سوشلزم، لیون ٹراٹسکی اور مسلسل انقلاب
(شاداب مرتضٰی)
لاہور میں پروگریسو لیبر فیڈریشن کے ایک اسٹڈی سرکل سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سوشلسٹ گروہ، طبقاتی جدوجہد، کے رہنما لال خان نے روس کے سوشلسٹ انقلاب کی تاریخ کے بارے میں انتہائی لغو اور من گھڑت دعوے کیے ہیں جنہیں وہ اور ان کے مقلدین عموما دوہراتے رہتے ہیں۔ روس کے سوشلسٹ انقلاب کی تاریخ سے درست واقفیت کے لیے ان کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
اپنے خطاب میں لال خان نے کہا کہ روس میں سوشلسٹ انقلاب لینن اور ٹراٹسکی کی مشترکہ جدوجہد کا ثمر تھا۔ سچائی یہ ہے کہ روس کے سوشلسٹ انقلاب کی رہنمائی کرنے والی مزدوروں کی سیاسی جماعت، بالشویک پارٹی تھی۔ ٹراٹسکی نے ہمیشہ بالشویک پارٹی اور اس کے ممتاز ترین رہنما ولادیمیر لینن کی مخالفت کی۔ دونوں کے درمیان 1904 سے لے کر انقلاب کے بعد تک ہر معاملے پر شدید اختلاف رہا۔ ٹراٹسکی کبھی ایک سیاسی گروہ میں کبھی دوسرے میں، کبھی بائیں بازو کے حلقے میں کبھی دائیں بازو کے حلقے میں اور کبھی سب سے الگ تھلگ سیاست کرتا رہا۔ وہ کسانوں کو انقلاب دشمن سمجھتا تھا جبکہ مزدور طبقے میں اس کی کوئی پزیرائی نہیں تھی۔ بالشویک پارٹی نے اسے تنظیم کاری، نظریاتی مسائل، انقلابی حکمتِ عملی، مزدوروں کی ہڑتالوں وغیرہ کے معاملات پر انقلاب سے پہلے اور بعد میں ہمیشہ ایک مخالف کی حیثیت سے لتاڑا۔ لینن نے اپنی متعدد تحریروں میں اسے ہڑتال توڑ، منافق، مزدوروں کا غدار، فرقہ باز، ڈھونگیہ، بڑبولا، کھوکھلی لفاظی کرنے والا جیسے القابات سے نوازا۔ وہ انقلاب کو ناگزیر پا کر اس سے صرف چند ماہ پہلے بالشویک پارٹی میں شامل ہوا ۔اور پارٹی میں شمولیت کے بعد بھی 1927 میں خارج کیے جانے تک وہ ہمیشہ حزبِ مخالف کا حصہ رہا اور اس کے بعد روس انقلاب کے خلاف امریکی سامراج کے بنائے گئے ڈیوی کمیشن کا گواہ بھی بنا اور جاپانی اور جرمن سامراجیوں کے لیے سوویت یونین میں اپنے حواریوں کے زریعے سازشوں میں ملوث رہا۔ ایسے شخص کا روسی انقلاب کی کامیابی میں کیا کردار ہو سکتا ہے؟
لال خان نے یہ بھی دعوی کیا کہ روس میں سوشلسٹ انقلاب اس وقت کامیاب ہوا جب لینن اپنے “مرحلہ وار انقلاب” کے نظریے سے دست بردار ہو کر ٹراٹسکی کے “مسلسل انقلاب” کے نظریے پر قائل ہو گیا حالانکہ لینن نے اپنے اپریل تھیسس میں واضح طور پر لکھا تھا کہ “…روس کی موجودہ صورتحال کی خاصیت یہ ہے کہ ملک اس وقت انقلاب کے “پہلے مرحلے” سے گزر رہا ہے جس میں مزدوروں کے طبقاتی شعور اور تنظیم کاری کی کمی کے سبب اقتدار سرمایہ دار طبقے کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے جسے “دوسرے مرحلے” میں لازمی طور پر مزدوروں اور غریب ترین کسانوں کے ہاتھوں میں جانا چاہیے۔۔۔”
لینن نے اپنے اس تجزیے میں انقلاب کے دو مرحلوں کو نہایت صفائی کے ساتھ بیان کیا ہے لیکن نہایت ڈھٹائی کے ساتھ لال خان سمیت دنیا بھر میں ٹراٹسکی کے مقلد یہ کہتے ہیں کہ لینن کا یہ تجزیہ جو اپریل تھیسس کے نام سے مشہور ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ لینن “مرحلہ وار انقلاب” کے اپنے نظریے سے دست بردار ہو گیا تھا اور اس نے ٹراٹسکی کے “مسلسل انقلاب” کے نظریے کو اپنا لیا تھا! یہ اس حقیقت کو بھی خاطر میں نہیں لاتے کہ لینن نے متعدد مرتبہ ٹراٹسکی کے مسلسل انقلاب کے نظریے کو غلط قرار دیا تھا۔ مثلا، 1914 میں لینن نے ٹراٹسکی کو روسی انقلابی تحریک کا بدترین فرقہ پرست قرار دیتے ہوئے اس کے جھوٹ، ریاکاریوں اور مزدور طبقے سے غداریوں کا تاریخی پردہ چاک کرتی اپنی تحریر “اتحاد کے بھیس میں فرقہ پرستی” میں لکھا کہ “…1904 سے 1905 کے دوران ٹراٹسکی نے منشویکوں کو بھی چھوڑ دیا اور درمیانی راستہ اختیار کرتے ہوئے کبھی مارتینوو(معیشت پرست) کے ساتھ کام کرتا رہا اور کبھی بائیں بازو کے اپنے احمقانہ نظریے “مسلسل انقلاب” کو دوہراتا رہا۔۔” ایک سال بعد 1915 میں لینن نے اپنی تحریر “انقلاب کی دو لائنیں” میں کہا کہ “۔۔۔ٹراٹسکی 1905 کے اپنے اصل انقلابی نظریے (مسلسل انقلاب) کو دوہراتا ہے اور رک کر یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کہ گزشتہ دس سال سے زندگی اس کے نظریے سے کترا کر کیوں گزرتی رہی ہے۔۔۔”
لینن نے روسی حالات کا گہرائی سے تجزیہ کرتے ہوئے روس میں طبقاتی طاقتوں کے توازن اور معاشی-سماجی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، مثلا اپنی تحریر “انقلاب کی دو لائنیں” میں کہا تھا کہ روس میں مزدور، کسان اور سرمایہ دار تینوں طبقے بادشاہت اور جاگیرداری کے خاتمے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ پہلے مر حلے میں ظالمانہ شاہی اقتدار اور جاگیرداری ختم کی جائے گی اور جمہوری انقلاب کی تکمیل ہو گی جس کے بعد اگلا مرحلہ سوشلسٹ انقلاب کا ہوگا۔ اس کے برعکس ٹراٹسکی اپنے مسلسل انقلاب کے مجہول اور غیرمارکسی نظریے کے تحت اس غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ روس میں جاگیرداری کا خاتمہ ہوگا اور اس کی جگہ سوشلزم لے گا۔
ٹراٹسکی کے مسلسل انقلاب میں کسانوں سے دشمنی اور کسی ایک ملک میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے بجائے صرف عالمی پیمانے پر سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے بچگانہ خیالات شامل تھے۔ اس وجہ سے وہ روس میں انقلابی جدوجہد میں کسانوں کو مزدوروں کا طبقاتی حریف سمجھتا تھا اور روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کا اس وقت تک مخالف تھا جب تک یورپ میں بھی سوشلسٹ انقلابات رونما نہ ہوجائیں۔ لینن اور بالشویک پارٹی نے اس کے نظریات کو ٹھوس مارکسی دلائل اور حقائق سے رد کر دیا تھا۔ خصوصا لینن نے “ناہموار معاشی اور سماجی ترقی کے قانون” سے یہ ثابت کیا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ ہر جگہ ایک ہی وقت میں انقلاب کے لیے حالات یکساں طور پر سازگار ہوں۔
1905 میں ٹراٹسکی کا نعرہ تھا کہ “زار شاہی نہیں بلکہ مزدوروں کی حکومت” یعنی جمہوری انقلاب سے گزرے بغیر روسی سماج کی جاگیرداری سے براہِ راست سوشلزم میں منتقلی ہو. روس میں واقعات نے لینن کے مرحلہ وار انقلابی نظریے کو درست اور ٹراٹسکی کے مسلسل انقلاب کو غلط ثابت کیا۔ 1905 میں روس میں مزدور انقلاب رونما نہیں ہوا۔ فروری 1917 میں بادشاہت اور جاگیرداری ختم ہوئی اور جمہوری انقلاب رونما ہوا جس میں اقتدار، کیڈٹ پارٹی، یعنی سرمایہ دار طبقے کے ہاتھوں میں گیا۔ اس کے سات ماہ بعد مزدور ا انقلاب رونما ہوا جس میں اقتدار مزدور طبقے کو منتقل ہوا۔
لال خان نے مزید کہا کہ لینن نے روسی انقلاب کی ناکامی کی پیش گوئی 70 سال پہلے ہی کر دی تھی جبکہ ٹراٹسکی نے وقت سے پہلے 1936 میں ہی روسی انقلاب کی ناکامی کا اسکرپٹ لکھ دیا تھا۔ ہماری عرض یہ ہے کہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات و واقعات کا پہلے سے تجزیہ کر کے درست نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت کا عقل و دانش یا سائنسی سوشلزم سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ مابعدالطبعیاتی خصوصیت ہے جسے گھاگ جعلساز پیر و فقیر سادہ لوح اور ضعیف الاعتقاد لوگوں کو جھانسہ دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لینن یا ٹراٹسکی کی شخصیت پرستی میں مبتلا مرید ان کی اس پیغمبرانہ خاصیت سے ضرور مغلوب و متاثر ہو سکتے ہیں لیکن سائنسی سوشلزم کے طالبِ علم کے لیے یہ ایک نہایت جاہلانہ شعبدہ بازی کے سوا کچھ نہیں۔
انقلاب عمل سے آتے ہیں اور ختم ہوتے ہیں کسی کی پیش گوئی یا اسکرپٹ لکھنے سے نہیں. ٹراٹسکی کا رجحان بھی مابعدالطبعیاتی تھا اور اس کے مقلدوں کو بھی یہ خصوصیت بہت بھاتی ہے۔ ایک زمانے میں یہ اکثر اور اب بھی بعض اوقات ٹراٹسکی جیسے رد انقلابی کو لینن سے بڑا یا اس کے مقابل ایک مارکسی نظریہ دان اور انقلابی رہنما ثابت کرنے کی منافقانہ کوشش کرتے تھے اب انہوں نے ٹراٹسکی کو عظیم ثابت کرنے کے لیے اسے لینن کے کپڑے پہنانے کا چلن اختیارکر رکھا ہے جس کے تحت یہ بڑی محنت سے تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے لینن کے انقلابی نظریات کو ٹراٹسکی کے نظریات ثابت کرنے پر تلے ہیں تاکہ سوشلسٹ تحریک کے خلاف اس کے بوسیدہ اور متعفن کردار کی گندگی اور بدبو کو چھپا کر اسے پرجوش انقلابی نوجوانوں کے لیے قابلِ قبول بنا کر انہیں انقلاب کے نام پر گمراہ کر سکیں۔
سوشلزم، لیون ٹراٹسکی اور مسلسل انقلاب
سوشلزم، لیون ٹراٹسکی اور مسلسل انقلاب
تحریر: شاداب مرتضی
لاہور میں پروگریسو لیبر فیڈریشن کے ایک اسٹڈی سرکل سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سوشلسٹ گروہ، طبقاتی جدوجہد، کے رہنما لال خان نے روس کے سوشلسٹ انقلاب کی تاریخ کے بارے میں انتہائی لغو اور من گھڑت دعوے کیے ہیں جنہیں وہ اور ان کے مقلدین عموما دوہراتے رہتے ہیں۔ روس کے سوشلسٹ انقلاب کی تاریخ سے درست واقفیت کے لیے ان کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
اپنے خطاب میں لال خان نے کہا کہ روس میں سوشلسٹ انقلاب لینن اور ٹراٹسکی کی مشترکہ جدوجہد کا ثمر تھا۔ سچائی یہ ہے کہ روس کے سوشلسٹ انقلاب کی رہنمائی کرنے والی مزدوروں کی سیاسی جماعت، بالشویک پارٹی تھی۔ ٹراٹسکی نے ہمیشہ بالشویک پارٹی اور اس کے ممتاز ترین رہنما ولادیمیر لینن کی مخالفت کی۔ دونوں کے درمیان 1904 سے لے کر انقلاب کے بعد تک ہر معاملے پر شدید اختلاف رہا۔ ٹراٹسکی کبھی ایک سیاسی گروہ میں کبھی دوسرے میں، کبھی بائیں بازو کے حلقے میں کبھی دائیں بازو کے حلقے میں اور کبھی سب سے الگ تھلگ سیاست کرتا رہا۔ وہ کسانوں کو انقلاب دشمن سمجھتا تھا جبکہ مزدور طبقے میں اس کی کوئی پزیرائی نہیں تھی۔ بالشویک پارٹی نے اسے تنظیم کاری، نظریاتی مسائل، انقلابی حکمتِ عملی، مزدوروں کی ہڑتالوں وغیرہ کے معاملات پر انقلاب سے پہلے اور بعد میں ہمیشہ ایک مخالف کی حیثیت سے لتاڑا۔ لینن نے اپنی متعدد تحریروں میں اسے ہڑتال توڑ، منافق، مزدوروں کا غدار، فرقہ باز، ڈھونگیہ، بڑبولا، کھوکھلی لفاظی کرنے والا جیسے القابات سے نوازا۔ وہ انقلاب کو ناگزیر پا کر اس سے صرف چند ماہ پہلے بالشویک پارٹی میں شامل ہوا ۔اور پارٹی میں شمولیت کے بعد بھی 1927 میں خارج کیے جانے تک وہ ہمیشہ حزبِ مخالف کا حصہ رہا اور اس کے بعد روس انقلاب کے خلاف امریکی سامراج کے بنائے گئے ڈیوی کمیشن کا گواہ بھی بنا اور جاپانی اور جرمن سامراجیوں کے لیے سوویت یونین میں اپنے حواریوں کے زریعے سازشوں میں ملوث رہا۔ ایسے شخص کا روسی انقلاب کی کامیابی میں کیا کردار ہو سکتا ہے؟
لال خان نے یہ بھی دعوی کیا کہ روس میں سوشلسٹ انقلاب اس وقت کامیاب ہوا جب لینن اپنے “مرحلہ وار انقلاب” کے نظریے سے دست بردار ہو کر ٹراٹسکی کے “مسلسل انقلاب” کے نظریے پر قائل ہو گیا حالانکہ لینن نے اپنے اپریل تھیسس میں واضح طور پر لکھا تھا کہ “…روس کی موجودہ صورتحال کی خاصیت یہ ہے کہ ملک اس وقت انقلاب کے “پہلے مرحلے” سے گزر رہا ہے جس میں مزدوروں کے طبقاتی شعور اور تنظیم کاری کی کمی کے سبب اقتدار سرمایہ دار طبقے کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے جسے “دوسرے مرحلے” میں لازمی طور پر مزدوروں اور غریب ترین کسانوں کے ہاتھوں میں جانا چاہیے۔۔۔”
لینن نے اپنے اس تجزیے میں انقلاب کے دو مرحلوں کو نہایت صفائی کے ساتھ بیان کیا ہے لیکن نہایت ڈھٹائی کے ساتھ لال خان سمیت دنیا بھر میں ٹراٹسکی کے مقلد یہ کہتے ہیں کہ لینن کا یہ تجزیہ جو اپریل تھیسس کے نام سے مشہور ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ لینن “مرحلہ وار انقلاب” کے اپنے نظریے سے دست بردار ہو گیا تھا اور اس نے ٹراٹسکی کے “مسلسل انقلاب” کے نظریے کو اپنا لیا تھا! یہ اس حقیقت کو بھی خاطر میں نہیں لاتے کہ لینن نے متعدد مرتبہ ٹراٹسکی کے مسلسل انقلاب کے نظریے کو غلط قرار دیا تھا۔ مثلا، 1914 میں لینن نے ٹراٹسکی کو روسی انقلابی تحریک کا بدترین فرقہ پرست قرار دیتے ہوئے اس کے جھوٹ، ریاکاریوں اور مزدور طبقے سے غداریوں کا تاریخی پردہ چاک کرتی اپنی تحریر “اتحاد کے بھیس میں فرقہ پرستی” میں لکھا کہ “…1904 سے 1905 کے دوران ٹراٹسکی نے منشویکوں کو بھی چھوڑ دیا اور درمیانی راستہ اختیار کرتے ہوئے کبھی مارتینوو(معیشت پرست) کے ساتھ کام کرتا رہا اور کبھی بائیں بازو کے اپنے احمقانہ نظریے “مسلسل انقلاب” کو دوہراتا رہا۔۔” ایک سال بعد 1915 میں لینن نے اپنی تحریر “انقلاب کی دو لائنیں” میں کہا کہ “۔۔۔ٹراٹسکی 1905 کے اپنے اصل انقلابی نظریے (مسلسل انقلاب) کو دوہراتا ہے اور رک کر یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کہ گزشتہ دس سال سے زندگی اس کے نظریے سے کترا کر کیوں گزرتی رہی ہے۔۔۔”
لینن نے روسی حالات کا گہرائی سے تجزیہ کرتے ہوئے روس میں طبقاتی طاقتوں کے توازن اور معاشی-سماجی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، مثلا اپنی تحریر “انقلاب کی دو لائنیں” میں کہا تھا کہ روس میں مزدور، کسان اور سرمایہ دار تینوں طبقے بادشاہت اور جاگیرداری کے خاتمے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ پہلے مر حلے میں ظالمانہ شاہی اقتدار اور جاگیرداری ختم کی جائے گی اور جمہوری انقلاب کی تکمیل ہو گی جس کے بعد اگلا مرحلہ سوشلسٹ انقلاب کا ہوگا۔ اس کے برعکس ٹراٹسکی اپنے مسلسل انقلاب کے مجہول اور غیرمارکسی نظریے کے تحت اس غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ روس میں جاگیرداری کا خاتمہ ہوگا اور اس کی جگہ سوشلزم لے گا۔
ٹراٹسکی کے مسلسل انقلاب میں کسانوں سے دشمنی اور کسی ایک ملک میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے بجائے صرف عالمی پیمانے پر سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے بچکانہ خیالات شامل تھے۔ اس وجہ سے وہ روس میں انقلابی جدوجہد میں کسانوں کو مزدوروں کا طبقاتی حریف سمجھتا تھا اور روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کا اس وقت تک مخالف تھا جب تک یورپ میں بھی سوشلسٹ انقلابات رونما نہ ہوجائیں۔ لینن اور بالشویک پارٹی نے اس کے نظریات کو ٹھوس مارکسی دلائل اور حقائق سے رد کر دیا تھا۔ خصوصا لینن نے “ناہموار معاشی اور سماجی ترقی کے قانون” سے یہ ثابت کیا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ ہر جگہ ایک ہی وقت میں انقلاب کے لیے حالات یکساں طور پر سازگار ہوں۔
1905 میں ٹراٹسکی کا نعرہ تھا کہ “زار شاہی نہیں بلکہ مزدوروں کی حکومت” یعنی جمہوری انقلاب سے گزرے بغیر روسی سماج کی جاگیرداری سے براہِ راست سوشلزم میں منتقلی ہو. روس میں واقعات نے لینن کے مرحلہ وار انقلابی نظریے کو درست اور ٹراٹسکی کے مسلسل انقلاب کو غلط ثابت کیا۔ 1905 میں روس میں مزدور انقلاب رونما نہیں ہوا۔ فروری 1917 میں بادشاہت اور جاگیرداری ختم ہوئی اور جمہوری انقلاب رونما ہوا جس میں اقتدار، کیڈٹ پارٹی، یعنی سرمایہ دار طبقے کے ہاتھوں میں گیا۔ اس کے سات ماہ بعد مزدور ا انقلاب رونما ہوا جس میں اقتدار مزدور طبقے کو منتقل ہوا۔
لال خان نے مزید کہا کہ لینن نے روسی انقلاب کی ناکامی کی پیش گوئی 70 سال پہلے ہی کر دی تھی جبکہ ٹراٹسکی نے وقت سے پہلے 1936 میں ہی روسی انقلاب کی ناکامی کا اسکرپٹ لکھ دیا تھا۔ ہماری عرض یہ ہے کہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات و واقعات کا پہلے سے تجزیہ کر کے درست نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت کا عقل و دانش یا سائنسی سوشلزم سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ مابعدالطبعیاتی خصوصیت ہے جسے گھاگ جعلساز پیر و فقیر سادہ لوح اور ضعیف الاعتقاد لوگوں کو جھانسہ دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لینن یا ٹراٹسکی کی شخصیت پرستی میں مبتلا مرید ان کی اس پیغمبرانہ خاصیت سے ضرور مغلوب و متاثر ہو سکتے ہیں لیکن سائنسی سوشلزم کے طالبِ علم کے لیے یہ ایک نہایت جاہلانہ شعبدہ بازی کے سوا کچھ نہیں۔
انقلاب عمل سے آتے ہیں اور ختم ہوتے ہیں کسی کی پیش گوئی یا اسکرپٹ لکھنے سے نہیں. ٹراٹسکی کا رجحان بھی مابعدالطبعیاتی تھا اور اس کے مقلدوں کو بھی یہ خصوصیت بہت بھاتی ہے۔ ایک زمانے میں یہ اکثر اور اب بھی بعض اوقات ٹراٹسکی جیسے رد انقلابی کو لینن سے بڑا یا اس کے مقابل ایک مارکسی نظریہ دان اور انقلابی رہنما ثابت کرنے کی منافقانہ کوشش کرتے تھے اب انہوں نے ٹراٹسکی کو عظیم ثابت کرنے کے لیے اسے لینن کے کپڑے پہنانے کا چلن اختیارکر رکھا ہے جس کے تحت یہ بڑی محنت سے تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے لینن کے انقلابی نظریات کو ٹراٹسکی کے نظریات ثابت کرنے پر تلے ہیں تاکہ سوشلسٹ تحریک کے خلاف اس کے بوسیدہ اور متعفن کردار کی گندگی اور بدبو کو چھپا کر اسے پرجوش انقلابی نوجوانوں کے لیے قابلِ قبول بنا کر انہیں انقلاب کے نام پر گمراہ کر سکیں۔