فوجی عدالتیں پھر سے توسیع حاصل کرنے کی جانب کی جانب گامزن ہیں۔ مرکزی و صوبائی سیاسی حکومتوں پر صد افسوس۔
دہشت گردی کی زیادہ شدید لہر پچھلے عشرے، ڈیڑھ عشرے سے جاری رہی ہے۔ دشمن واضح ذہن رکھتا تھا، لیکن ہمارے معاشرے اور اداروں میں کئی طرح کی تقسیمیں اور افتراق رہے ہیں۔ پہلے تو کئی برس تک ہمارا پورا نظام سیاست و حکومت اور معاشرت اسے ادق بنا دیئے گئے مسئلے کا حل ہی ڈھونڈھتا رہا کہ دہشت گردی کے خلاف ریاستی مزاحمت جائز بھی ہے، یا یہ کسی دور دراز کے ملک کی کرائے کی جنگ ہے۔ ہم دماغی شش پنج میں رہے، معاشرے اور تہذیب کے دشمن اپنی انسان و تہذیب کشی پر بغیر کسی ذہنی ابہام کے لگے رہے۔
کیا یاد کریں اور کیا دہرائیں کہ کون کون سے آج کے محب وطن اور پکے مسلمان ہمارے وطن عزیز کے دشمنوں کو مفت کے مشورے دیا کرتے تھے۔ ہماری مسلح افواج کے جوانوں اور افسروں کے بارے میں ملکی روحانی مقدر کی خود ساختہ محافظ جماعت کے باریش بزرگ نے کیا جگر پاش کردینے والے فرمانوں کے صور نہیں پھونکے۔ بہت سی باتیں جمع ہو سکتی ہیں، اپنا دل ہی جلانا ہے نا۔ کس کو یاد نہیں۔
پھر انسانیت اور تہذیب کے بیری پشاور کے اسکول پر اپنی روزمرہ عادت کی حرکت کرتے ہیں تو معاشرے کے جنگجوؤں کے سامنے شترمرغ کی نظرکی حامل ایک اچھی خاصی تعداد میں موجود نام نہاد اعتدال پسند، اور کچھ آٹے میں نمک کے برابر روشن خیال اور ترقی پسند افراد سب کو اپنے آپ کو کھینچ کھانچ کر ایک پیج پر لانا پڑا۔
پشاور اسکول کے شہداء کے سانحہ عظیم کے حادثاتی عنوان کے پاکستانی معاشرہ و ریاستی اداروں کے ایک پیج پر ہونے سے دہشت گردوں کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں بیس نکات کا پیمان باندھا گیا۔ اس نیشنل ایکشن پلان کو دیکھئے تو یہ ایک سانحہ عظیم کے ردعمل کے طور پر سامنے آیا، یعنی ہماری قوم عمومی حالات و سوچ میں اس فیصلے تک نا پہنچ پائی۔ کس قدر قومی بےحسی کی آئینہ دار حقیقت ہے!
سانحاتی کیفیتیں انتہائی بھیانک ہیجانی ذیلیات بھی اپنے ساتھ ساتھ لے آتی ہیں۔ پشاور اسکول کے سانحے نے اب اس قدر اخلاقی طور پر بلیک میلنگ کی صورتحال پیدا کردی کہ عقل و خرد اور موزوں مسقبل بینی کی ہر سنجیدہ تجویز کی چڑیا کو خصوصی حالات کی توپ سے نشانہ کیا جانے لگا۔ آئین وطن جو کسی ملک و قوم کے جسم کے لئے ریڑھ کی ہڈی اور روح کا بیک وقت درجہ رکھتا ہے، اس سے متصادم آئینی ترمیمیں منظور کروائی گئیں۔ حالانکہ دہشت گردی اس 16 دسمبر 2014 کو پہلی بار نہیں ہوئی تھی، مطلب یہ کہ اس کی ریاستی سطح پر مزاحمت کے لئے کسی طوفان کا انتظار نہیں کرنا چاہئے تھا۔
نیشنل ایکشن پلان کو آل پارٹیز کانفرنس کے بطن سے اور معصوم بچوں کے خون سے نچوڑ نکالا گیا۔ عدالتی نظام کے بستر میں ایک اور آئین و قانون کی مروجہ روح سے اجنبی عدالتی نظام بھی گھسا دیا گیا۔ اول اول اس نظام کی دو سال کی مدت طے ہوئی اور ساتھ ہی نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات کے عین قدموں میں، یعنی بیسویں نکتے کے طور پر کہا گیا کہ ملک کے عمومی فوجداری عدالتی نظام انصاف و ضابطہ کار میں اس دوران کے وقفے میں ایسی تبدیلیاں اور ترمیمیں فراہم کی جائیں گی کہ وہ فوجی عدالتوں کے عارضی نظام کا متبادل بننے کے قابل ہو چکا ہوگا۔
لیکن افسوس، ضابطہ فوجداری یا کریمینل پروسیجرکوڈ میں جو کہ دستور پاکستان کی concurrent list کے عنوان کی ذیل میں آتا ہے، یعنی اس پر وفاقی اکائیاں اور وفاق پاکستان سب قانون سازی کرنے کے مجاز ہیں؛ پر اس پر کسی قسم کی اصلاح و ترمیم نا تو جمہوریت و سویلین بالادستی کی ثناء خواں مرکزی حکومت کو ہوسکی اور نا ہی کسی صوبائی حکومت کو! دو سال گزر گئے۔ اب پھر بلدیاتی ذہنیت کی حامل مرکزی اور صوبائی حکومتیں اپنی سیاسی پگڑی کو نہیں سنبھال پائیں۔ پچھلے کئی ہفتوں سے ایک دوسرے کو فوجی عدالتوں کی مدت میں اضافے کے لئے جتنی محنت صرف کی جارہی ہے شاید ضابطہ فوجداری کو وقت کے تقاضوں کے مطابق کرنے میں اس قدر ذہنی تناؤ کا شکار نا ہونا پڑتا۔ لیکن کیا کریں ہماری حکومتوں اور اداروں کو تو لگتا ہے ملکی کی آئینی تعمیر سے کوئی سروکار نہیں۔ اگر کوئی فکر دامن گیر ہے تو صرف یہ کہ کتنے ٹھیکے لینے دینے کا نظام کسی کے ہاتھ میں ہے اور اسے یقینی بنانا کہ کوئی جواب داری تو کسی سے نہیں کررہا۔
عمومی عدالتی نظام کسی ریاست کے بنیادی عناصر ثلاثہ کا ایک اہم ستون ہوتا ہے، اس کے ساتھ اس طرح کی بیگانگی برت کے آپ کون سی اور کس کی خدمت کررہے ہیں۔ اس طرح کا سیاسی غیر ذمہ دارانہ رویہ نا تو ملک عزیز کے لئے موزوں ہے اور نا ہی ملکی سیاست کے پیشہ ور سیاستدانوں کے مستقبل کے لئے۔ خدارا اس ملک کو اپنا گھر سمجھنا شروع کر دیں۔
بہت عمدگی سے ایک روزن نے اپنا نکتہ نظر پیش ہے …صورت احوال ایسی ہے کہ باوجودکہ ہم کسی قیمت پر سیاسی قیادت کو نہیں لتاڑنا چاہتے لیکن اب کیا کیجئے ….بہرحال قیادت تو انہی کے پاس ہے …قانون کی سر بلندی کو ، بشمول عدالتی نظام کے کرتا دھرتا ادارے ، کوئی سرخ روی نہیں چاہتے … نیکٹا کے اہداف کا حصول سب اداروں کی ذمہ داری ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ سول انتظامیہ اور سول بیورو کریسی خاص طور پر اسے ممکنہ حدود کے اندر کامیاب نہیں دیکھنا چاہتی ….
اس کی واضح مثال حالیہ افسروں کی پروموشن میں بندر بانٹ ہے ….
جہاں سول بیورو کریسی اپنے ذاتی مفادات سے پرے کچھ نہیں دیکھتی ….لہذا اس آپا دھاپی میں نیکٹا چہ معنی دارد ۔۔۔۔۔۔