(نعیم بیگ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ : اس کہانی کا مقام ، وقت اور کردار اندیشہ ہائے نقصِ امن و مفادِ دوستاں تبدیل کر دئے گئے ہیں تاہم کہیں کہیں ان واقعات کی سچائی کے پیشِ نظر تبدیلی یا مماثلت محض قارئین کا فریبِ نظر تصور کیا جائے، مصنف صرف واقعات رقم کرنے کا گناہگار ہے۔
شطرنج کی بازی اور شرطیں بدنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کوئی سنہ ۷۳ء کا زمانہ تھا، میں گریجوئشن کر چکا تھا لیکن شومئی قسمت ابھی یونیورسٹی میں داخلے کا کوئی بندوبست نہیں ہوا تھا بندوبست ہوتا بھی کیسے ۔ میں تو امتحان دیکر یورپ جا چکا تھا اور دو برس بعد واپس لوٹا تھا۔ پرانے دوست سبھی ادھر اُدھر بکھر چکے تھے۔ کچھ نوکریوں پر ، کچھ یونیورسٹی چلے گئے تھے اور بقیہ غائب تھے۔ بہرحال گھر کے قریب ہی ان دنوں ایک معروف وکیل جو بعد میں بھٹو صاحب کی کابینہ میں وفاقی وزیر بھی بنے تھے انکا آفس تھا۔ وہاں شام کو ایک محفل جمتی جہاں کبھی کبھار میں بھی چلا جایا کرتا اور ایک کونے میں بیٹھ کر سینئر لوگوں کی باتیں سنا کرتا ۔ براؤن کلر کا مشروب اکثر ان کے گلاسوں کے تلے میں پڑا ہوا انکے سامنے دھرا دیکھتا تو حیران ہوتا ۔ کیسے لوگ ہیں ؟ آخر میں تھوڑا سامشروب کیوں چھوڑ دیتے ہیں اور پھر اٹھتے ہوئے ایک ہی گھونٹ میں ختم کر لیتے ہیں۔
اماں تو کہتی ہیں کہ گلاس یا پلیٹ میں کچھ چھوڑ دینا بد اخلاقی کی نشانی ہے۔ میری شعوری زندگی کچھ انہی تہذیبی تضادات میں آنکھیں کھول رہی تھی۔
وکیل صاحب کا منشی اسماعیل میرا ہم عمر تھا سو ہم جلد ہی گہرے دوست بن گئے۔ رات کو جب وکیل صاحب کے ہاں محفل برخاست ہوتی تو اسماعیل مجھے لیکر پریس کلب پہنچ جاتا، جہاں تقریباً سبھی لوگ اس سے متعارف تھے۔ پہلے دن جب گئے تو اسماعیل نے موجود لوگوں سے میرا تعارف کروا دیا ۔ تعارف کیا؟ بس نام بتایا اور یہ کہا کہ میرا دوست ہے۔ اس زمانے میں اتنا تعارف ہی کافی ہوا کرتا تھا۔ مجھے جہاں جگہ ملتی ، بیٹھ جاتا۔
ایک دن جب ہم پریس کلب پہنچے تو اسماعیل کسی کو دیکھتے ہی اس کی طرف لپکا اور میں ایک طرف جہاں چند لوگ شطرنج کھیل رہے تھے ، انکے قریب بیٹھ گیا۔ یہ اتفاق تھا کہ مجھے شطرنج آتی تھی لیکن بڑے لوگوں کے ساتھ کھیلنے کا کبھی اتفاق نہیں تھا۔ میں قریب کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ ایک طرف مشرق اخبار کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر عالی صاحب (خدا انہیں غریقِ رحمت کرے )بیٹھے تھے۔ دوسری طرف پاکستان ٹائمز کے بیوروچیف طاہر بیٹھے تھے اور بازی زوروں پر تھی۔ دونوں طرف کے حمایتی ہر چال پر کوئی نہ کوئی مشورہ دیتے جو کبھی قبول ہوتا ، کبھی رد ہوجاتا۔
عالی صاحب متناسب و متوازن دل و دماغ اور جسامت رکھنے والے انتہائی نستعلیق شخص تھے۔ منجھے ہوئے صحافی اور علم و دانش کے مینار، پاکستان ٹائمز کے دراز قد طاہر ذرا منہ زور اور منہ پھٹ قسم کے آدمی تھے لیکن ثقہ صحافی۔ کسی کو نہ بخشنا انکی عادت تھی ۔ چونکہ دونوں دوست تھے اور شطرنج کے پرانے کھلاڑی تھے تو انکی یہ بازیاں بمہ زبانی کلامی اٹھکیلیاں ، جملہ بازی چلتی رہتیں ۔ ایک وجہ اور بھی تھی کہ اکثر دونوں کے دائیں جانب کرسی کی ٹانگ کے پاس ایک ایک گلاس پڑا ہوتا جس سے ہر تھوڑی دیر بعد دونوں ایک چسکی لگا لیتے اور ایک دوسرے پر جملے کستے ہوئے اگلی چال چلتے اور چیلنج دیتے کہ اب مات ہوئی سو ہوئی لیکن اکثر میں نے دیکھا تھا کہ مات کی بجائے وہ بازی کبھی ختم نہ ہونے والی بازی بن جاتی ۔ موڈ میں آ جانے کے بعد بھلا کسے چال یاد رہے گی تاہم ایسے وقت میں قریبی تماشبین جن میں اکثر صحافی ہی ہوتے دونوں کو باری باری مختلف چالوں کے مشورے دیتے جو کبھی مان لئے جاتے اور کبھی رد ہو جاتے۔
عالی صاحب کی باری آئی تو مجھے ایک چال سوجھی، میں نے ماحول کے مطابق عالی صاحب کو متوجہ کیا اور کہا ، ’’ رکیئے سر۔۔۔ رکیئے۔‘‘
انہوں نے ہاتھ روک لیا اور میری طرف چہرہ کرتے ہوئے کہا ۔’’ میاں شطرنج جانتے ہو کیا؟
میں نے ڈرتے ہوئے کہا۔ ’’ جی ۔۔۔ سر ، کچھ کچھ ۔‘‘ اور خود ہی آگے بڑھ کر بڑے اعتماد سے انکے سفید رخ کو قربانی کا بکرا بنایا اوربظاہر بلاجواز طاہر کا سیاہ پیدل مار دیا ۔ اب چونکہ میں انکی طرف سے چال چل چکا تھا جو بظاہر غلط لگ رہی تھی ، لیکن عالی صاحب خاموش رہے اور طاہر کا منہ دیکھنے لگے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔
طاہر نے قہقہہ لگاتے ہوئے فوراً اپنے فرزیں یعنی کوئن کو سامنے لائے اور رخ کو مار دیا اور عالی صاحب سے طنزاً کہا ۔۔۔۔ ’’ اور لونڈوں سے مدد مانگو۔۔۔ یہ تمیں مروائیں گے۔ ‘‘
مجھے معلوم تھا کہ اکثر حریف اسی طرح کے فوری ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ایک مہرے کی لالچ میں اپنے حصار کو توڑ کر اور اپنے بادشاہ کو یک و تنہا چھوڑ کر سامنے نکل آ تے ہیں اور وہی ہوا۔
میں نے انہیں اتنا وقت دیا کہ وہ اپنی چال مکمل کر لیں اور مرا ہوا رخ بساط سے باہر رکھ دیں تاکہ بعد میں اپنی غلطی کی تلافی کے لئے چال واپس نہ لے لیں ۔ جب انہوں نے سفید رخ کو مار کر بساط سے باہر رکھ دیا تو لگے قہقہے لگانے اور جملے کسنے۔ عالی صاحب ذرا جزبز ہوئے تو میں اطمینان سے اپنے سفید فرزیں کو ترچھی سیدھ میں لے جاکر انکے کِنگ کے سامنے رکھ دیا۔ یہ شہہ مات تھی۔ بس اب کیا تھا۔ چاروں طرف داد و تحسین کے ڈونگرے عالی صاحب پر برسنے لگے۔ عالی صاحب نے شاید بڑے عرصے بعد یوں شہہ مات دی تھی ۔ انہوں نے مجھے قریب بلا کر شاباش دی ۔
طاہر غصے میں بھنا رہے تھے انہوں نے فوراً بساط پر دوبارہ مہرے لگائے اور عالی صاحب کو کہا ۔۔’’ تم اب سامنے آؤ ۔۔۔ تمیں بتاتا ہوں کہ شہہ مات کِسے کہتے ہیں؟ کل کے لونڈوں سے مدد لیکر جیتنا بھی کوئی جیتنا ہوتا ہے ؟ عالی صاحب ،اپنی لڑائی خود لڑنا سیکھو ۔ ‘‘ اس طرح کے جملوں سے انہوں نے عالی صاحب کو خوب اشتعال دلایا لیکن عالی صاحب ٹھنڈے دماغ کے آدمی تھے۔۔۔ انہوں نے طاہر کے اس اشتعال پر مزید پیٹرول پھینکا۔
’’ میاں طاہر ۔۔۔ سنو تم بہت بڑے شطرنج کے کھلاڑی ہو۔۔۔ میں جانتا ہوں ۔‘‘ اور پھر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے گویا ہوئے ’’ لیکن پہلے میرے پٹھے کو ہراؤ جب میں تم سے بازی لگاؤں گا۔ ‘‘
عالی صاحب کا یہ کہنا تھا کہ پریس کلب میں ایک شور مچ گیا۔ آس پاس بیٹھے لوگ اس للکار پر شرطیں بدنے لگے۔ مجھے احساس ہوا کہ میں ایک ایسا گھوڑا بن چکا ہوں جسے ہر صورت ریس میں جیتا ہوتا ہے۔ بس عالی صاحب نے مجھے اپنا پٹھہ تو بنا لیا لیکن میرے اوسان خطا کر دئیے ۔ شطرنج ایسا کھیل ہے کہ کسی وقت بھی بازی پلٹی جا سکتی ہے آپ کی معمولی چوک آپکو یکلخت شہہ مات پر لا کھڑا کر دیتی ہے۔ تاہم اس موقع پر میں خاموش ہی رہا حتیٰ کہ طاہر نے عالی صاحب کا چیلنج نہ صرف قبول کر لیا بلکہ سیدھے ہوکر بساط کا رخ میری طرف کر دیا اور کسی سے کہا اسے سامنے آنے د و بیٹھنے کے لئے۔میں دل ہی دل میں دعائیں پڑھتا ہوا کرسی کو انکے بالمقابل سیدھی کر کے بیٹھ گیا۔
یہ اعلان ہو چکا تھا کہ ہارنے والی پارٹی فوری طور پر موجود افراد کے لئے اشیاٗ خوردونوش کا خرچ اٹھائے گی۔ خوردکا معاملہ تو ڈنر تک تھا البتہ نوش پر کچھ لے دے ہوئی لیکن عالی صاحب شاید مجھ پر کچھ زیادہ ہی اعتماد کر چکے تھے سو انہوں نے یہ شرط اس شرط کے ساتھ مشروط کر دی کہ دوران کھیل کوئی اور نہیں بولے گا۔ سبھی موجود افراد نے ایک زور دار ہامی بھری اور کہا گیا کہ اب خاموشی سے کھیل دیکھا جائے گا۔ عالی صاحب نے یہ سنتے ہی مشروب کا بھی آڈر دے دیا۔
جو قارئین شطرنج جانتے ہیں انہیں اندازہ ہوگا کہ شطرنج کے کھلاڑی اپنے دامن میں ایک دو مخصوص قسم کی تیکنیکی بازیاں خفیہ رکھتے ہیں جنہیں وہ ایسے ہی موقعوں پر استعمال کرتے ہیں جب اچانک کوئی بہت بڑا پہاڑ سامنے آن کھڑا ہو جائے اور آپکو انہیں پلک جھپکنے میں ہی شہہ مات دینا ہوتی ہے ۔ ایسے موقعوں پر حریف کھلاڑی کو وقت کا سہارادینا شکست کا باعث بنتا ہے کیونکہ طویل کھیل دوسرے کو سوچنے سمجھنے کا موقع مہیا کرتا ہے ۔
طاہر نے سفید مہرے خود لئے تاکہ پہلی چال انہیں ملے۔ انہوں نے خوب سوچ کر پہلی چال چلی تو میں نے فوراً اپنی چال چل دی۔ انہوں نے جواباً نفسیاتی دباؤ کو کم کرنے کے لئے پہلے سے کم وقت میں سوچا اور دوسری چال چل دی ، مجھے چونکہ یہ چالیں از بر تھیں میں نے سوچے سمجھے بغیر ہی اپنی دوسری چال چل دی۔ جواب میں وہ کچھ گھبرائے تو، لیکن انہیں بظاہر میری بے وقوفانہ اور بے مقصد چال سمجھ نہ آئی اور انہوں نے وہی متوقع چال دی جس کا مجھے یقین تھا کہ وہ جواب میں یہی چال چلیں گے۔ سو میں نے اگلی چال بھی سیکنڈ کے آدھے وقت میں چل دی ۔ اس بار انہوں نے کافی سوچ بچار کی۔
ماحول پر پِن ڈراپ خاموشی طاری تھی۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ پریس کلب میں پن ڈراپ سائلینس تو کبھی وزیر اعظم کے آنے پر نہیں ہوتی۔ سبھی سانس روکے اس کھیل کودیکھ رہے تھے میرا خیال ہے کچھ لوگ میری چالیں خوب سمجھ رہے تھے لیکن چونکہ بولنے پر پابندی تھی لہذا سب خاموشی سے آگے بڑھتے ہوئے کھیل کو دیکھنے میں مشغول تھے۔ میری تیکنیک کے حساب سے اب صرف ایک چال بچی تھی ، جونہی انہوں نے وہی متوقع چال چلی تو میں فرزیں اٹھا کے انکے قلعہ میں پہنچا اور ان کے ایک پیدل کو مار کر نائٹ(گھوڑے) کے زور پر شہہ مات کی آواز لگا دی۔
بس جب میرا شہہ مات کا اعلان ہوا تو لوگوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ وہ شور وغوغا ہوا کہ عالی صاحب کی چپ کرانے کی آواز یں اور طاہر کی مغلظات سب کچھ اس شور میں بہہ گئیں۔ طاہر پنجابی میں مغلظات کہتے ہوئے اٹھ کر باہر نکل گئے اور شور تھمنے پر عالی صاحب نے ویٹرز کو کھانے کا آڈر دے دیا اور میرے کندھے پر شاباش دیتے ہوئے بولے۔
’’ یار یہ تو مجھے علم ہو چکا تھا کہ تم شطرنج جانتے ہو، لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ تم اتنے ماہر کھلاڑی ہو کہ طاہر جیسے شاطر کو شہہ مات دوگے۔‘‘ میں صرف مسکرا کر ہی رہ گیا۔ عزتِ سادات بچی تو میرا سانس بحال ہوا تھا۔
یہ کہہ کر پہلی بار انہوں نے کمال شفقت سے مجھ سے وہیں بیٹھے بیٹھے میرے بارے میں بہت سے ذاتی سوال کئے۔ والدین کا پوچھا ، یونیورسٹی میں پڑھنے کی تلقین کی اور مشرق اخبار میں پارٹ ٹائم نوکری کی آفر دے دی، جسے میں نے فطرت کا انمول انعام سمجھ کر قبول کر لی۔