(زاہد نبی کے شعری مجموعے طاق میں رکھا ہوا دن پر لکھا گیا مضمون جو انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور کے خصوصی اجلاس میں پڑھا گیا)
میں کوئی پیشہ ور نقاد نہیں ہوں جو ایک ایک مصرعے کو مروجہ اصولوں کی کسوٹی پر پرکھوں گا، علامتوں، تشبیہات اور استعاروں کو معیار کے ترازو میں تولوں گا، پھر موضوعات کے آفاقی یا
غیر آفاقی ہونے یا نہ ہونے کی بحث چھیڑوں گا اور آخر میں صاحبِ کتاب کا ہاتھ تھام کر اسے شاعروں کی پہلی، دوسری یا تیسری صف میں لا کھڑا کروں گا۔ ایک حساس دل کے لطیف جذبات جب شاعری کے روپ میں سامنے آتے ہیں تو مجھے اس میں دھڑکتی ہوئی زندگی کی رمق صاف محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے میں کسی بے جان جسم کی طرح شاعری کا پوسٹ مارٹم نہیں کر سکتا لہٰذا صرف ان جذبات و احساسات کی نشاندہی پر اکتفا کروں گا جو اس شعری مجموعے میں جگہ جگہ اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔
ایک حساس دل اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی بے حسی، خود غرضی، منافقت اور ہوس کو شدت سے محسوس کرتا ہے۔ وہ آسائشوں کے حصول کے لیے جاری دوڑ کو دیکھ کر کڑھتا ہےجس میں بے قیمت خواہشوں کے اسیر اندھا دھند بھاگ رہے ہیں۔ جس کی نہ کوئی سمت ہے اور نہ کوئی منزل۔ ایک دوسرے کو کچلتے، روندتے ہوئے ہر قیمت پر آگے بڑھنے کی اس دوڑ میں انسانیت پامال ہو رہی ہے۔ منافع کا بڑھتا ہوا لالچ دنیا کا حلیہ بگاڑ رہا ہے۔ ایسی مایوس کن صورت حال میں گھرا ہوا مقصدیت سے عاری حساس دل یا تو ایک دن کڑھتے کڑھتے دھڑکنا بند کر دیتا ہے یا پھر اسی دوڑ کا حصہ بننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ حساس دل ایک شاعر، فنکار یا تخلیقکار ہے تو وہ خواب دیکھتا ہے۔ مختلف امکانات کے خواب، ایک مختلف دنیا کے خواب، جہان بسنے والے حقیقی معنوں میں اعلیٰ انسانی اقدار کے امین قرار پائیں گے۔ یہ خواب ایک شاعر اور تخلیقکار کو زندہ رکھتے ہیں اور یہ تخلیقکار مایوسیوں کے اندھیرے میں محصور حساس دلوں کو دھڑکنیں عطا کرتا ہے۔وہ اپنے خوابوں کو اپنی تخلیقات کی شکل میں سامنے لا کر انہیں امید دلاتا ہے کہ روشنی کے امکانات موجود ہیں، ڈٹے رہو یہ اندھیرے ایک نہ ایک دن ضرور شکست کھائیں گے۔ بس مجھے خواب دیکھنے کی مہلت مہیا کرتے رہنا میں تمہیں کبھی مایوس نہیں ہونے دوں گا۔
مجھ ایسے بہت سے کامیو جیسے لکھاریوں کے بہکاوے میں آکر ایک مدت تک خود کو آؤٹ سائیڈر سمجھتے رہے۔ زندگی کی بے مقصدیت کے قائل ہو کر اس دنیا کے ہر معاملے سے اظہار لاتعلقی کرتے رہے۔ یہ ہمارے اندر کا شاعر اور تخلیقکار ہی تھا جو اپنے خوابوں کے ذریعے ہمیں یقین دلاتا رہا کہ اصل اِن سائیڈر تم ہی ہو۔ آؤٹ سائیڈرز تو وہ لوگ ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کی
خاطر اس دنیا کی شکل مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ تم جو ایک بہتر دنیا کے خواب دیکھتے ہو، تم جو ایک خوبصورت زندگی کا تصور کر سکتے ہو تم ہی حقیقی اِن سائیڈر ہو۔ تو صاحبو! ایک فنکار کے لیے اس کے خواب کیا اہمیت رکھتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک شاعر کو ایک شعر کہہ کر، ایک کہانی کار کو ایک کہانی لکھ کر، ایک آرٹسٹ کو ایک پینٹنگ تخلیق کر کے یا ایک موسیقار کو ایک دھن ترتیب دے کر جو طمانیت محسوس ہوتی ہے وہ کسی کو دنیا بھر کی آسائشیں حاصل کر کے بھی نہیں مل سکتی۔
زاہد نبی اپنے ان خوابوں کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہے۔ اس لیے وہ اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں وہ اپنے اندر کے شاعر کو خواب دیکھنے کی مہلت مہیا کرتا رہے گا۔ وہ نو سے پانچ کی چکی میں پستے ہوئے بھی خواب دیکھتا ہے، وہ سماجی رشتوں کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے بھی خواب دیکھتا ہے اور وہ دوستوں کی محفل میں موجودگی کے دوران بھی خواب دیکھتا ہے۔ وہ کبھی کبھی جھنجھلا اٹھتا ہے جب اسے کوئی خواب ادھورا چھوڑ کر دفتر جانا پڑتا ہے، کبھی دفتر میں بے لطف اور لایعنی سا کام کرتے ہوئے کوئی قیمتی خواب ٹوٹ جانے پر وہ غمگین بھی ہو جاتا ہے۔چند اشعار ملاحظہ کیجیئے:
ذرا سا خواب باقی ہے تو کیا جھنجھوڑ دوں خود کو
نئی تعمیر کی خاطر میں پھر سے توڑ دوں خود کو
ہوائے شامِ افسردہ ترا دکھ میں سمجھتا ہوں
ترے رحم و کرم پر بھی کہاں تک چھوڑ دوں خود کو
آ گیا ہوں لوٹ کر دفتر سے گھر
خواب کا ملبہ اُٹھایا ہی نہیں
تعاقب میں نکل پڑتا ہوں زاہد
جہاں تک خواب جائے ، جا رہا ہوں
زاہد یہ خواب نیند کی حالت میں نہیں دیکھتا۔ یہ خواب پوری شعوری بیداری کے ساتھ دیکھے گئے خواب ہیں۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ آسائشوں کی دوڑ میں لگے لوگوں کے لیے ان خوابوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ کہتا ہے
جاگتا ہوں میں حفاظت کے لیے
آنکھ میں اک خواب سا بیدار ہے
خاص رعایت دے سکتی ہیں آنکھیں لیکن
خوابوں کی خیرات کہاں تک چل سکتی ہے
زاہد اپنی شعوری بیداری سے پوری طرح آگاہ ہے۔ اس کا اظہار وہ اپنی نظم میں جاگتا رہتا ہوں میں کچھ یوں کرتا ہے:
میں جاگتا رہا
وقت کسی اور گلی سے گذر گیا
بستر مجھے نیند سے زیادہ ملا ہے اور انتظار اس سے بھی زیادہ
کچی نیند میں پکے خواب کہاں ممکن ہیں
بدن ابھی خالی نہیں ہوا
مگر کمرہ روحوں سے بھر گیا ہے
زندہ لوگ خیال کے فریم میں مردہ دکھائی دیتے ہیں
اور میں جاگتا رہتا ہوں
لوگ میرے سونے سے سکھی ہو سکتے ہیں
اور میں ان کے جاگ اُٹھنے سے
اس شعوری بیداری کی کیفیت زاہد کی شاعری میں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہے
بظاہر تو بہت انجان رہتا ہے
مرا باطن میرا نگران رہتا ہے
میں اپنے شوق سے واقف تھا زاہد
یہ دریا میری نگرانی میں اترا
کچھ تو تری حقیقتوں سے آشنا بھی تھے
ہم لوگ صرف خواب نہیں دیکھتے رہے
اب تک اپنا آپ سنبھالے پھرتا ہوں
کوئی میرے ساتھ بکھرنے والا تھا
رات گئے ایک خواب نے مجھ کو گنگ کیا
میں خود سے دو باتیں کرنے والا تھا
زاہد کو سادگی اور آسانی سے اپنی بات کہنے کا ہنر آتا ہے۔ وہ بھاری بھر کم تراکیب کا سہارا لیتا ہے اور نہ ہی شاعری میں گھن گرج پیدا کرنے کے لیے چیختے چنگھاڑتے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ وہ شاعری میں ڈرامائی انداز اپنانے سے اجتناب برتتا ہے اور سادہ طریقے سے بڑی سہولت کے ساتھ اپنی بات کہہ گزرتا ہے:
چھوٹی سی اک اور ضرورت جاگی مجھ میں
ایک اضافی سکہ جب خیرات میں آیا
اپنے آپ سے خوفزدہ رہتا ہوں زاہد
میں کچھ بھی کر سکتا ہوں جذبات میں آیا
مرے بٹوے میں کچھ سانسیں بقایا ہیں
بس اتنی سی ہی مجھ کو زر سے نسبت ہے
آنکھ کیا دیکھ کر ہوئی رسوا
آئینے بے خبر بنائے گئے
یونہی لکھتے ہوئے خیال آیا
ہاتھ کیا سوچ کر بنائے گئے
زاہد نبی کی شاعری میں روایتی ہجر و وصال اور تنہائی کا وہ دکھ موجود نہیں ہے جو فقط ایک فرد کے مل جانے سے ختم ہو جاتا ہے۔ زاہد کا ہجر، دکھ اور تنہائی دائمی ہے یہ ان انسانوں سے وصل کی خواہش رکھتا ہے جو ابھی اس کے خوابوں سے نکل کر اس دھرتی پر آباد نہیں ہو سکے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ حالات کیسے ہی مایوس کن کیوں نہ ہوں زاہد نبی خواب دیکھنے سے باز نہیں آئے گا کیونکہ اس سماج کے ذہنوں اور دلوں میں جو فساد برپا ہے وہ کسی آپریشن ضرب عضب یا آپریشن ردالفساد سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس فساد کو صرف فنکاروں اور تخلیقکاروں کے خواب ہی ختم کر سکتے ہیں، لیکن نو سے پانچ کی چکی میں پستے ہوئے فنکار خواب دیکھنے کی عیاشی کے کس حد تک متحمل ہو سکتے ہیں۔ آپ کی لائبریریاں ویران ہیں، آپ کے ساز خاموش ہیں، آپ کے تھیٹر اجڑ چکے ہیں، آپ کی آرٹ گیلریاں بے رونق ہیں، آپ کی فلم دم توڑ چکی ہے، تو پھر یہ فساد کیسے ختم ہو سکتا ہے۔ اپنے فنکاروں کی خواب گاہیں آباد کریں، انہیں اپنے خواب مکمل کرنے دیں، سارا فساد خود بخود ختم ہو جائے گا۔ میں اس یقین کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ تاک میں رکھے ہوئے دن کی روشنی چاہے خورشید بن کر چار سُو چھائے اندھیرے ختم نہ بھی کر سکے لیکن یہ ایک درخشاں ستارے کی مانند تخلیقی سفر میں ہماری رہنمائی ضرور کرے گی۔
تبصرہ و تجزیہ کتاب افسانوی مجموعہ اضطراب از افشاں ملک، بھارت روما رضوی، تبصرہ کار کسی فلسفی کا کہنا ہے کہ ”اگر انسان اپنی نسیان کی طاقت سے کام نہ لے تو ماضی کے محرکات […]
پاکستانی معاشرے کے کرب کا دستاویزی بیانیہ تبصرۂِ کتاب از، غلام حسین ساجد “ڈئیوس علی اور دِیا” نعیم بیگ کا پہلا اردو ناول ہے (افسوس میں ڈاکٹر احسن فاروقی کے تتّبع میں”پہلی اردو ناول” لکھنے […]
(منیر احمد فردوس) کتابوں کے سلسلے میں میرا مسئلہ بہت پیچیدہ رہا ہے۔ پہلی سطر سے کتاب جب تک میری انگلی تھام کر مجھے اپنے ساتھ نہ لے جائے تب تک نہ میں کتاب کے […]