(فارینہ الماس )
وہ جب کمال صاحب کے گھر ملازمہ رکھی گئی تو محض آٹھ یا دس سال کی ایک معصوم بچی تھی ۔اس کے گھرانے کا تعلق پتوکی سے ملحقہ ایک معمولی سے دیہات سے تھا ۔اسے کام تو اس کے دیہات ہی سے تعلق رکھنے والی، لاہور شہر کے اس پوش علاقے کی ایک گھریلو ملازمہ دلشاد خالہ نے دلایا تھا لیکن اسے’’ باجی امبر ‘‘کی سپردگی میں دینے خود اس
کی ماں آئی تھی ۔ماں نے پہلے ہی پھیرے پہ باجی کو واضح کر دیا تھا کہ اب وہ تنخواہ کا حساب کتاب کرنے پہلی کے پہلی ہی آیا کرے گی ۔ ماں نے جاتے ہوئے اک بار بھی ڈری،سہمی،آنکھوں میں کئی انجانے خوف سمیٹے،اپنے بہن بھائیوں ،ماں باپ سے زبر دستی دور کر دی جانے والی اس کمسن لڑکی پر ایک اچٹتی نگاہ بھی نہ ڈالی تھی ۔ہاں دروازے پر جا کراس نے واپس گردن گھما ئی ،اور بڑے ہی غیر شائستہ لہجے میں چیختے ہوئے بولی۔’’بی بی جی آج سے کشور تمہاری ذمہ داری ہے اس سے جتنا چاہے کام لو،اور اگر کام نہ آئے تو جیسے مرضی سکھاؤ،سمجھاؤ۔تنگ کرے تو مار بھی لو اتنا حق تو تمہارا بنتا ہی ہے،ہاں تنخواہ پہلی کے پہلی ہی۔۔۔بار بار کے پھیروں کی سکت نہیں اس بوڑھی جان میں‘‘ پھر وہ پہلی کے پہلی آنے لگی ۔باجی اس کی ہتھیلی پر وعدے کے مطابق تنخواہ بھی دھر دیتی اور اپنے کچھ استعمال شدہ کپڑے،گھر کی کچھ ناکارہ اشیاء ،باورچی خانے کی کچھ کیڑا لگی دالیں اور بچے کھچے کھائے ہوئے سامان کے ڈبے بھی ۔ماں ان سب کو ایک بوسیدہ کپڑے کی گٹھڑی میں باندھ کر ہنسی خوشی سر پر لاد لیتی۔باجی اسے واپسی کا کرایہ بھی تھما دیتی تھی ۔ واپسی کے لئے مڑتے ہوئے اس نے کبھی بھی اپنی پیٹ کی جنی ،گوشت پوست کی بنی ،احساس کی گندھی بیٹی کی طرف التفات سے نہیں دیکھا۔نہ ہی کبھی جاتے ہوئے ، سینے سے بھینچ کر اسے اس کے ہونے کا احساس دلایا۔وہ تو کبھی اس کی تپتی سلگتی پیشانی پر ایک مروت کا بوسہ بھی نہ ثبت کرتی۔غریب کو کہاں آتی ہے ایسی پیار پچکار۔زندگی کے تپتے ریگزاروں پر ننگے پاؤں چلتے چلتے ،اس کے اندر تو محبت اور اپنائیت کا کوئی پھیکا سا رنگ بھی نہیں رہ جاتا ۔گھٹن اور مجبوری کی تلخی اس کی روح اور مزاج کو بھی تلخ بنادیتی ہے۔اب ’’باجی امبر‘‘ جانے اور کشور کے بھاگ۔۔۔۔وہ دن بھر چپ سادھے ہوئے ،ڈری سہمی ،اپنوں کی جدائی کا داغ سینے پہ لئے کسی پرچھائی کی طرح کام کاج میں جتی رہتی۔وہ ہر دم باجی کے حکم کی منتظر رہتی ۔کام میں معمولی سی بھی بے احتیاطی اسے کسی سزا کا شکار بنا سکتی تھی ۔ وہ بہت چاہتے ہوئے بھی ہر کام ٹھیک سے نہیں کر پا رہی تھی ،کیونکہ اسے یہاں جو اشیاء کام کے لئے استعمال کرنا تھیں اس نے تو زندگی بھر ان کا منہ بھی نہ دیکھا تھا۔قالین کا ویکیوم،استری،ٹوسٹر۔۔۔۔اس نے تو اپنی ماں کو صرف کھیتوں میں کام کرتے ،گھر پر جھاڑو پوچھا کرتے ،لکڑیوں کی آگ سلگا کر ہانڈی روٹی کرتے یا صحن میں سبھی بہن بھائیوں کے پوتڑے ہاتھوں سے رگڑ رگڑ کر دھوتے ہی دیکھا تھا ۔۔۔۔اسے کیا معلوم گیس کا چولھا کیسے جلایا جاتا ہے ،کپڑے دھونے کی مشین کیسے استعمال کی جاتی ہے یا قالین کو ویکیوم کیسے کیا جاتا ہے۔
ہاں وہ سیکھ لے گی جب باجی اسے چوٹی سے پکڑ کر ایسے گھمائے گی کہ اس کی جان ہی نکل جائے،جب باجی سزا کے طور پر دن بھر اسے روٹی نہیں دے گی،جب باجی اس کے نازک گال پر کڑاکے دار تھپڑ جڑے گی۔اگر وہ پھر بھی نہ سیکھے گی تو باجی سزا میں سختی کر دے گی۔کیونکہ وہ جانتی ہے کہ دیہات کی لڑکیاں سخت جان ہوا کرتی ہیں۔ان کے وجود کھردرے اور دل احساس سے خالی ہوتے ہیں۔انہیں جلدی رونا نہیں آتا کیونکہ اپنے ماں باپ کی مار کھا کھا کر وہ ڈھیٹ ہو جاتی ہیں۔وہ بھی ایسی ہی سخت جان تھی ،کہ زناٹے دار تھپڑوں سے خود باجی کے داہنے ہاتھ کے جوڑ ہل جاتے لیکن اس کم بخت کی آنکھوں میں تکلیف میں گندھی کسی سسکی کے وجود سے ٹپکنے والے پانی کا مدہم سا قطرہ بھی نمودار نہ ہوتا۔ امبر باجی کو لگنے لگا تھا جیسے یہ لڑکی گوشت پوست کی نہیں بلکہ پتھر کی بنی ہے ۔لیکن اپنے مطلب کے لئے اسے سدھارنا تو ضروری ہی تھا ۔تو اب اسے اس کے خالص دیہاتی طریقوں سے سزا دی جائے گی ،کیونکہ اب بات تھی اپنی انا کو بچانے کی۔انا کے سفر میں انسان بڑے بڑے مظالم ڈھالینے میں بھی قباحت محسوس نہیں کرتا اورظلم کا کوئی ایک حربہ تو ہے نہیں ۔انگنت حربے ہیں۔۔۔اور ہم انسان تو ان حربوں میں ازل سے ہی بے حد خودکفیل ہیں۔ہم اپنی محرومیوں اور کمتریوں کے آزار سہہ سہہ کے تھک جاتے ہیں تو اپنے سے کم تر اور کم زور کو نشانہ بنا کر اپنے احساس محرومی کی نکاسی چاہتے ہیں کیونکہ ہمارے لئے آسودہء جاں ہو نا کچھ ایسے ہی ٹھہرا ۔۔۔۔ ’’دیکھو اسے سدھارنا ہے تو زمانہء جہالت کی طرح اس کے وجود کو داغو ۔۔۔جیسے لوگ حضرت بلال حبشیؓ کو ان کی غلامی کے دور میں داغدار کیا کرتے تھے۔انہیں گرم ریت پر لیٹایا کرتے تھے۔تم بھی ایسا ہی کرو ۔۔اسے سخت تار کے بنے ہینگروں سے اذیت دو۔لکڑی یا لوہے کی سلاخ سے داغو۔ پھر بھی کام نہ بنے تو گرم استری اور چولھے سے کام چلاؤ ۔خیال رہے ان زخموں کی مرہم پٹی نہ ہو ۔وہ جب درد سے تڑپے اور بلبلائے گی تو تمہاری انا کو سکوں ملے گا ۔تمہاری خودسری اور دیدہ دلیری کی آبیاری ہوگی ۔رہی بات اس کی تو اس کے زخم اسے خود ہی سدھار دیں گے ۔اور اگر پھر بھی نہ سدھر پائے تو اپنی چار منزلہ عمارت سے نیچے دھکیل دو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔وہ ذیادہ سے ذیادہ مر جائے گی ۔مر جانے دو ۔دھرتی کا بوجھ نپٹ جائے گا ۔تمہیں ایک چھوڑ ہزاروں خادمائیں مل جائیں گی۔خادماؤں میں تو یہ ملک خود کفیل ہے جہاں 85لاکھ خادمائیں موجود ہیں اس کے باوجود کہ ان کا 35فیصد حصہ تشدد برداشت کررہا ہے جس میں اکثریت بچوں کی ہی ہے ۔ نہ تو ماؤں نے اپنے معصوم بچوں کو اس اذیت سے کبھی نکالا اور نہ ہی کبھی کوئی تشدد کرنے والا قانون کی گرفت میں آیا ۔پھر کاہے کا ڈر۔۔۔۔۔۔۔ کہانی طیبہ کی ہو ،کشور یا رضیہ کی اس کا متن تو ایک ہی ہے ۔۔۔گھریلو خدمتگار بچیاں ایسا ہی مقدر لے کر جنم لیتی ہیں۔ظلم کی یہ کہانی کوئی نئی کہانی تونہیں ۔ایسی توکئی کہانیاں ہیں شاید اس سے بھی کرب ناک اور روح فرسا۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ وہ تشہیر سے رہ جاتی ہیں ۔۔۔۔
ایک ایسی ہی بارہ،تیرہ سال کی بچی کی چند سال پرانی کہانی یاد ہے مجھے۔جس کا نام تھا ۔کومل جو کسی سرکاری ملازم ہی کے گھر گھریلو ملازمہ تھی ۔اس معصوم بچی کی معصومیت کو گھر کے مالک نے اپنی جنسی ہوس کے لئے نوچ ڈالا۔اوراس نے شاید ذیادہ مزاحمت بھی نہ کی ہو گی ۔۔۔۔۔۔مزاحمت ۔۔۔ان بچیوں میں مزاحمت کا عنصر تو ویسے ہی تلف کر دیا جاتا ہے ۔اس نے تو سوچا ہوگا شاید ایک لونڈی کی طرح مالک کی ہر حال میں خدمت گزاری کرنا ہی اس کا فرض ہے ۔پھر اس کی تنخواہ سے اس کے امی ابا کو اپنے آٹھ بچے بھی تو پالنا تھے ۔ماں کو تو خبر اس وقت ہوئی جب وہ حاملہ ہو گئی ۔وہ مالکن کے دروازے پہ بہت روئی پیٹی ۔۔۔بد دعائیں دینے لگی اور پھر۔۔۔۔پھر کیا ہوا ۔ پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوا کرتا ہے ۔۔مالکن کے ساتھ مل کر اس معصوم لڑکی کے رحم کے اس بوجھ کو گرا دیا گیا ۔اگر بات محض جسم کے گھاؤ کی ہوتی تو شاید وہ بھر جانے پر اسے قرار آجاتا ۔لیکن بات تو روح کے گھاؤ کی تھی جو اب ساری عمر بھر نا پائیں گے ۔۔ہاں بخشش میں مالکوں کی طرف سے اسے خوب بھاری جہیز بنا کر دے دیا گیا ۔چند ہی ماہ میں اس جہیز کا ایک لالچی اور بڑی عمر کا مرد بھی مل ہی گیا۔۔۔اور آپ جانتے ہیں پھر کیا ہوا۔۔۔۔۔
شاید ایسا کہ کسی کے وہم و گمان میں نہ ہو ۔۔۔۔اسی ماں نے اپنی دوسرے نمبر والی لڑکی بھی اسی باجی کے دست شفقت تلے دے دی۔۔۔۔وہ بہت خوش اور مطمئن تھی اس نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس کی بچیوں کے ایسے بھاگ کھل جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔