فیاض ندیم
انسان اپنی ضروریات کا غلام ہے۔ اس کی بہت سی ضروریات ہیں، جن میں سے چند ایک بہت ہی بنیادی نوعیت کی ہیں جیسے خوراک، صحت، ماحول، خاندان، معاشرہ وغیرہ۔ انسان اپنی جبلتوں کے ہاتھوں مجبور ان ضرویات کے سامنے دست بستہ رہتا ہے اور اپنے فیصلوں میں ان ضروریات کی وجہ سے کشمکش میں رہتا ہے۔ وہ کبھی بھی ایک آزاد اور مکمل آزاد نوع نہیں رہا۔ اُس کی سوچ، فکر، فیصلے، اظہار اور عمل کسی نہ کسی طرح بیرونی عوامل کے غلام رہے ہیں۔ اور یہی عوامل اس کی ضروریات کو معانی دیتے ہیں۔ اُن ضروریات کے خلاف مزاحمت یا ان ضروریات تک رسائی ان کی زندگی کے میعارات کی تشکیل بھی کرتی ہے۔
انہی ضروریات میں سے ایک ضرورت انسان کی شناخت ہے۔ انسان اپنی پیدائش سے لے کر موت تک اپنی شناخت کی فکر سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ اپنی شناخت کو زیادہ سے زیادہ باعزت بنانے یا اپنی شناخت کو زیادہ نمایاں کرنے کے جتن میں زندگی گذار دیتا ہے، یہاں تک کہ اپنی موت کے بعد بھی اپنی شناخت کی بقا کے جتن میں جتا رہتا ہے۔ شناخت انسان کو اعتماد دیتی ہے، معاشرے کا مفید فرد بننے میں مدد کرتی ہے۔ اسے اپنے حقوق و فرائض کا احساس دیتی ہے، اپنی ذمہ داریوں سے آگاہی اور اپنی اہمیت کا فخر دیتی ہے۔ اسے زندگی کا اعتبار اور جینے کا سلیقہ دیتی ہے۔
شناخت اپنے کئی پہلوؤں کے ساتھ انسان کے سامنے جلوہ گر ہوتی ہے۔ خاندان کی پہچان، سماجی پہچان، معاشرتی و سیاسی پہچان، اقتصادی و معاشی پہچان، مذہبی پہچان، دوستی اور دشمنی کی پہچان، تاریخ اور تہذیب کی پہچان، علاقے، وطن اور قومی پہچان۔ انسان اپنی شناخت کے ہر پہلو کو باوقار دیکھنا چاہتا ہے، اور اس کے لئے تگ و دو کرتاہے۔ اپنی شناخت پہ فخر کرتا ہے اور اُس کی حفاظت کے جتن کرتا ہے۔ اسی شناخت کی بقا کے لئے اپنی جان تک قربان کر دیتا ہے۔
انسان ایک سماجی جاندار ہے۔ تمام پہچانوں میں سے اپنے سماجی اور معاشرتی شناخت ہی اس کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ اور یہی اُس کے فخر کی بڑی علامت ہوتی ہے۔ کسی معاشرے کے سماجی گروہ اپنی انفرادی شناخت کی بقا اور سر بلندی کے لئے ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار رہتے ہیں۔ معاشرہ سماجی اکائیوں کی انفرادی شناخت سے تشکیل پاتا ہے اور سماجی اکائیاں معاشرے کے اندر ایک دوسرے کو تقویت بھی دیتی ہیں اور شناخت اور وقار کے معاملے میں میں باہمی کشمکش میں بھی رہتی ہیں۔ لیکن جب بات مجموعی سطح تک آتی ہے تو تمام سماجی اکائیاں ایک دوسرے کے ساتھ کندھے جوڑے ہر قربانی کے لئے تیار رہتی ہیں۔ لہٰذا معاشرتی شناخت سماجی ارتقاء اور اتحاد کا باعث بنتی ہے۔ لیکن اگر سماجی اکائیاں اپنے مابین اختلافات کی آگ دہکا لیں تو معاشرتی تخریب کا باعث بنتی ہیں اور معاشرتی تخریب سارے سماجی نظام کی تباہی پر منتج ہوتی ہے۔ اور ایسے معاشرے میں تہذیبی اقدار کا ارتقاء ناممکن ہوتا ہے۔ معاشرہ اپنی ٹوٹی پھوٹی شکل میں موجود تو رہتا ہے لیکن سماجی اکائیوں کے درمیان اعتماد نا ہونے کے باعث اس کی ترقی کا کوئی امکان موجود نہیں ہوتا۔ معاشرہ اندرونی خلفشار کا شکار ہو جاتا ہے، کھوکھلا ہوتا چلا جاتا ہے اور ترقی کا ہر پہلو زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ ایسے معاشرے کی شناخت اپنا وقار کھو دیتی ہے اور اس کے افراد اپنی عزت کے احساس سے محروم ہو جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کسی بھی معاشرتی نظام کے رہنما، دانشور، استاد اور بزرگ معاشرے میں سماجی ہم آہنگی کا درس دیتے نظر آتے ہیں اور معاشرتی اقدار کی ترویج و ترقی پر کام کرتے ہیں اور اپنی پوری توانائیاں اسی مقصد کے لئے صرف کر دیتے ہیں۔ وہ سماجی اکائیوں کے مشترکہ مفادات کی توسیع پر کام کرتے ہیں تاکہ سماجی اکائیوں کا ایک دوسرے پر زیادہ سے زیادہ انحصار رہے، وہ ایک دوسرے کے وفادار رہیں اور اور معاشرہ تخریب سے بچا رہے اور افراد کے درمیان اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم رہے۔ اس ساری کوشش کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرتی پہچان، سماجی شناخت پر غالب آجاتی ہے اور افراد سماجی شناخت کی بجائے معاشرتی شناخت کے زیادہ وفادار ہو جاتے ہیں اور اس کی بقا کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
معاشرے کی شناخت مخصوص طرزِ زندگی ، ثقافت، طرزِ فکر، رسوم و رواج، فنون، علاقائی اختصاص، مذاہب، ہم آہنگی اور اعلٰی اقدار سے ہوتی ہے۔ اور ہر معاشرہ اپنی انہی خصوصیات کی بقا کی جنگ لڑتا ہے۔ اسی سے معاشرتی و سیاسی سرحدیں جنم لیتی ہیں، قوموں کی تشکیل ہوتی ہے، معاشی مفادات میں اشتراک کو جنم ملتا ہے اور اوطان کی بنیاد پڑتی ہے۔ ہر وطن اپنا معاشرتی اختصاص بناتا ہے۔ اور اس کے باشندے اسی سے اپنی شناخت بناتے ہیں۔ اور پھر اس کے وفادار رہتے ہیں۔ اس کی عزت اور وقار میں اضافے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ یہی شناخت پوری دنیا میں اُن کی حیثیت اور عزت کی ضمانت دیتی ہے۔ اُن کی آزادی کا نشان ہوتی ہے، اُن کے اعتماد اور فخر کا باعث بنتی ہے۔ شناخت قوم، معاشرے، سماج اور فرد کی زندگی کا اتنا بڑا عامل ہے کہ اُس کی زیادہ تر توانائیاں اسی کی حفاظت میں صرف ہوتی ہیں۔ اور یہ ہر فرد کی جبلّی خصوصیت بن جاتی ہے۔ اس شناخت کے بغیر نہ تو انسان کو آزادی کا احساس ہوتا ہے اور نہ اس میں اعتماد رہتا ہے اور نہ اس کی کوشش کی کوئی منزل رہتی ہے۔ اس شناخت کی بقا کا نام ہی قومی آزادی ہے۔ غلام قوم یا معاشرے کیشناخت ہی سلب ہوتی ہے۔ جو اس کے افراد کے اعتماد کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔ لہٰذا انسان اپنی شناخت کی حفاظت کے لئے ساری عمر اپنی آزادی کی جنگ لڑتا رہتا ہے، انفرادی سطح پر بھی، اور اجتماعی قومی سطح پر بھی۔
اس دور میں جبکہ مختلف قوموں کی طرزِ زندگی، اقدار، معاشیات، سیاسیات اور انفرادیت گلوبلائزیشن کی زد پر ہے، شناخت کا مسئلہ مذید گھمبیر ہو گیا ہے۔ کیونکہ گلوبلائزیشن کا سب سے بڑا شکار ہی معاشرتی اور قومی شناخت ہے۔ اب آزادی اور غلامی کے تصورا ت ہی بدل گئے ہیں۔ اس زمانے میں کسی کو آپ کی شناخت مٹانے کے لئے آپ کی سرحدوں کے اندر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کی شناخت کا دشمن آپ کے ہر فرد کے دلوں تک اپنے گھر بیٹھے پہنچ سکتا ہے اور وہ اپنی اقدار اور طرزِ زندگی کی شناخت کر وا سکتا ہے۔ اپنے تصورات اور فکر کو آپ کے افراد تک منتقل کر سکتا ہے اور آپ کے لوگوں کو اپنا غلام بنا سکتا ہے۔ آپ کی شناخت کو کمزور کر سکتا ہے۔ اس پس منظر میں اب شناخت اور آزادی کی حفاظت کے تصورات بھی بدل گئے ہیں۔ شناخت کی اہمیت اپنی جگہ اٹل ہے، مگر اس کی حفاظت پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہو گئی ہے۔ اگر آپ کی شناخت غلط تصورات اور کھوکھلی اقدار پر قائم ہے تو اسے مٹانے میں یا کمزور کرنے میں دشمن کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی۔ لہٰذا اپنی شناخت کی بنیادوں کو مضبوط کرنا ضروری ہے اور ان بنیادوں کی سماجی سطح پر تعلیم کا بندوبست کرنا اور اقدار کے عملی پہلوؤں کی ترویج و ترقی ضروری ہے۔ ورنہ آزادی اور شناخت کھوکھلے نغموں ، چاند تارے کے کپڑوں اور ہاؤ ہو تک رہ جائے گی۔ لہٰذا ہمیں اپنی شناخت کی بقا اور آزادی کی حفاظت کے لئے مضبوط اقدار اور معاشرتی اختصاص کی بنیادوں پر توجہ دینا ہوگی۔