(ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی)
وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے حالیہ دورہ ترکی کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں جہاں مختلف علاقائی اہمیت کے حامل امورپر گفتگو کی وہیں پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے ناگزیر قومی میگا منصوبے چائنہ پاکستان اکنامک کورریڈور (سی پیک) پر بھی تبادلہ خیال کیا، اس حوالے سے سی پیک منصوبے کے خلاف مغربی سازش سے متعلق مختلف خبریں میڈیا کی زینت بنی، میری انفارمیشن کے مطابق وزیراعظم صاحب نے امریکا اور مغربی ممالک نہیں بلکہ علاقائی طاقتوں کی طرف سے سی پیک منصوبے کے خلاف سرگرم ہونے کا ذکر کیا۔قبل اس کے اکیسویں صدی کے اس عظیم ترین منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری پر مزید بات کی جائے، میں آ ج سے ٹھیک ایک سو سال قبل گزشتہ صدی کے عظیم ترین منصوبے کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جو تکمیل سے پہلے ہی عالمی سازشوں کا شکار ہوگیا۔ جنگ عظیم اول سے پہلے جرمنی تیزی سے اقتصادی طاقت کا روپ دھارتا جارہا تھا، جرمنی نے برلن سے بغداد تک کوئی لگ بھگ ساڑھے چار ہزارکلومیٹر طویل ریلوے ٹریک لائن بچھانے کا منصوبہ تشکیل دیا جسکے ابتدائی مقاصدمیں عراق سے تجارتی تعلقات کو مستحکم کرنااور خطے کے دیگر ممالک بشمول شام، ترکی، سربیا، بلغاریہ، ہنگری،آسٹریا وغیرہ کوبذریعہ ریلوے ٹریک منسلک کرکے علاقائی روابط کو فروغ دینا شامل تھا، یہ وہ دور تھا جب یورپ کے مختلف ہمسایہ ممالک آپس میں دست و گریباں تھے، انہی عوامل کی بناء پر جرمنی نے برلن تا بغداد ریلوے ٹریک کی دفاعی اہمیت کوبھی مدِ نظر رکھا تھا کہ بحالت جنگ دفاعی لائن برقرار رکھنے کیلئے بحیرہ فارس میں جدید بندرگاہ کا قیام اور عراق و شام کے تیل تک باآسانی رسائی و ترسیل یقینی بنائی جاسکے۔عالمی منظرنامے میں اس وقت کی سپرپاور طاقتوں کو اپنی چودھراہٹ خطرے میں نظر آنے لگی کہ اگر تیزی سے ابھرتے ہوا جرمنی اس منصوبے میں قائم ہوگیا تو اسے دنیا کی سپرپاور بننے میں دیر نہیں لگے گی، جرمنی کی عرب دنیا میں تیل کے بڑے ذخائر تک رسائی ہونے سے تجارتی اور دفاعی پوزیشن اور بھی ناقابل تسخیر ہو جائے گی،یہی وہ وجوہات اور خدشات تھے جنکی بناء پر اپنے دور کے سامراجیوں نے اس عظیم منصوبے کے خلاف سازشوں کا جال بْننا شروع کر دیا،اور پھربطور تاریخ کے طالب علم ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے آناًفاناً اس ریلوے لائن کو ناکام بنانے کے لیے آسٹریا اورسربیا میں کشیدگی پھیلی، دیکھتے ہی دیکھتے فرانس اور جرمنی آمنے سامنے آ گئے اور پھر فرانس کی حمایت میں امریکا، برطانیہ، روس، اٹلی، یونان پرتگال، رومانیہ اور سربیا نے طبلِ جنگ بجادیا۔ دوسری طرف جرمنی کی مدد کے لیے آسٹریا، ترکی اوربلغاریہ میدانِ جنگ میں کود پڑے اور یوں تاریخ کی وہ خونریز جنگ شروع ہوئی ، جس نے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کے ساتھ ساتھ اس ریل منصوبے کو بھی خاک میں ملا دیا، بعد میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد برلن کو بغداد سے ملانے کے خواب دیکھنے والے جرمنی کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے دیوارِ برلن کھینچ دی گئی۔تاریخ کا یہ ہولناک واقعہ ہمارے لئے بھی نہایت سبق آموز ہے کیونکہ ہم اس واقعے کو سامنے رکھ کر پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر مغربی سازشوں کو کافی حد تک سمجھ سکتے ہیں، ہمارے مغربی ہمسایے افغانستان نے روزِ اول سے پاکستان مخالف رویہ اپنا رکھا ہے، افغانستان وہ واحد ملک ہے جس نے 1947 ء میں پاکستان کی اقوامِ متحدہ میں رکنیت کے خلاف ووٹ دیا، ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہ کرنے کی باتیں کرکے علاقائی کشیدگی میں اضافہ کیا، متعد د مرتبہ سرکاری طور پرحکومتِ پاکستان کو افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے پر احتجاج ریکارڈ کروانا پڑا، ان سب وجوہات کے باوجود پاکستان کا اپنے مغربی ہمسائے سے سفارتی رویہ بحیثیت مجموعی برادرانہ رہا ہے، روسی افواج کی افغانستان میں آمد کے بعد پاکستان نے افغان عوام کیلئے دروازے کھول ڈالے، معاشی مشکلات کے باوجود تاریخ میں سب سے زیادہ مہاجرین کی میزبانی کا اعزازپاکستان کو حاصل ہوا، حملہ آور روس تو افغانستان سے بالآخر سخت مزاحمت کے بعد چلاگیا جس میں پاکستان کے کلیدی کردار کا اعتراف ایک دنیا کرتی ہے لیکن ملک میں جاری دہشت گردی کی تازہ لہر میں افغانستان کا ملوث ہونا اور سی پیک منصوبے کی مخالفت میں بھارت سے تعاون کرنے سے لگتا ہے کہ افغانستان آج بھی 1947 ء کے دورمیں ہی رہ رہا ہے ۔سی پیک کی بدولت پاکستان چائنہ اور خطے کے بسنے والے لاکھوں کروڑوں باشندوں کیلئے ترقی و خوشحالی کا ایک روشن باب کھلنے کو ہے،منصوبے پر تیزی سے تعمیراتی کام جاری ہے، چینی شہر کاشغر سے گلگت بلتستان میں داخل ہوکر چینی تجارتی قافلہ سی پیک روٹ سے گزرتا ہوا گوادر بندرگاہ سے اپنی اگلی منزل کی طرف براستہ سمند ر روانہ ہوچکا ہے، گوادر بندرگاہ کے قریب سے ہی دنیا کے تیل کی سپلائی کی بڑی لائن آبنائے ہرمز گزرتی ہے، سی پیک نے عالمی سرمایہ کاروں کوبھی پاکستان کی طرف متوجہ کیا ہے، وسطِ ایشیا ئی ریاستوں، روس، یورپی ممالک اورترکی کی جانب سے راہداری منصوبے میں بھرپور کردار اداکرنے کی خواہشات منظرِ عام پر آچکی ہیں، چین کی بحیرہ عرب میں بذریعہ گوادر بندرگاہ پہنچ سے نت نئی عالمی تجارتی منڈیوں تک رسائی حاصل ہوگی جسکے مثبت ثمرات سے پاکستان نے مستفید ہونا ہے، دوسری طرف دفاعی نقطہ نظر سے دیکھا جائے توجس طرح 1998 ء میں ایٹمی تجربوں نے ملکی دفاع ناقابلِ تسخیر بنا دیاتھا، اسی طرح سی پیک منصوبہ ملکی اقتصادی دفاع مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہورہاہے ۔بھارت کی پریشانی تو سمجھ آتی ہے کہ سی پیک کی وجہ سے چینی تجارتی جہاز بھارتی سمندری حدود میں سے گزرنا نہ صرف ترک کردیں گے بلکہ بھارت کو خدشہ ہے کہ اسکا مڈل ایسٹ اور مغربی دنیا سے سمندری راستہ بھی گوادر سے روکا جاسکتا ہے، چین اور پاکستان بحیرہ عرب میں بھارتی بحری نقل و حرکت پر نظر رکھ سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ لیکن خشکی میں گھرے ہوئے افغانستان کو کسی بھی ملک کا آلہ کار بنتے ہوئے سمجھنا چاہیئے کہ اسکا مفاد پاکستان کے ساتھ پرامن تعلقات کے ساتھ ہی منسلک ہے۔ پہلے ایک عرصے تک ملک میں سیاسی بحران پیدا کرکے سی پیک منصوبے میں تاخیر کی گئی،چینی صدر کا دورہ پاکستان ایک سال کی تاخیر کا شکار ہوا، مغربی روٹ کی تکمیل نہ ہونے پر بلاجواز واویلہ مچایا گیا، اس سلسلے میں سی پیک مخالفین کو علاقائی طاقتوں کی پشت پناہی بھی حاصل رہی ۔ آپ دیکھ لیں کچھ عرصہ قبل تک کراچی سے کوئٹہ تک پورا ملک بدامنی اور خوف کا شکار تھا،بلوچستان میں نفرت کی آگ جلائی جا رہی تھی،سادہ لوح قبائل کو پاکستان مخالف سرگرمیوں میں الجھایا جا رہا تھا، فرقہ واریت کی آگ بھڑکاجارہی تھی اور بلوچستان اور چھوٹے صوبوں کی احساس محرومی کی آڑ میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو متنازعہ بنایا جارہا تھا،میں سمجھتا ہوں کہ میاں صاحب کی سیاسی بصیرت نے سی پیک منصوبے کو لاحق تمام اندرونی مخالفتوں پر قابو پالیا ہے جسکا ثبوت بیجنگ میں منعقدہ حالیہ جوائینٹ کوآرڈینیشن کمیٹی جے سی سی اجلاس میں تمام وزراء اعلیٰ کا اپنے اپنے صوبوں کی نمائندگی کرنا ہے۔ایسی نازک صورتحال میں جب پاکستان اور چین کے مشترکہ دشمن اپنی روائتی دشمنی کا حق ادا کرنے اور کاروباری مفادات کو خطرے میں پاکراکیسویں صدی کے اس عظیم منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے سازشیں کررہے ہیں ، میں سمجھتا ہوں کہ اس گریٹ گیم میں بدقسمتی سے افغانستان کو پاکستان کے خلاف کھڑا کرکے ٹھیک اسی طرح جنگی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس طرح گزشتہ صدی میں جرمنی کو استعماری سازشوں کا شکار کیا گیا،وزیراعظم صاحب نے بھارت کو تمام تر سی پیک مخالفت کے باوجودتجارت کی دعوت دیکر علاقائی امن و خوشحالی کیلئے ایک احسن قدم اٹھایا ہے،ہمیں سمجھنا چاہیے کہ نرنیندرا مودی پاکستان مخالف ووٹوں کی بدولت اقتدار میں آیا ہے لیکن پاکستانی عوام نے وزیراعظم نواز شریف کو عوامی فلاح و بہبود کا سفر جاری رکھنے کیلئے ووٹ دیئے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اپنے عظیم دوست ملک چین کے تعاون کی بدولت پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ دونوں ممالک اورخطے بھر میں ترقی و خوشحالی کا سبب بن رہاہے، بجلی و توانائی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہونے سے نہ صرف ملک کے بند پڑے کارخانے چالو ہونا شروع ہوگئے ہیں بلکہ براستہ گوادر بندرگاہ ہم مغرب ، افریقہ ، لاطینی امریکہ نت نئی منڈیاں تلاش کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔سی پیک کے خلاف مغربی سازش کے توڑکیلئے پوری قوم کومکمل ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاک افغان بارڈر مینیجمنٹ اور آپریشن ردالفساد کی کامیابی کیلئے دعاگو ہونا چاہیے۔