عورت اور صنفی تفریق: ارتقائی تناظر میں

عورت اور صنفی تفریق : ارتقائی تناظر میں

از، عمیر ملک

عورت اور مرد میں صنف کی بنیاد پہ تفریق قدیم ترین انسانی معاشرے کی جڑ ہے۔ معاشرے کی بنیاد دونوں اجناس کے سوسائٹی میں رول ڈیفائن کرنے سے ہی شروع ہوئی یا یوں کہہ لیں کہ معاشرے میں دونوں کے الگ الگ رول ہی اس انسانی سوسائٹی کی بنیاد بنے۔ جس میں مادہ بچوں کی پیدائش کی وجہ سے، عارضی طور پہ ہی سہی لیکن شکار کرنے یا اپنی حفاظت کرنے کے قابل نہیں تھی۔ نر اپنی قوت بازو کے باعث شکار کیلئے باہر نکل سکتا تھا اور یوں جینڈر رولGender Role قدرت نے ڈیفائن کر دیے۔ مادہ پہ کسی بھی نوع کی بقا کا انحصارہوتا ہے اسلئے اسے خطرے میں ڈالنا نا مناسب تھا سو اس کے لئے گھر منتخب ہوا۔ حیاتیات کی رُو سے نر محض زندگی کی بقا میں استعمال ہونے والا ایک آلہ ہے، لہٰذا اسے خطرے میں ڈالنا اور باہر کی دنیا کے سپرد کرنا قابل فہم تھا۔
جب تک انسان قدرت کے خلاف اپنی بقا کی جنگ میں مصروف رہا، تب تک معاشرے میں موجود یہ کردار پختہ ہوتے گئے اور ان کے سوا انسان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ اصل مسائل اس وقت شروع ہوئے جب بقا کی یہ جنگ قدرتی ماحول میں درندوں کے خلاف لڑنے سے ختم ہوکر جدید انسانی معاشرے میں دیگر اشرف المخلوقات کے خلاف لڑنے پہ موقوف ہوگئی۔ یہ معاشرے پروان چڑھنے لگے، کام مشکل ہوتے گئے تو “باہر ” کے کام اس کے حصے میں آئے جو اس کے لئے شروع سے تیار ہو رہا تھا یعنی مرد اور “چار دیواری” عورت کے حصے میں آئی جو اس کے لئے حیاتیاتی طور پہ (biologically)اہم اور موزوں ترین تھی۔ مرد چونکہ انسانی نسل کی بقا کی جنگ میں عورت سے کم اہم تھا، اس لئے جنگوں میں شامل ہوا اور مر گیا جبکہ عورت گھر پہ رہی تاکہ اولاد کو محفوظ رکھے اور اس کی پرورش کر سکے۔ جنگ چونکہ سیاست کی مرہون منت ہے اس لئے اس میدان میں بھی مرد کا پلڑا بھاری ہوتا گیا۔ قرون اولیٰ میں تجارت “خالہ جی کا گھر” نہیں تھا، اس کے لئے مہینوں سفر کرنا پڑتا تھا اور راہوں میں خطرات حائل تھے اس لئے یہ بھی مرد کے حصے میں آ گیا۔
موجودہ تفریق اس وقت شروع ہوئی جب خطرے کم ہونا شروع ہوئے اور انسان شہروں میں امن سے رہنا شروع ہوا۔ جن معاشروں میں لوگ اب بھی قدرت سے بقا کی جنگ لڑتے ہیں، وہاں مرد و عورت کا کردار ہمارے جدید معاشروں سے کافی مختلف ہوتا ہے۔ عورت وہاں اب بھی نسل کی بقا و نشونما کی وجہ سے نا صرف مقدم ہے بلکہ کئی افریقی معاشروں اور جنوبی امریکہ کے جنگلات میں بسنے والوں کیلئے اب بھی معاشرے کا مرکز تصور کی جاتی ہے۔
جوں جوں انسانی معاشرے نے ترقی کی، سوسائٹی کے یہ جینڈر رولز حیاتیاتی بنیاد کھوتے چلے گئے۔ قلعہ بند ہونے کی وجہ سے گھر کی حفاظت آسان ہوگئی، بازاروں اور تجارت نے کھانے کی تلاش کو کم کر دیا۔ بادشاہ، رعایا اور ریاست جیسے تصورات نے جنگ اور جنگجوؤں کو زیادہ اہم بنا دیا۔ ادویات اور بیماریوں کی روک تھام نے عورت کو انسانی بقا کے لئے کم اہم کر دیا۔ پہلے اگر 12 بچوں میں سے دو ہی جوانی تک پہنچتے تھے تو اب سب کے سب بیماریوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس طرح کے معاشرے میں جب عورت کے حصے میں گھر میں بھی کرنے کو کچھ زیادہ نہ بچا تو اس نے دیگر شوق پالنا شروع کئے۔ طرح طرح کے ملبوسات اور آرائش و زیبائش نے اسے مصروفیت کا سامان دے دیا۔ یورپی معاشرے جو بہت پہلے اس بقا کی جنگ سے آزاد ہو گئے تھے، ان میں عورت کیلئے صرف کپڑا اور زیبائش ہی بچ گئی۔ کئی کئی تہوں والے لباس، پنجرہ نما فراکیں، نقاب، چھتریاں، بٹوے، کمربند، وغیرہ، اس کے کردار کو گھر تک محدود کرتے گئے۔ 18ویں صدی کے بعد زیادہ تر معاشروں نے “تہذیب یافتہ” ہونے کی دوڑ میں انہی یورپی معاشروں کے طرز زندگی کو اپنایا۔ عورت کو ’فیئر سکن‘ کہا جانے لگا، یعنی اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی جلد کو صاف و شفاف رکھے اور گھر میں مصروفیات تلاش کرے۔ عورت کا معاشرتی کردار اسکے حیاتیاتی کردار کے بالکل برعکس بنتا چلا گیا۔ جو معاشرہ جتنا پہلے اس ترقی کی زد میں آیا، وہاں اتنا پہلے ہی عورت کا کردار محدود سے محدود ہوتا گیا اور مرکز سے ہٹ کر کونے میں چلا گیا۔ شاید یہی وہ وقت ہو گا جب “عورت” ہونا مرد کے لئے گالی بن گیا۔