سنی ہو گی کے سرگودھا کے پاس ایک علاقے میں ایک پیر کے مزار پر بیس لوگوں کو ڈنڈوں اور چاقوون سے قتل کر دیا گیا- میں نے یہ تفصیل ایک ٹی وی پروگرام میں دیکھی- قتل کرنے والا اس مزار کے پیر کا خلیفہ تھا- پولیس نے دو وجوہات بتائیں جو سننے میں ٹھیک لگتی ہیں، ایک یہ کے یہ آدمی کوئی ذہنی مریض ہے اور دوسرا، اس کا جھگڑا اس پیر کے بیٹے علی آصف کے ساتھ تھا جو خود کو اس پیر کا وارث سمجھتا تھا- مرنے والوں میں وہ بھی شامل تھا-
اس پروگرام میں اور بھی کچھ دلچسپ حقائق سننے کو ملے۔ اس علاقے میں شرح خاندگی ٩٠-٩٥ فیصد ہے- عام طور پر ہم یہی سوچتے ہیں کے شاید علاقہ میں جہالت کی وجہ سے ایسے لوگوں کو جگہ مل گئی ہو گی- اس مزار پر آنے والوں میں زیادہ تر لوگ پڑھے لکھے اور کام کرنے والے لوگ ہیں، کچھ حکومتی ملازم بھی ہیں اور کسی کی عمر پچیس سال سے کم نہیں تھی- کیوں کے ذہن میں یہ گمان بھی آتا ہے کے لوگ شاید فارغ یا ضرورت مند ہوں گے یا نا سمجھ ہوں سے- خلیفہ خود ایک وقت میں ڈپٹی کمشنر رہ چکا ہے اور اس کے پانچ بیٹے لاہور میں پڑھ رہے ہیں- کہیں آپ یہ نہ سمجھیں کے یہ بس دین سے جڑے لوگ ہیں اور گدی نشینی کرتے ہیں- بچ جانے والوں میں ایک خدمت گزار بھی تھا، جس کا اپنا اینٹوں کا بھٹا ہے، اس کے مطابق یہ خلیفہ ذرہ جلالی طبعیت کا ہے- پہلے بھی مار پیٹ تو کرتا آیا ہے، اچانک جلال میں آ جاتا ہے، لیکن ایسا کبھی نہیں کیا- نۓ آنے والے مریدوں کے کپڑے اتار کر جلا دے جاتے تھے، کیوں کے وہ ناپاک تھے اور پھر ان کو ڈنڈوں سے مارا جاتا تاکے انکے گناہ دھل جایں- لیکن اس پر کسی کو تشویش نہیں ہوئی- اس پروگرام میں خدمت گزار آج بھی خلیفہ کا نام عزت سے لے رہا تھا، بیس لوگوں نے اس کا ذہن نہیں بدلا- پولیس کے مطابق آج بھی کوئی آگے نہیں آنا چاہتا اور لوگ چاہ رہے ہیں کے معملا رفع دفع ہو جائے- جو ہو گیا سو ہو گیا-
ہو سکتا ہیں آپ بھی پولیس کی بتائی ہوئی وجوہات سے مطمئن ہو گئے ہوں- یا آپ یہ سوچتے ہوں کے مٹی پاؤ، پاگل ہی ہوگا- میرے ماننا ہے کے یہ بات صرف اتنی نہیں ہے- یہ ایک بڑے مسلے کی طرف اشارہ کر رہی ہے- وہ مسلہ ایک لفظ میں قید ہے اور یہ لفظ اس ٹی وی پروگرام میں بار بار دہرایا جا رہا تھا- یہ لفظ تھا عقیدت- ہم عقیدت کی اس منزل تک کیسے پہنچتے ہیں، میری اس کے بارے میں ایک تھیوری ہے- ہمیں اس کے لئے دو منزلیں طے کرنی ہوتی ہیں-
پہلی منزل ہے ادب کی- ادب ہماری مشرقی روایت ہے- ہمیں بچپن سے سکھایا جاتا ہے کے بڑوں کے سامنے نہیں بولتے۔ بڑے آپ سے بہتر جانتے ہیں اور انہوں زیادہ سمجھ ہے- بڑوں کی باتوں میں خامی نہیں ڈھونڈتے بلکے انکے کے قدموں میں اپنی منزل تلاش کرتے ہیں- بڑے سہی کہیں یا غلط، وہ بڑے ہوتے ہیں اور اس سے ان کی عزت میں کوئی کمی واقعے نہیں ہوتی- جس نے ادب سیکھ لئے وہ کامیاب ہو گیا اور بےادب ناکام اور نامراد- یہ بڑے اگر آپ کی زندگی کے بارے میں کوئی فیصلہ کر دیں، جیسے کے آپ نے کیا تعلیم حاصل کرنی ہے، کس سے شادی کرنی ہے یا کس سے تعلّق ختم کرنا ہے تو آپ سر تسلیم خم کر دیں- اسی میں خدا کی رحمت ہے- یہ روایت صرف ہمارے برصغیر میں ہی نہیں ہے بلکے چین، جاپان، کوریا اور مشرق کے دیگر ممالک میں بھی ایسے ہی ہے- یہ سارے معاشرے درجہ بندی hierarchy پر ترتیب دئیے ہوئے ہیں- یہاں خاندان، گروہ، جماعت، قبیلہ اور قوم پہلے آتی ہے اور فرد اور انسان بعد میں- ایسے معاشرے میں اپنے سے اوپر والے کی بات ماننے ہی میں کامیابی ہے- مغرب کے معاشرے بھی ایسے ہی ہوتے تھے لیکن اب معاشی ترقی کی وجہ سے وہ انفرادی individualistic ہو گئے ہیں- وہاں کسی کو ایسی تقلید پی راضی کرنا بہت مشکل ہوتا ہے- کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا اور غلط بات کی اور بات کرنے والے کی کوئی عزت نہیں ہوتی- ادب ایک غیر متحرک (passive) روئیہ ہے جہاں خاموشی سے بات مانی جاتی ہے، مگر اختلاف دل میں رکھا جا سکتا ہے- ادب کا سبق جب ہمیں راسخ ہو جاتا ہے تب ہم اگلے مرحلے کے لئے تیّار ہو جاتے ہیں-
دوسرا مرحلہ ہے عقیدت کا- یہ رویہ غیر متحرک نہیں بلکہ آگے بڑھنے والا اور فرنٹ فٹ پر آکے کھیلنے کا نام ہے- اس میں ہم اپنے بزرگوں کو صرف برداشت نہیں کرتے بلکے ان کے گن گاتے ہیں- ان کی تعریفوں کے پل بندھتے ہیں- انھیں لمبے چوڑے نام، تعظیمی القاب اور ٹائٹل دیتے ہیں- کوئی شیخ اعظم ہے تو کوئی دامت برکاتم، کوئی حضرت ہے تو کوئی مولانا، کوئی پیر کامل تو کوئی امام العصر- عقیدت کے مقام پر بزرگوں کی کی برائی غلطی نہیں بلکے جرم بن جاتی ہے جو قابل تعزیر ہوتی ہے- مریدین ایسے گستاخ پر پل پڑتے ہیں- جہاں ادب میں بزرگوں کی غلطی میں بھی رحمت ہوتی ہے وہاں عقیدت میں ان کا غلط بھی صحیح ہو جاتا ہے- وہ حق کا میعار ہوتے ہیں- اگر ان کا نام بے تکلّفی سے لے لیا جائے تو مریدین کا دل دکھتا ہے- وہ کہتے ہیں کے کم از کم حضرت یا رحمت اللہ لگا کر بات کی جائے- یہ بات تصوّر بھی کرنا ناممکن لگتا ہے کے ہمارے بزرگوں میں کوئی کمی یا خرابی بھی ہو سکتی ہے- محبّت میں لوگ جان نچھاور کرتے ہیں- اگر وہ ماریں یا مار ڈالیں تو بھی ان کی طرف دل میں میل نہیں آتا- دل پھر بھی ان کا نام احترام سے لیتا ہے- اور یہی مقام اس خدمات گزار کا بھی تھا- بیس قتل تو کیا بیس لاکھ بھی اپنے بزرگوں پر قربان-
عقیدت وہ پنجرہ ہے جس میں بہت سے لوگ جوان ہوتے ہیں، اور کچھ ادب کی قید سے نکل کرعقیدت کی غلامی خود قبول کرتے ہیں- یہ وہ قید ہے جہاں قیدی اپنی زنجیروں سے محبّت کرتا ہے اور اگر وہ کھول بھی دی جائیں، اگر سلاخیں ہٹا بھی دیں تو بھی اپنی زنجیروں سے لپٹ کے بیٹھے رہتا ہے۔ جائیں کہیں اور وہ جنھیں منزل کی تلاش ہو، انہیں تو منزل مل گئی- عقیدت وہ آگ ہے جو عقل کو کھا جاتی ہے، اور اس عقل کی چتا کی راکھ عقیدت مند کے موں پر مل دیتی ہے۔ غلام کو عقل کی کیا ضرورت، غلام سوچتے نہیں ہیں وہ اپنی جنّت اور دوزخ بزرگوں کے قدموں میں ڈھونڈتے ہیں- بیس لوگوں کا قاتل جھوٹا پیر نہیں تھا، وہ توآلہ کارتھا، ان کو عقیدت نے قتل کیا۔