ابھی یہ افسوسناک خبر سننے کو ملی کہ معروف بلاگر، شاعر، استاد اور انسانی حقوق کے علمبردار جناب سلمان حیدر گزشتہ رات سے لاپتا ہیں۔ جناب سلمان حیدر کے لاپتا ہونے کی خبر سُن کر، ہمارے ذہن کے پردے پر چند دن قبل پیش آنے والے واقعات فلم کی طرح چلنے لگے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ چند دن قبل بچپن کے ایک دوست نے دعوت کا اہتمام کیا
ملاقات کیونکہ طویل عرصے بعد ہونے جارہی تھی۔ اس لیے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے، دوست کے گھر جا پہنچے۔ وہاں پہنچ کر یہ خوشگوار انکشاف ہواکہ چند اور دوست بھی مدعو ہیں۔ جب سب جمع ہوگئے توتازہ ترین تعارف کا دور چلا۔ جو شوخ و چنچل تھے، اُن کو بُردبار پایا اور جوچپ چپ رہتے تھے۔ آج کھل کر گفتگو میں حصّہ لے رہے تھے۔ ایک دو دوستوں کا رجحان مذہبی دیکھا لیکن ہم سب، سب کچھ بھلا بچپن کے دور کو یاد کررہے تھے۔ ابتداء میں تو ہم محتاط رہے اور سب کی بات سننے کی کوشش کی تاکہ ہم سے کوئی ایسی بات سرزد نہ ہوجائے جو دوستوں کے لیے ناگواری کا باعث ہو۔ بحرحال وقت گزرنے کاا حساس نہیں ہوا اور کھانے کا وقت قریب آگیا۔
ہم تو یہ سوچ کر گئے تھے کہ کھانے کا اہتمام گھر پر ہوگا لیکن میزبان نے ازخود طے کیا ہوا تھا کہ جب دوست جمع ہوجائیں گے تو کھانا باہر جاکر کھایا جائے گا۔ اب مشورہ شروع ہوا کہ کہاں جانا چاہیے۔ سب اپنی اپنی رائے اور تجربات سے متعلق بتارہے تھے کہ ایک دوست بولے میکڈونلڈز چلتے ہیں۔ بین الاقوامی شہرہ ہے، اِس فوڈ چین کا! لیکن ایک دوست نے معزرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ میکڈونلڈز کو ناپسند کرتے ہیں۔ اُن کی بات سُن کر ہم کو تعجب تو ہوالیکن سرسری طور پر لیتے ہوئے نظر انداز کردیا۔ بحرحال جب کھانے کی جگہ کا تعین ہوگیا تو سب مختلف گاڑیوں میں بیٹھ کر روانہ ہوئے۔ ہم جس گاڑی میں تھے۔ اُس کے چلتے ہی ہمارے دوست نے اُستاد قمر جلالوی کی مشہور زمانہ غزل”اے رشک قمر“لگادی۔ ایک آدھ منٹ تو خاموشی رہی، پھر ہمارے ایک دوست نے کہا کہ بھئی گانا وانا ہم سے نہیں سنا جاتا، لہٰذا بند کرنا پڑا۔
سب دوستوں کے پہنچنے پر مشاورت کے ساتھ کھانے کا آرڈر دے دیا گیا۔ ایک دفعہ پھر خوش گپّیوں کا دور شروع ہوگیا کہ کھانا چُن دیا گیا۔ کھانا جاری تھا کہ ویٹر نے میزبان سے کولڈ ڈرنک کا پوچھا۔ میزبان نے ویٹر کی سہولت کی خاطر کہا، تم لوگ اکثر آرڈر لے کر بھول جاتے ہو اور پھر بدمزگی ہوتی ہے۔ اِس لیے سب کے لیے مشہور زمانہ مشروب ”کوکا کولا“ لے آؤ۔ لیکن یہاں بھی دو دوست بولے کہ ہ کسی مقامی کمپنی کا جوس لیں گے اور بتایا کہ اُن کی اوّلین کوشش ہوتی ہے کہ یہودی لوگوں کی بنائی ہوئی، ہر قسم کی اشیاء سے اجتناب کریں۔ ہم نے بمشکل یہ سب باتیں چپ چاپ سنیں اور سوچنے لگے کہ مشہور و معروف شاعر، بلاگر، اُستاد اور انسانی حقوق کے علمبردار سلمان حیدر نے کیا خوب نظم لکھی ہے۔ ”میں بھی کافر تو بھی کافر“ اور یقینا یہ اُن کے قوی مشاہدے کا نتیجہ ہے۔ جو یہ معرکتہ الآراء نظم میں وجود میں آئی۔