شیکسپیئر کی عشقیہ زندگی کے دو مخفی راز
از، ڈاکٹرستیہ پال آنند
شیکسپیئر شادی شدہ تھا۔ اس کی بیوی کا نام این ھیتھوے Anne Hathaway تھا اور سولہویں صدی کی آخری دہائی اور سترھویں صدی کی پہلی دہائی کے بیس برسوں میں تحریر کیے گئے اور گلوب تھیئٹر میں اسٹیج کئے گئے ڈراموں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے اس کے عہد میں کسی کو یہ خیال تک نہیں آ سکتا تھا کہ اس کی زندگی کا ایک مخفی پہلو بھی ہے۔جس شخص نے دو دہائیوں میں انتالیس (39)ڈرامے لکھے ہوں اور ہر ایک ڈرامے کی ری ہرسل اور اسٹیج پروڈکشن میں پیش پیش رہا ہو، جس نے ان ڈراموں کے علاوہ ایک سو پچپن ((155 سانیٹ لکھے ہوں، اور طویل نظموں کی تعداد اس کے علاوہ ہو، اس شخص کو انگریزی اصطلاح workaholic سے تو نوازا جا سکتا ہے ، لیکن عشق کے حوالے سے اس کے لیے کوئی لقب تجویز نہیں کیا جا سکتا۔ پھر بھی یہ بات آج کے طالبعلم کے لیے بعید از شعورو قیاس نہیں ہے کہ شیکسپیئر نے کم از کم دو باراس میدان میں بھی اپنی شہ سواری کے جوہر دکھائے۔ یہ حقائق اس عرق ریز تحقیق کے نتیجے کے طور پر سامنے آئے ہیں جو گذشتہ تین صدیوں میں انگلستان اور دیگر ممالک کی جامعات میں ، مختلف وقتوں میں، اسکالرز نے کی ہے۔
اس مختصر مضمون میں تفصیل سے تو نہیں لکھا جا سکتا کیونکہ حوالہ جات سب انگریزی کتب یا شیکسپیئر کی تحاریر سے ہوں گے اور اس مضمون کا اختصار اور اردو کی اپنی تنگ دامانی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ طویل انگریزی اقتباسات سے اس کے ظرف کو لبا لب بھر دیا جائے۔ تو بھی ضروری ہے، کہ دنیا کے سب سے بڑے شاعر اور ڈرامہ نگار کی ان دو محبوب شخصیتوں کا ذکر کیا جائے، جنہیں شیکسپیئر نے اپنا دل دے کر یہ فرض کر لیا تھا کہ یہ راز مخفی رہے گا۔ The dark lady of Shakespeare’s sonnets تو ضرب المثل ہے اور سب جانتے ہیں کہ مرزا غالب کی ’’ڈومنی ‘‘کی طرح شیکسپیئر کی بھی کوئی خاتون دوست ایسی تھی، جسے ’’ڈارک لیڈی‘‘ کہا گیا ہے۔لیکن دوسرا کون ہے، جس کا ذکر راقم الحروف اس مضمون میں کرنا چاہتا ہے؟ یہ امر باعثِ حیرت ہے کہ شیکسپیئر کے سانیٹوں میں واضح اشارے ملنے کے باوجود اس موضوع پر بہت کم کام کیا گیاہے۔ تو بھی یہ امر باعث مسرت ہے کہ آج بھی شیکسپیئر کے بارے میں زیرِ زمین مواد کھودنے میں اسکالرز لگے ہوئے ہیں۔
راقم الحروف جب گذشتہ صدی کی ستر کی دہائی کے پہلے برسوں میں برٹش اوپن یونیورسٹی، ملٹن کینز، انگلستان میں ریذیڈنٹ اسکالر کے طور پر کام کر رہا تھا تو ایک رفیقِ کار اسی موضوع پر اپنا تھیسس مکمل کر رہا تھا کہ وہ شخص جس کے نام شیکسپیئر نے اپنے پہلے ایک سو چھبیس 126سانیٹ معنون کیے ہیں اور جسے اس نے Fair Youthکا لقب دیا ہے، اس کا نام کیا ہے؟ دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر وہ مرد ہے تو کیا شیکسپیئر امرد پرستی یا لوطیت کا پیرو کار تھا ؟اس زمرے میں بہت کم مواد فراہم کیا جا سکتا ہے، بہر حال جو کچھ بھی شیکسپیئر کے بارے میں تنقیدی کتب میں موجود ہے، اس کو پیش کرنا ضروری ہے۔
I –Fair Youth
اس شخص کی شناخت کے مسئلے میں اور اس ضمن میں کہ شیکسپیئر کو آخر کیا ضرورت آ پڑی تھی کہ وہ اپنے ایک سو چھبیس سانیٹ ایک مرد دوست کے نام معنون کرتا، جن اسکالرز نے سب سے زیادہ کام کیا ہے ان میں یونیورسٹی اسکالرز کے علاوہ ’’استادوں کے استاد‘‘ آسکر وائلڈ‘‘Oscar Wilde بھی شامل ہے۔ آسکر وائلڈ نے ایک افسانہ بعنوان The Portrait of Mr. W. H لکھا جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ شیکسپیئر کے رومانی (جنسی؟) تعلقات ایک نوجوان اداکار سے تھے جس کا نام ولیم ہُفض William Houghs تھا۔ اس بات کے باوجود کہ ایک وضاحتی نوٹ میں آسکر وائلڈ نے اس بات کی تردید کی اس کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہے، اس نے اپنی کہانی میں ایسے ذو معنوی الفاظ، استعاروں اور انگشت شہادت کے ’اشاروں‘ کا استعمال کیا کہ پڑھنے والے کے لیے یہ باور کرنا دشوار نہیں تھا کہ مصنف شیکسپیئر یا اس کے محبوب لڑکے کا ذکر کس حوالے سے کر رہا ہے۔
شہر ہ آفاق مصنف سیموئل بٹلر Samuel Butler نے یہ خیال پیش کیا کہ شیکسپیئر کا محبوب نوجوان ایک ملاح تھا جو رات گذارنے کے لیے تھیئٹر کی گیلری (سستے ٹکٹ کا درجہ) میں بیٹھا رہتا تھا اور کئی بار وہیں سو جاتا تھا۔ ایک اور اسکالر جوزف پیقیگنوے Joseph Pequigney نے اپنی کتاب Such is my Fair Youth میں یہ ثابت کر نے کی کوشش کی کہ کچی عمر کا یہ نوجوان ایک Commoner یعنی نادار گھرانے کا فرد تھا جو واقعی شیکسپیئر کے عشق میں گرفتار تھا اور یہ عشق یک طرفہ نہیں تھا۔
کچھ اور اسکالروں نے اس نوجوان کی شناخت شیکسپیئر کے مالی سرپرست Henry Wriothessley, 3rd Earl of Southampton کے طور پر کی ہے،لیکن اس زمرے میں کچھ دیگر محققین نے شیکسپیئر کے آخری دور کے مالی اور سماجی سرپرست ولیم ہربرٹ، William Herbert, 3rd Earl of Pembroke کی شناخت کی ہے۔ قیاس غالب ہے کہ یہ تحقیق نہ صرف شیکسپیئر کے سانیٹوں میں مشمولہ اپنے محبوب نوجوان کی شکل و صورت، لباس، بولنے کے انداز، چال ڈھال اور دیگر شخصی اور ذاتی حوالوں پر انحصار رکھتی ہے ، بلکہ شیکسپیئر کی اس عبارت سے بھی براہ راست تعلق رکھتی ہے، جس کا استعمال اس نے سانیٹوں کے اوپر کیا۔ یہ عبارت اس طرح ہے۔
Mr. W. H., the only begttter of these ensuing sonnets”.
دونوں با اثر شخصیات میں اگر فرق ہے توان کے ناموں کے پہلے ہجوں کا ہے۔ ایک کانام H.W ہے تو دوسرے کا نام W.H. ہے۔ دونوں کم عمر (یعنی شیکسپیئر سے دس بارہ برس چھوٹے تھے) تھے اور دونوں حسین اور طرحدار نوجوان تھے۔
اب میں صرف ایک ایسے سانیٹ کو بجنسہ پیش کرنے کی جسارت کروں گا، جو کسی حد تک اس نوجوان کا اتہ پتہ دیتا ہے۔ شیکسپیئر کی کسی بھی نظم کا ترجمہ ایک مشکل امر ہے اس لیے اسے انگریزی میں ہی پیش کیا جا رہا ہے۔اس زمانے کی مروجہ یعنی شیکسپیئر کے الفاظ کے ہجے بھی نہیں بدلے گئے:
SONNET 30
Such is the course that nature’s kind hath wrought
That snakes have time to cast away their stings;
Gainst chained prisoners what need defence be sought?
The fierce lion will hurt no yelden things.
Why should such spite be nursed in thy thought,
Sith all these powers are pressed under thy wings,
And thou seest and reason thee hath taught
What mischief malice many ways it brings.
Consider eke that spite availeth naught;
Therefore this song thy fault to thee it sings;
Displease thee not, for saying thus me thought,
Nor hate thou him from whom no hate forth springs;
For furies that in hell be execrable,
For that they hate are made most miserable.
II – THE DARK LADY
واضح رہے کہ لفظ dark یہاں ’سیاہ‘ یا ’گندمی‘ رنگ کے ہونے کے طرف اشارہ نہیں ہے، تو بھی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ Blond یا Blondeیعنی سنہرے بالوں اور نیلی یا بلوریں آنکھوں والی ، اور Brunette یعنی سیاہ بالوں اور کالی یا براؤن آنکھوں والی خواتین میں سے شیکسپیئر کا اشارہ موخر الذکر کی طرف ہے۔ اس کے علاوہ سولھویں صدی میں ’ڈارک‘، پوشیدہ، رازدارانہ یا غیر فصیح کے معانی میں بھی استعمال کیا جاتا تھا، یعنی شیکسپیئر جیسا ماہر اس کی لفظ کی ذو معنوی جہت سے نا آشنا نہیں تھا۔
بہر حال محققین اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو صدیوں سے اپنی قبروں میں پڑے آسودگانِ خاک کو بھی معاف نہیں کرتا۔شیکسپیئر کی ڈارک لیڈی کے بارے میں بھی مختلف محققین نے مختلف خواتین کی طرف اشارے کیے ہیں۔ لوسی نیگر و Lucy Negro ، میری فِٹّن Mary Fitton, ، ایملیا لینیئر Emilia Lanier کے نام تو عموماً تجویز کیے ہی جاتے ہیں لیکن نصف درجن کے قریب دوسرے نام بھی ہیں جو شیکسپیئر کے وقتوں میں سماجی سطح پر اعلےٰ خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ تاریخی شعور رکھنے والے محققین اس بات پر متفق ہیں کہ having a lover یعنی ایک عاشق کو اپنے ساتھ مخفی طور پر اس طرح منسلک رکھنا کہ اس بات کا چرچا سوسائٹی میں عام بھی ہو تو بھی جزوی طور پر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اس سے اس خاتون کے شوہر کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ عموماً خطاب یافتہ خاندانوں کی خواتین خود جاگیروں کی مالک ہوتی تھیں اور کئی ایک تو اپنے خاوندوں سے بھی زیادہ سماجی حیثیت کی دعویٰ دار ہونے کا زعم رکھتی تھیں اور ایک (یا ایک سے زیادہ) lover اپنے ساتھ منسلک رکھنا فیشن سمجھا جاتا تھا۔
محققین نے ایک بات خصوصی طور پر نشان زد کی ہے۔ شیکسپیئر کے وہ سانیٹ جو اس کے مرد دوست کے نام ہیں ، سبھی افلاطونی عشق کا اظہاریہ ہیں۔ یعنی ایسے عشق کا جس میں جذبات و احساسات کی سطح پر جسمانی یا جنسی اظہار کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا، اور اس’’ آدرش وادی‘‘ جذبے سے کہیں بھی فرار نہیں ہے، جبکہ ’ڈارک لیڈی‘ کو معنون سانیٹوں میں تڑپ، پخت و پز، بے چینی، ہجر میں ذہنی اتھل پتھل کے شواہد موجود ہیں، اور جسمانی یا جنسی تعلق ایک رسم بعید نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اس سلسلے کا پہلا سانیٹ (یعنی سانیٹ نمبر 127) شروع میں ڈارک لیڈی کو ’بلیک‘ یعنی ’سیاہ‘کے صفاتی نام سے پکارتا ہے، لیکن فوراً بعد اس راہ پر گامزن ہو جاتا ہے، جس میں بناؤ سنگھار کے سامان، پاؤڈر، کریم ، مصنوعی بال، بھووں کی تراش وغیرہ کو لعن طعن کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ ڈارک لیڈی جیسی ہے، ویسی ہی خوبصورت ہے۔ گوری، سنہرے بالوں والی بلانڈ عورتوں سے موازنہ ایک بار پھر سانیٹ نمبر 147 میں ابھرتا ہے، جس میں شیکسپیئر کہتا ہے،
For I have sworn thee fair, and thought thee bright,
Who art as black as hell, as dark as night.
شیکسپیئر کے زمانے تک شاعر اپنی محبوبہ کی تعریف اسے ’’گورا چٹا، سنہرے بالوں والی، چمکیلی نیلی یا براؤن آنکھوں والی حسینہ ‘‘کہہ کر کیا کر تے تھے ۔ یہ ایسے ہی تھا کہ جیسے اردو شاعری میں سیاہ لمبی زلفوں، پتلی کمر، گورے گلابی گال، پتلے ہونٹ اور متناسب ناک اوردہن کو تعریف کے قابل سمجھا گیا ہے، ویسے ہی محبوبہ کی تعریف میں شیکسپیئر سے قبل اور اس کے معاصر ’بلانڈ‘ ہونے کو ہی’خوبصورت‘ ہونا تصور کرتے تھے۔ یہ روایت یونانی ادب سے چلتی ہوئی رومائے قدیم کے ادب اور پھر وہاں سے وسط اور جنوبی یورپ کی زبانوں کے ادب میں در آئی تھی۔ مثال کے طور پر پیٹرارک Petrarch کے وہ سانیٹ جو لاراؔ Laura کو معنون ہیں ، گورے، سنہرے رنگ کو فوقیت دیتے ہیں۔ بحیرہ روم کے یورپی کنارے پر بسے ہوئے لگ بھگ سبھی ملکوں میں یہ رواج رہا ہے، اور یہ شاید اس لیے ہے کہ اس نسبتاً چھوٹے سمندر کے جنوبی کنارے پر افریقہ کے ممالک ہیں، جن میں سیاہ رنگ کی قومیں بستی ہیں، کالا رنگ ہی نمایاں تھا، اور جہاں کہیں بھی خون میں آمیزش آئی ہے (جیسے اسپین میں)، یہ فرق زیادہ نمایاں ہو گیا ہے۔
ایک نقاد لکھتا ہے، ’’خدا جانے، اس زمانے میں Brunettes یا سیاہ بالوں اور نسبتاً کم چمکیلی اور گوری رنگت کی جلد والی عورتوں کو کیوں کمتر سمجھا جاتا تھا ، جب کہ آج کے زمانے میں گوری عورتیں خود کو براؤن رنگ کی جلد میں تبدیل کرنے کے سو بہانے ڈھونڈھتی ہیں اور ساحل سمندر پر دھوپ میں لیٹ لیٹ کر، لاکھوں ڈالر یا پاؤنڈ دواؤں پر صرف کر کے اپنے جسم کی جلد کو tan کرواتی ہیں۔‘‘
مارک ھیلو وے Mark Halloway نے شیکسپیئر کے متعدد ڈراموں میں سے حوالے دے کر یہ منطق پیش کی ہے، کہ ’’دوزخ کی طرح سیاہ‘‘ اور ’’رات کی طرح سانولی‘‘ لکھ کر شیکسپیئر نے عورت سے اختلاط کو ’’گناہِ اوّل‘‘ سے ہم کنار کیا ہے اور اپنی محبوبہ کو اس کے لیے اکسایا ہے۔ اپنے ڈرامے’’میک بیتھ‘‘ میں بھی شیکسپیئر نے یہی استعارہ پیش کیا ہے۔
Fair is foul and foul is fair / Hover through the fog and filthy air. (Macbeth. Act I.I.)
فی زمانہ فرائڈ اور یونگ Freud & Jung کی تعلیمات سے متاثر ہونے والے بے شک انسان کے ذو جہتی تشخص کی باتیں کریں اور اس بات پر اصرار کریں کہ ہمارے تحت الشعور میں کہیں وہ حیوان موجود ہے جو انسان کے تہذیبی ورثے سے بے بہرہ ہے اور مرد و زن کے مابین کسی اور رشتے کی ڈوری کو غیر اہم سمجھ کر صرف جنسی تعلقات کو ہی اس رشتے کی بیخ و بنیاد تسلیم کرتا ہے، لیکن شیکسپیئر نے ان ماہرینِ نفسیات سے تین صدیاں پیشتر اپنے سانیٹ نمبر134 میں اپنی محبوبہ ’ڈارک لیڈی‘ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ اس کے اندر دو شخصیات ہیں، ایک وہ جو نفسِ امّارہ سے آزاد ہے اور دوسری وہ جو سر تا پا حیوان ہے، اور یہ کہ وہ اپنی محبوبہ کو دونوں سطحوں پر باہمی تعلق میں منسلک دیکھتا ہے۔
So now I have confessed that he is thine
And I my self am mortgaged to thy will
Myself I’ll forfeit, so that other mine
Thou wilt restore to be my comfort still:
چودہ سطروں کے سانیٹ کی یہ پہلی چار سطریں ہیں۔ آخری مقفےٰ شعر سے پہلے کی آٹھ سطروں میں شیکسپیئر اپنی محبوبہ کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کی دونوں شخصیتیں اس کے (محبوبہ کے) سامنے حاضر ہیں، چہ آنکہ وہ خود اس تناظر میں اپنی دوسری (حیوانی!) شخصیت کو زیادہ اہم تسلیم کرتا ہے، تو بھی اپنے دونوں رخ اس کے سامنے پیش کر کے اسے خود ہی انتخاب کی اجازت دیتا ہے، کہ ان دو میں سے کوئی ایک وہ پسند کر لے۔ آخری شعر یہ ہے۔
Him have I lost; thou hast both him and me
He pays the whole, and yet am I not free.
یہی نقاد اس سطر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
“……It is worth noting how far Shakespeare has wrested the tradition of love sonnet from its sweet ideal of courtly and refined love to show how at times the actuality is rather more fleshly and distinctly of a darker and more savage colour.”
یہ امر قابلِ غور ہے کہ شیکسپیئر نے اس سانیٹ میں اس صنفِ سخن کو عشق کے اس روایتی خول سے باہر کھینچ لیا ہے جس میں مرد اورعورت کے مابین عشق کا مطلب مہذب، شائستہ اور شیریں تعلقِ خاطر تھا، اور اسے جسمانی سطح پر ، یعنی صریحاً ایک ’’سیاہ‘‘ اور ’’حیوانی‘‘ تعلق کی بنیادپر لا کھڑا کیا ہے۔
شیکسپیئر کے Fair Youth یا پھر Dark lady کا صحیح اتہ پتہ اس زمانے کی سوسائٹی کے حوالے سے نہ بھی معلوم ہو، تو بھی یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے، کہ دونوں شخصیات اس عظیم ڈرامہ نگار کے آس پاس کہیں موجود تھے اور چہ آنکہ ’’خوبصورت نوجوان‘‘ سے اس کا عشق جسمانی سطح پر نہیں تھا (کم از کم سانیٹوں میں اس کا کوئی حوالہ نہیں ملتا!) تو بھی ’’ڈارک لیڈی‘‘ یہ تعلق اس جاندار جسمانی سطح پر تھا جسے جنسی کہا جاتا ہے اور اس کے شواہد 127-152 تک کے سانیٹوں میں جا بجا ملتے ہیں۔