سیکنڈ ہینڈ اشیاء کی پھیلتی ہوئی مارکیٹ
(عمارہ کلیم اﷲ)
ایک وقت تھا جب سردیوں میں لنڈا بازار میں رش بڑھ جاتا تھا لیکن اب یہ بارہ مہینوں کا کاروبار ہے۔ وقت بدلنے کے ساتھ لوگوں کا معیار زندگی بھی بہت بدل گیا ہے ایک وقت تھا جب آسائشوں کو صرف امیر لوگوں کے لیے مختص سمجھا جاتا تھا اور غریب لوگ صبر شکر سے زندگی گزارتے تھے لیکن اب میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال نے لوگوں میں اب وہ قناعت پسندی نہیں رہنے دی اور لوگوں میں یہ سوچ پیدا کی کہ کیونکہ وہ کسی سے کم نہیں اس لیے زندگی کی ہر آسائش پر ان کا حق ہے۔نئی نسل سمجھتی ہے کہ وہ غریب ہونے کے باوجودکسی سے کم نہیں اور یہ کم نہ ہونے کی خواہش نے ہی لوگوں کو معیار زندگی بلند کرنے کے شوق کو بڑھایا ہے۔لیکن کیا کیجئے شوق کو پورا کرنے کا جب اشیاء کی قیمتیں ہی آسمان کو چھو رہی ہوں۔عام متوسط طبقے کا بندہ بازار میں جاکر اور اپنی جیب ٹٹول کے اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ مطلوبہ اشیاء خریدنا میری جیب کے بس کی بات نہیں اور پھر وہ کوالٹی کونشس ہوتو بھی اس کا مطمئن ہونا مشکل ہے۔
اب لوگوں کی خواہشات صرف کپڑے جوتی تک محدود نہیں بلکہ اب انھیں زندگی کی ہر آسائش اورآرائش چاہیے۔خوبصورت پردے،فانوس،قالین ،ڈیکوریشن پیسز،فرنیچر اورقیمتی کراکری سے سجا گھر،پھر برانڈڈ بیگز جوتے گلاسز،الیکٹرونک اسیسریز وغیرہ وغیرہ۔ ایسے حالات میں استعمال شدہ اشیاء کے بازار یا لنڈا بازار کا رخ لوگ کرتے ہیں۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کنٹینرز میں آنے والے کپڑے تب تک بیرون ممالک سے اپنا سفر شروع نہیں کر پاتے جب تک ان میں جراثیم کش سپرے نہ کر دیا جائے اس طرح یہ بیماریاں پھیلانے کا بالکل سبب نہیں بن سکتے۔ آیئے اب کچھ لنڈے بازار کے بارے میں معلومات لیتے ہیں۔لنڈے بازار میں چالیس سال سے کام کرنے والے ایک بزرگ نے لنڈے بازار کی تاریخ کے بارے میں بتایا کہ اس بازار کا اصل نام ’’سلطان بازار‘‘ ہے جو میاں سلطان نے بنایا تھا۔ شروع میں یہاں فوجیوں کی ٹوپیاں، جوتے، وردیاں اور دیگر سامان بکتا تھا۔ شروع میں یہ بازار ایسی دکانوں پر مشتمل تھا جو ایک منزلہ دکانیں تھیں اور دور تک ایک ہی ترتیب میں چلتی جارہی تھیں اور اس ترتیب کی وجہ سے اسے ’’لُنڈا بازار‘‘ بھی کہتے تھے۔ پھر امریکہ، کوریا، تائیوان، سویڈن اور لنڈن سے پرانے کپڑے اور دیگر سامان ادھر آکر بکنے لگا تو اسے ’’لنڈن بازار‘‘ یا لنڈا بازار‘‘ کہا جانے لگا۔لنڈا بازار ایک انگریز خاتون ’’ُ لِینڈا ‘‘ سے بھی موسوم ہے۔ یہ ایک انگریز خاتون تھیں جو مختلف گھروں سے پْرانے کپڑے جمع کرتیں اور انہیں افریقی اور دیگر غریب ممالک میں بھیجتی۔وہاں یہ کپڑے غریبوں میں مفت تقسیم ہوتے۔رفتہ رفتہ یہ ایک کاروبار بن گیا۔ لنڈا بازار کہنے کو تو غریب کا بازار ہے لیکن بغور جائزہ لیا جائے تو متوسط طبقے کے علاوہ ہائی مڈل کلاس اور غیرملکی بھی یہاں شاپنگ کرتے نظر آئیں گے۔ لاہورمیو ہسپتال کے قریب لنڈا بازار میں جب ایک میڈیکل کی طالبہ سے ہم نے وہاں سے شاپنگ کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ’’ہم تو زیادہ تر یہاں سے ہی کپڑے خریدتے ہیں کیونکہ یہ جگہ بھی قریب ہے اور ہماری پڑھائی کے بڑھتے اخراجات کی وجہ سے یہ ہمارے لئے اکانومکل بھی ہے‘‘ لوگوں کی سوچ کے ساتھ اشیاء کی قیمتیں بھی بہت بدل گئی ہیں بلکہ بڑھ گئی ہیں۔ آیئے لنڈا بازار جانے سے پہلے کچھ استعمال شدہ یا لنڈے کی اشیاء کے بارے میں معلومات لیتے ہیں اور معلومات کرتے ہیں کہ آخر یہ کب، کیوں، کیسے، کہاں اور کس طرح آتے ہیں؟؟
استعمال شدہ اشیاء کے استعمال کا آ غاز کپڑوں سے ہوا جن کی آمد برصغیر میں برطانیہ سے شروع ہوئی ۔ہر برس برطانیہ کے طول و عرض میں ہزاروں لوگ اپنے استعمال شدہ کپڑے خیرات میں دے دیتے ہیں اور اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ یہ کپڑے ان لوگوں کو دیے جائیں گے جنھیں ان کی ضرورت ہے یا ان کپڑوں کو برطانیہ کے بازاروں میں خیراتی اداروں کی دکانوں میں فروخت کر کے ان اداروں کے لیے رقم اکٹھی کی جائے گی۔لیکن ان پرانے کپڑوں کی ایک بہت بڑی تعداد دراصل سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کے کاروبار کا حصہ بن جاتی ہے اور خیرات میں دیے ہوئے کپڑے اربوں کی ایک ایسی تجارت میں استعمال کیے جاتے ہیں جس کا دائرہ کئی ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔برطانیہ میں صارفین ہر سال دس لاکھ ٹن سے زیادہ وزن کے کپڑے پھینک دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کے بعد برطانیہ دنیا میں پرانے کپڑوں کا دوسرا بڑا برآمد کنندہ ملک ہے۔ برطانیہ ہر سال تقریباً چھ کروڑ ڈالر کی مالیت کے کپڑے برآمد کرتا ہے۔ جن ممالک کو یہ کپڑے برآمد کیے جاتے ہیں ان میں سرفہرست پولینڈ، پاکستان، اور یوکرین ہیں جبکہ امریکہ سے جن ممالک کو استعمال شدہ کپڑے برآمد کیے جاتے ہیں ان میں کینیڈا، چلی،گوئٹیمالا اور بھارت شامل ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ امیر ممالک سے شرٹیں، پینٹیں، جینز، اور دیگر سامان ہزاروں میل دور پاکستان، پولینڈ یا گھانا کے بازاروں تک پہنچتے کیسے ہیں؟
مغربی ممالک کے متروک شدہ کپڑوں کے بین الاقوامی سفر کا آغاز اس وقت ہو جاتا ہے جب خیراتی ادارے دکانوں پر نہ فروخت ہونے والے کپڑوں کو تاجروں کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں۔اگرچہ برطانیہ میں خیراتی اداروں کی دکانوں کی تنظیم کا دعویٰ ہے کہ انھیں دیے جانے والے کپڑوں میں سے 90 فیصد ہینگروں میں لٹکا کر دکانوں میں سجائے جاتے ہیں لیکن ان دکانوں کو دیے جانے والے کپڑوں کا صرف دس سے 30 فیصد ہی فروخت ہو پاتا ہے۔ امریکہ اور کینیڈا کے اعداد و شمار اس سے مختلف نہیں ہیں۔ ان میں سے جو کپڑے ان کے معیار پر پورے اترتے ہیں انھیں گانٹھوں میں مشرقی یورپ اور افریقہ میں کمپنی کے مستقل گاہکوں کو بھجوا دیا جاتا ہے جہاں ان کپڑوں کو بیش قیمت مال سمجھا جاتا ہے۔ان ممالک کے لوگوں کو سستے کپڑے مل جاتے ہیں جو نہ صرف ان کے کام آتے ہیں اور دیرپا ہوتے ہیں بلکہ انھیں فیشن ایبل بھی بناتے ہیں۔
سویڈن، ناروے، فن لینڈ جیسے ممالک میں گھر چھوڑنے کے وقت میونسپلٹی والوں سے کرائے کا ٹرک منگوا کر گھر کا سامان شہر سے باہر پھینکوانا پڑتا ہے لیکن کچھ پاکستانی یہ سامان مفت میں اٹھاکر لے جاتے ہیں۔ یہ کام زیادہ تر پٹھان کرتے ہیں اور وہ ایسا سامان کنٹینرز میں بھر کر سمندری راستے سے کراچی لے آتے ہیں جہاں آکر اس سامان کی چھانٹی ہوتی ہے اور پھر دوسرے شہروں میں یہ سامان چلا جاتا ہے۔ جاپان میں دکانیں چھوٹی ہوتی ہیں اور موسم بدلنے پر دکان دار اپنا سارا سامان فٹ پاتھ پر رکھ دیتے ہیں کیونکہ گودام میں سامان رکھنے کا کرایہ سامان کی قیمت سے بھی زیادہ ہوتا ہے اور پھر یہ سامان لد کر ہمارے ملک میں آجاتا ہے جسے ہم ’’لنڈا‘‘ کہتے ہیں۔
سویڈن، ناروے، فن لینڈ اور ڈنمارک میں بڑھتی طلاق کی شرح نے بھی لنڈے کی خوب رونق بڑھا دی ہے آپ کہیں گے کہ وہ کس طرح تو اس طرح کہ ان ممالک میں جب کوئی طلاق ہوتی ہے تو آدمی کو صرف دو کپڑوں میں بیوی کا گھر چھوڑنا ہوتا ہے ۔اور پھر بیوی گھر کا سارا سامان، لباس، کتابیں، کیمرے، کمپیوٹر وغیرہ بازار جاکر بیچ آتی ہے اور سامان بکے یا نہ بکے چار بجے کے بعد اسے بھی ا اس سامان کو وہیں چھوڑنا پڑتا ہے اور پھر یہ سامان ہمارے ملک کے لوگ جمع کرتے ہیں اور یہاں لاکر بیچتے ہیں۔
الطاف شیخ اپنے مضمون ’’لنڈا بازار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’فن لینڈ کے ایک ہوٹل میں میری ملاقات شام سے تعلق رکھنے والے عرب بیوپاریوں سے ہوئی وہ سکریپ گاڑیوں کے انجن خرید کر اپنے ملک میں بھیجنے کی غرض سے ٹھہرے ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ ’’اس کام میں صرف آپ کے پاکستانی ہی کامیاب ہوسکتے ہیں‘‘ وہ کیسے؟ میں نے پوچھا۔ انہوں نے کہا’’ اس لئے کہ پاکستانی لوگ سخت جان ہیں وہ انتہائی سرد موسم میں بھی گزارہ کرسکتے ہیں۔ ایک وقت کھاکر بھی گزارہ کرسکتے ہیں۔ فرش پر بھی لیٹ سکتے ہیں ہمیں ہوٹل میں رہنا پڑتا ہے ان ملکوں میں اس قدر مہنگائی ہے کہ فائدہ بالکل نہیں ہوسکتا۔ بڑی رقم اخراجات میں اٹھ جاتی ہے‘‘
ڈاکٹر بروکس کے انکشافات
برطانیہ کے ڈاکٹر اینڈریو بروکس نے اپنی کتاب’’ کلودنگ پاورٹی ‘‘(کپڑوں کی غربت) میں بہت سے انکشافات کیے ہیں۔ڈاکٹر اینڈریو بروکس کے بقول برطانیہ میں ’عام لوگوں کو لنڈے کے کپڑوں کی تجارت کی ایک جھلک اپنے علاقے کی بڑی سڑک پر واقع سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کی دکانوں پر دکھائی دیتی ہے۔ میرا خیال ہے عام طور پر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ اگر وہ بھی کوئی کپڑے خیرات میں دیں گے تو یہ ایسی ہی کسی دوسری خیراتی دکان (چیئرٹی شاپ) پر فروخت کیے جائیں گے۔’بہت سے کپڑے ایسی ہی دکانوں پر فروخت کر دیے جاتے ہیں لیکن ان دکانوں کی مانگ اْس مقدار کے مقابلے میں کم ہے جسے بیرونِ ملک برآمد کر دیا جاتا ہے۔‘ برطانیہ میں استعمال شدہ کپڑوں کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے یعنی وہ سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کی اس عالمی منڈی میں خرید و فروخت کیے جاتے ہیں جہاں ہر سال اربوں کی تعداد میں کپڑے بیچے اور خریدے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر بروکس کے بقول جو کپڑے دکانوں میں فروخت نہیں ہو پاتے وہ عموماً کپڑوں کے تاجروں کے ہاتھ فروخت کر دیے جاتے ہیں جو ان کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد ان کی درجہ بندی کرتے ہیں اور پھر یہ کپڑے فروخت کے لیے مختلف ممالک کو روانہ کر دیے جاتے ہیں۔دیگر چیزوں کی طرح استعمال شدہ کپڑے بھی بظاہر بے قیمت سی چیز دکھائی دیتے ہیں، لیکن درجہ بندی اور بیرونِ ملک روانگی کے ذریعے یہ بے وقعت سی شے تجارتی مال کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اسے قابلِ اعتماد مصنوعات کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے۔
استعمال شدہ کپڑوں کا اگلا سفر کیا ہو گا، اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ مغربی ممالک کے لوگ عطیے میں کیا دیتے ہیں کیونکہ مختلف قسم کے کپڑوں کی منزل بھی مختلف ہو سکتی ہے۔ مثلاً سفید رنگ کی شرٹیں عموماً پاکستان بھیجی جاتی ہیں جہاں ان کی بہت مانگ ہے، خاص طور پر وکلا میں جنھیں ہر روز سفید قمیص پہننا پڑتی ہے۔ گرم کوٹ عموماً مشرقی یورپ جاتے ہیں جبکہ آستینوں کے بغیر شرٹوں اور نیکروں کی منزل کوئی افریقی ملک ہوتا ہے۔مغربی ممالک سے جمع کیے ہوئے کپڑوں کی ایک بڑی تعداد ترقی پذیر ممالک کے بازاروں میں فروخت کی جاتی ہے۔ڈاکٹر بروکس کہتے ہیں کہ یہ بالکل غلط بات ہے کیونکہ مغربی ممالک سے کپڑوں کی برآمد اور اس کے ساتھ ساتھ مشرقی ایشیائی ممالک سے نئے اور سستے کپڑوں کی وافر درآمد سے کئی ممالک میں کپڑوں کی صنعت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ان کے بقول خاص طور پر افریقی ممالک کی کپڑے کی صنعت اس سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے جہاں فروخت ہونے والے کپڑوں کا ایک تہائی حصہ مغربی ممالک کے استعمال شدہ کپڑوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ڈاکٹر بروکس کی تحقیق کے مطابق 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں کینیا، ملاوی، موزمبیق، نائجیریا، روانڈا، سینیگال، سوازی لینڈ، تنزانیہ، زیمبیا اور زمبابوے میں برآمد شدہ پرانے کپڑوں کی فروخت میں بہت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یوگنڈا میں آج لوگ جو کپڑے خرید رہے ہیں ان کا 81 فیصد ایسے کپڑوں پر مشتمل ہے جو مغربی ممالک کے استعمال شدہ کپڑے ہیں۔اس حوالے سے بروکس گھانا کی مثال پیش کرتے ہیں جہاں کپڑے کی مقامی صنعتیں خاص طور پر مثاتر ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سنہ 1975 اور سنہ 2000 کے درمیان گھانا کی ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی صنعتوں میں روزگار میں 80 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اسی طرح نائجیریا میں کپڑا سازی کے صنعت سے منسلک دو لاکھ افراد مکمل بیروزگار ہو چکے ہیں۔لیکن جہاں تک خیراتی اداروں کا تعلق ہے تو ان کے لیے مغربی ممالک کے صارفین کے وہ استعمال شدہ کپڑے جو ان ممالک میں فروخت نہیں ہوتے، آمدن کا اہم ذریعہ ہیں۔
آج بھی پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں بہت سے لوگ استعمال شدہ اشیاء کے کاروبار اسی صنعت سے وابستہ ہے وہاں یہ غریب غربا کے لیے ایک بڑی غنیمت ہے۔ ہم اپنی زندگی میں بے شمار بار لنڈا بازار سے استفادہ کر چکے ہیں۔ لنڈا بازار سے بعض اوقات ایسی نادر اشیاء مل جاتی ہیں کہ صحیح حالت میں اسے خریدنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔اس بازار میں بکنے والا سامان پہلے بحری جہازوں کے ذریعے کراچی کی بندگاہوں تک پہنچتا ہے اور وہاں سے پھر یہاں کے ہول سیل ڈیلرز مال خرید کر لاتے ہیں اور پھر وہ یہاں کے مختلف بازار میں بکتا ہے۔لنڈے کے جو کپڑے ہم خریدتے ہیں وہ آج کل زیادہ تر کوریا اور جاپان سے آرہے ہیں اس کے علاوہ پچھلے ایک عشرے سے جو ہمارے ملک میں چائنہ کی وبا پھیلی ہے اس سے لنڈابازار بھی محفوظ نہیں رہ سکا اور اس وقت چائنہ کا مال بھی پرانے مال میں مکس کرکے بیچا جارہا ہے اور عوام اسے پہچاننے سے قاصر ہے۔ہمیں جابجا لنڈے کے کپڑوں کی ریڑھیاں نظر آتی ہیں یہ چلتا پھرتا لنڈا عموماً دکانوں والوں لنڈے سے قدرے سستا بھی ہوتا ہے اور کسی بھی جگہ نظر آجاتا ہے اور آپ بھی چلتے پھرتے یہاں سے خریداری کرسکتے ہیں۔لنڈا بازار جسے پشاور میں کباڑی بازار بھی کہا جاتا ہے دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ نائجیریا: ’کافا اولایا‘ (مرے ہوئے سفید فام لوگوں کے کپڑے)، اوکیریکا (اکڑوں ہو کر خریداری کرنے کی دکان) اور ’لندن والے کپڑے‘۔گھانا: ابرونی واوْو ( مرے ہوئے سفید فام کے کپڑے)۔زیمبیا: ’سلالْووا‘ (ڈھیر میں سے چننا)۔کانگو: ’سولا‘ (چْننا)۔زمبابوے: ’موپیزنامھو‘ (جہاں سب مسئلے حل ختم ہو جاتے ہیں)۔کینیا اور تنزانیہ: ’متومبا‘(گانٹھیں)۔
پہلے ایک سوچ تھی کہ لنڈے کی خریدی ہوئی چیز ہے تو سستی ہی ہوگی لیکن اب یہ خیال مدھم پڑ گیا ہے اور کسی خریدار کو پائیدار اور خوبصورت چیز خریدنی ہوتو پھر سستے کا تصور تو ناممکن ہے ہاں آپ کو عام بازار سے مختلف اور مضبوط چیز ضرور مل جائے گی لیکن یہ مہنگے لنڈے بازار میں ممکن ہے یہ مہنگا لنڈا بازار آپ کو خوبصورتی اور پائیداری کی ایسی چیزیں بھی بیچتا ہے جو مشہور برانڈڈ چیزوں سے کسی طرح بھی کم نہیں ہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ آپ کے بجٹ کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔ یہاں قیمتیں ہزاروں میں بھی ہوسکتی ہیں لیکن خریدار اگر دھیان سے بھاؤ تاوؤکرے تو وہ قدرے کم پیسوں میں اچھی خریداری کرسکتا ہے۔۔ جب آپ ان دکانوں میں جاتے ہیں، وہاں تہہ شدہ پڑی چیزیں خود ہی اٹھا کر الٹ پلٹ کر پھینکتے جاتے ہیں لیکن مجال ہے کہ یہ بھڑک اٹھیں یا کسی گاہک کو کوئی سخت بات کہیں۔ سب کچھ الٹ پلٹنے کے بعد اور کچھ نہ خریدنے کے باوجود دکان دار خندہ پیشانی سے گاہک سے چائے پانی کا پوچھ کر رخصت کرتے ہیں لیکن مشکل تب ہوتی ہے جب آپ دکاندار کو ظاہر کروا دیتے ہیں کہ آپ کو مطلوبہ چیز بہت پسند آگئی ہے او یہ آپ کی ضرورت بھی ہے تو وہ بھی پھر اپنی قیمت سے نیچے اترنے پر رضامندی ظاہر نہیں کرتا ہے کیونکہ آپ کی رضامندی جو اس پر ظاہرہوچکی ہوتی ہے تو پھرلنڈے جائیں خریداری کریں اس پہلے کہ مزید مہنگا ہوجائے اور معیاری خریداری کریں مگر خریداری میں ہوشیاری دکھاکر!
پاکستان میں آن لائن لنڈا بازار
پاکستان میں نئی اشیا کی آن لائن خریدوفروخت کا تصور نیا نہیں لیکن اب استعمال شدہ برانڈڈ اوریجنل آئٹمز مثلاً کپڑے، جوتے اور بیگز کی آن لائن خرید و فروخت شروع ہو گئی ہے۔ پاکستان میں ایسی اشیاء لنڈا آئٹمز کہلاتی ہیں۔ ملک کے متعدد شہروں میں لنڈا بازار موجود ہیں جہاں پر عموماً درمیانے طبقے کے لوگ خریداری کرنے جاتے ہیں۔ پاکستان میں استعمال شدہ مگر برانڈڈ اشیاء کی آن لائن خرید و فروخت کیلئے کراچی میں دو دوستوں نے خزانے پی کے کے نام سے کاروبار شروع کیا۔ انہوں نے کراچی میں استعمال شدہ اشیاء کی مارکیٹ لائٹ ہاؤس سے خریداری کا آغاز کیا۔ روزانہ 20سے 40 پارسل بھیجے جاتے ہیں جبکہ انہیں 5لاکھ روپے ماہانہ آمدن ہو رہی ہے۔دونوں دوستوں کا کہنا ہے کہ یہ تو ابھی آغاز ہے۔ لیکن ہم اس کا مستقبل تو نہیں بتا سکتے لیکن اس بارے میں پر امید ہیں۔ لنڈا بازار تو موجود ہے لیکن ہم اسے آن لائن فروغ دے رہے ہیں اورہمارے پاس معروف برانڈ کی اشیاء ایک یا دو ہی ہوتی ہیں اس لئے انہیں ہم پہلے آئیں، پہلے پائیں کی بنیاد پر فروخت کرتے ہیں۔