اصغر بشیر
عقیدت اور نفرت رویے میں ایک ہی طرح کی تبدیلی سے پھوٹتے ہیں جو اپنی شدید ترین حالت میں انتہا پسندی کہلاتی ہے۔ رویے کی یہ تبدیلی اگر معاشرہ میں اجتماعی سطح پر پروان چڑھنے لگے تو پورا معاشرہ انتہا پسندی کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور انتہا پسندی ایک نارمل کیفیت کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ انتہاپسندی نفرت اور عقیدت دونوں صورتوں میں واقع ہو سکتی ہے اور یہ دونوں صورتوں میں کسی نہ کسی کے لیے دہشت و موت کا سامان ضرور مہیا کرتی ہے۔ اس انتہا کی ایک صورت میں دنیا جہان کے قوانین ہاتھ میں لے لیے جاتے ہیں تو دوسری طرف دنیا جہان کے قوانین کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا جاتا ہے۔ اسی اصول کو اگر وطن عزیز کی موجودہ حالت پر منطبق کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مخصوص مذہبی گروہ مسلمانوں کو ان کا تابناک ماضی یاد کروا کر اور مستند حوالوں کی احادیث پیش کر کے عوام کی اکثریت کے اکثریتی افعال کو عین اسلامی قرار دینے کی پر جوش کوشش کر رہاہے تا کہ اپنے گمشدہ اسٹیکس واپس لے کر مضبوط اسٹیک ہولڈر پوزیشن اختیار کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں کن اقدامات کی بنیاد پر معاشرہ صحت مند روایات کےساتھ پنپ سکتا ہے؟
نظامِ تعلیم کسی بھی معاشرے میں نئے خون کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔ آج جس انداز کی تربیت کی جائے گی، کل اسی کا پھل کھایا جائے گا۔ ہم نے سوویت افغان جنگ میں امریکی فائدے کے لیے معاشرے میں انتہا پسندی کوسرائیت کرنے دیا۔ آج ملک کی اکثریتی جوان عوام ان افراد پر مشتمل ہے جنہوں نے اپنے سکول کے دنوں میں جماعت الدعوۃ اور دوسری جہادی تنظیموں کے اعلانات سنے تھے کہ اگر سچے مسلمان کی طرح ہم گرمیوں کی چھٹیوں کو کسی مصرف میں لانا چاہتے ہیں تو اس کا سب سے بہترین مصرف جہادی کیمپ میں شمولیت اختیار کر کے جہادی ٹریننگ لینا ہے۔ والدین بھی بچوں کو خوشی خوشی گلی ڈنڈے، بینٹے، اخروٹ، وانجو ، کبڈی اور اس جیسے دوسرے بے ضرر کھیلوں سے بچانے کے لیے ان کو دین کی راہ میں بھیج دیتے تھے۔ آج انہی اثرات کے زیر اثر پلنے والے بچے ہمارے ملک وقوم کو باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں ان سے انتہا پسندی اور انتہا پسندانہ اقدامات کی تائید کی عین توقع کی جاسکتی ہے تو پھر ضرب ِ عضب کے معنی کیا ہیں؟ اور اس کی اہمیت کیا رہ جاتی ہے؟ اس وقت اگر ہمارے اربابِ اختیار ہماری آنے والی نسلوں کو انتہا پسندی سے پاک معاشرہ سوچنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنے نظام تعلیم میں فری انکوائری کو بنیادی اہمیت دیں کیونکہ اسی سے مکالمے کی راہ ہموار ہوگی۔
فری انکوائری سے مراد یہ ہے کہ ہر انسان کو سوال پوچھنے کی اجازت ہو۔ اگر ہم اسلامی فلاحی معاشرے کا قیام چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد کو برابر معیار دیا جائے۔ارسطو تعلیم یافتہ ذہن اس کو سمجھتا ہے کہ جو کسی مظہر کو سچ مانتے ہوئے بھی اس کی حقانیت کے متعلقہ دونوں اطراف کے دلائل کو سن اور سمجھ سکے۔ اس تعریف کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ ذہن اس قابل ہوتا ہے کہ کسی عقیدہ نہ مانتے ہوئے بھی اس کو دماغ میں جگہ دے سکتا ہے۔ یہی وہ اصول ہے جس کی بنیاد پر آج کا معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ ایک مذہب کا سچا پیروکار دراصل اپنے مذہب کو دل و دماغ کی گہرائیوں سے سچا مان کراسے قبول کرتا ہے اور اس کے احکامات پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ دنیا کے چھے بڑے مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد یہ ہے:
عیسائیت 2 ارب 10 کروڑ
اسلام 1ارب 50 کروڑ
ہندو مت 90 کروڑ
بدھ مت 37کروڑ 60 لاکھ
سکھ مت 2 کروڑ 30لاکھ
یہودیت ایک کروڑ 40 لاکھ
اگر ہر مذہب میں سے ایک فیصدی لوگ انتہا پسندی کو اپناتے ہوئے دوسرے مذاہب اور دوسرے مسالک پر اپنے احکامات لاگو کرنا شروع کردیں یا اپنے نظریات دوسروں پر ٹھونسنا شروع کردیں تو ہم کسی صورت دنیا میں امن کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔ امن کا خواب دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ فری انکوائری اور وسیع مطالعہ کو فروغ دیا جائے۔
لیکن ہم وسیع مطالعہ اور فری انکوائری کے حوالے سے کس مقام پر کھڑے ہیں اس کا بہترین جواب گیلپ پاکستان کا گیلانی ریسرچ فاونڈیشن کے تعاون سے 2012 ء میں کیا گیا سروے ہے جس کے مطابق 85% پاکستانیوں نے کبھی لائبریری کا منہ نہیں دیکھا ۔ یہی نہیں لائبریری جانے والوں میں سےبھی 25% لوگ اپنے ذاتی کام سے لائبریری گئے باقی میں سے 40 % پڑھنے کے لیے، 22% معلومات کے حصول کے لیے، 11 % اخبارات پڑھنے کے لیے جبکہ آخری ایک فیصد نے کوئی اور وجہ بتائی۔
یقیناًایسے معاشرے کے 85% عوام کے کسی عمل کو ایک صحت مند متوازن سوچ رکھنے والے معاشرے کے اجتماعی فعل کے طور لینےکے لیےچند تحفظات ضروری ہیں۔ ہمیں اپنی زندگی میں ایک دفعہ اپنی ہمدردیوں کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ یہی ہمارا ورلڈ ویو اور مستقبل طے کرتی ہیں۔