فکشن، حقیقت اور تازہ جنگی جنون

ایک روزن لکھاری
سید کاشف رضا

(سید کاشف رضا)

ادب اور خاص طور پر فکشن کے ایک قاری کی حیثیت سے جب میں حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے نمایاں کرداروں کو دیکھتا ہوں تو وہ مجھے ولیم گولڈنگ کے ناول ’لارڈ آف دی pic-2-lord-of-the-fliesفلائیز‘ کے نٹ کھٹ لڑکے نظر آتے ہیں۔اس ناول میں ایک جہاز ایک جزیرے میں کریش لینڈنگ کرتا ہے جس میں اسکولوں کے بچے موت سے بچ جاتے ہیں۔ ان میں سے تین تگڑے بچے باقی بچوں کی قیادت سنبھالتے ہیں۔ ان تین میں سے رالف زیادہ تگڑا ہے۔ بچوں میں سب سے سمجھ دار بچہ ایک موٹا سا عینکو ’پگی‘ ہے جس کی شکل و شباہت کسی ہیرو جیسی نہیں اس لیے بچوں کی جمہوریہ میں اسے قائد منتخب کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پگی کے سمجھانے بجھانے کے باوجود تگڑے بچوں کی بے اعتدالیاں جاری رہتی ہیں اور بچوں کی جمہوریہ کا کام تمام ہو جاتا ہے۔
اگر آپ نے یہ ناول پڑھا ہے تو آپ کو نریندر مودی اور اس کی سرکار، کچھ حاضر اور ریٹائرڈ جنرل صاحبان اور چیختے چنگھاڑتے کچھ اینکر ایسے ہی نٹ کھٹ بچے نظر آئیں گے جن کے ہاتھوں میں پونے دو ارب انسانوں کی تقدیر ہے۔ ہمارے امن پسند فن کار، دانش ور اور صحافی ایسے میں اپنی آواز کو گولڈنگ کے ’پگی‘ کی آواز کی طرح نحیف و نزار پاتے ہیں۔
جنگی جنون کے ایسے دنوں میں اگر آپ پاکستان یا بھارت میں فیس بک استعمال کرتے ہیں تو حب الوطنی کی ایک زبردست لہر آپ کو اپنے اپنے ملک کی حمایت میں رطب اللسان ہونے پر مجبور کر دے گی۔کیا ایسے میں ہم معاملات کو غیر جانب دارانہ نقطہ ء نظر سے دیکھ سکتے ہیں؟ شاید ادب کا مطالعہ ہمیں معاملات کو بہت سے زاویوں سے دیکھنے کے قابل بناتا ہے اور دوسرے یہ کہ مظلوم کی حمایت پر بھی آمادہ کرتا ہے۔( اردو میں بڑے حروفِ تہجی (بلاک لیٹرز) استعمال ہوتے تو میں پچھلے جملے کے لفظ ’’شاید‘‘ کو انھی میں تحریر کرتا )
لیکن معاملات جن لوگوں کے ہاتھ میں ہیں وہ شاید ادب کا مطالعہ نہیں کرتے۔ وہ تو ان فلموں

William-Golding
William-Golding

کے بھی خلاف ہیں جن میں دوسرے ملک کا کوئی شہری کام کر رہا ہو۔ ولیم گولڈنگ کے ناول میں سمجھ دار ’پگی‘ کے ہاتھ میں ایک ’شنکھ‘ ہے جس سے وہ دوسرے بچوں کو پکار کر جمع کرنے کا کام لیتے ہیں۔ ہمارے نٹ کھٹ بچوں کے جنگی کھیل میں یہ شنکھ ارنب گوسوامیوں اور لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے والے مولویوں اور جن سنگھیوں کے ہاتھ میں ہے۔
بھارتی میڈیا کے غالب حصے کا اصرار ہے کہ پاکستان بھارت کے اندر دہشت گرد بھیجتا ہے۔ اس نے بھارت کے کہنے پر بھی حافظ سعید اور دیگر ملزمان کو شرافت سے پکڑ کر بھارت کے حوالے نہیں کیا اس لیے پاکستان کو جانے والے سارے دریاؤں کا پانی بند کر دیا جائے، اسے دنیا بھر میں تنہا کر دیا جائے، اس کی سرحدوں کے اندر کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کے تحت کارروائی کی جائے، جیسے اسرائیل لبنان میں کارروائیاں کرتا ہے اسی طرح مریدکے پر ٹارگٹڈ کارروائی کی جائے اور پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے۔ لیکن یہ بات بھارت کے بزرج مہر بھی جانتے ہیں کہ یہ سب کر بھی لیا جائے تو بھارتی دائیں بازو کے احساسِ تفاخر کی تو تسکین ہو جائے گی لیکن پاک بھارت تعلقات کا بنیادی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری میں بنیادی مسئلہ کشمیر کا ہے، جس کا تصفیہ کرنے میں دونوں ملک اب تک کامیاب نہیں ہو سکے۔ پاکستانیوں کی غالب تعداد یہ سمجھتی ہے کہ اگر بھارت مسئلہ کشمیر حل کرنے پر آمادہ نہیں ہے تو ہم اس کی راہ کے کانٹے چننے میں مدد کیوں دیں۔ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت ایک منطقی بات ہے جس کی مخالفت نہیں کی جا سکتی، لیکن کسی دوسرے ملک میں مداخلت کرنا یا ایسا کرنے والے غیر ریاستی عناصر کو قانون کے کٹہرے تک نہ پہنچانا سراسر غلط ہے۔ ممبئی اور پٹھان کوٹ کے واقعات میں اگر پاکستان کے شہری ملوث ہیں تو انھیں سزا دی جانی چاہیے یا کم از کم انھیں نیوٹرلائز کر دینا چاہیے۔ پاکستان اور بھارت کے حالیہ تعلقات کے تناظر میں ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔بچوں کی جمہوریہ میں جہاں فیصلہ کرنے کا اختیار تگڑوں اور دلوں کو گرما دینے والے بھاشن دینے والوں کے ہاتھ میں ہو، وہاں امن کی بات کرنے کا فائدہ تو کوئی نہیں، پھر بھی بات کہہ لینے میں کیا ہرج ہے۔
ولیم گولڈنگ کا ناول فکشن ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ حقیقت فکشن سے زیادہ حیرت انگیز ہوتی ہے۔ گولڈنگ کے ناول کے بعد میں آپ کو ایک حیرت انگیز واقعہ سناتا ہوں جو حقیقی بھی ہے اور تازہ صورتِ حال سے اس کا موازنہ بھی بنتا ہے، لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کسی کو یہ موازنہ یاد ہی نہیں۔ بہرحال اس واقعے کے ساتھ تاریخیں درج کر دی گئی ہیں تاکہ آپ گوگل سرچ پر خود اس کی تصدیق کر سکیں۔

Funeral-of-General-Noor-Ali-Shushtr
Funeral-of-General-Noor-Ali-Shushtr

یہ واقعہ ہے اٹھارہ اکتوبر سن دو ہزار نو کا جب ایرانی حدود کے اندر جنداللہ کے ایک خودکش حملے میں بیالیس ایرانی جاں بحق ہو گئے تھے۔ ان بیالیس ایرانیوں میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے چھ افسران بھی مارے گئے تھے۔ ان چھ افسران میں پاسدارانِ انقلاب کی زمینی افواج کے ڈپٹی کمانڈر جنرل نور علی شوستری بھی شامل تھے۔
اس حملے کے بعد کیا ہوا، وہ میں آپ کو بعد میں بتاتا ہوں۔ پہلے آپ سے پوچھ لوں کہ آپ میں سے کتنوں کو یہ واقعہ یاد بھی ہے؟۔ ظاہر ہے کہ ہم میں سے بہت سے اس سے آگاہ نہیں ہیں۔ ایران نے کہا کہ اس واقعے کا مرکزی کردار جنداللہ کا کمانڈر عبدالمالک ریگی پاکستان میں

Abdul-Malik-Regi.
Abdul-Malik-Regi.

ہے۔ ایران نے اس واقعے پر میڈیا وار چھیڑنے سے گریز کیا اور ظاہر ہے کہ اس کے پاس ارنب گوسوامی جیسا کوئی جینئس کڈ بھی موجود نہیں تھا۔ پاکستان نے بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا کیونکہ پاکستانی میڈیا کے عقابوں نے حکومت سے یہ نہیں کہا تھا کہ ایران نے ملزم کو پاکستان میں بتا کر پاکستان کے وقار پر حملہ کر دیا ہے۔ نتیجہ کیا نکلا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ حملے کے چار ہی ماہ بعد تئیس فروری دو ہزار دس کو ایرانی جیٹ طیاروں نے خلیج فارس میں پرواز کرنے والے ایک طیارے کو روک کر بندر عباس پر اتروا لیا۔ اس طیارے میں ریگی بھی سوار تھا۔ اس پر مقدمہ چلا اور بیس جون دو ہزار دس کو اسے پھانسی دے دی گئی۔ اس کی گرفتاری کے بعد ایران میں پاکستان کے سفیر ایم بی عباسی نے تہران میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ریگی کی گرفتاری میں پاکستان نے ایران کی مدد کی تھی۔ جب کہ الجزیرہ نے اس سے آگے بڑھ کر یہ دعویٰ کیا کہ ریگی کو پاکستان نے خود ایران کے حوالے کیا تھا۔
اب اس واقعے کا موازنہ پٹھان کوٹ اور اڑی کے فوجی اڈوں پر حملوں سے کر لیجیے۔ فوجیوں کی ہلاکت کی تعداد کے حوالے سے ایران والا واقعہ پٹھان کوٹ اور اڑی دونوں واقعات سے بڑا تھا۔ اس سے بھی بڑی بات یہ تھی کہ ایران میں ہونے والے حملے میں ایرانی فوج کا ڈپٹی کمانڈر مارا گیا تھا۔ ذرا سوچیے کہ اگر بھارت میں ہونے والے کسی حملے میں بھارتی فوج کا اس سطح کا بڑا افسر مارا جائے تو بھارتی سیاست دانوں اور میڈیا کا پاگل پن کیا رنگ دکھائے گا۔ ارنب گوسوامی تو شاید اپنے کپڑے پھاڑ کر ٹی وی اسکرین سے باہر نکل آئے گا۔
اس مثال سے میں یہ واضح کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ممبئی، پٹھان کوٹ اور اڑی جیسے معاملات پر بات چیت بہت نزاکت کی متقاضی ہے اور اس کے لیے خفیہ سفارت کاری کا طریقہ ہی استعمال کرنا چاہیے۔ یہ خفیہ سفارت کاری ماضی میں بھی ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے نام سے ہو چکی ہے، اگرچہ جب اسے عوام کے سامنے لانے کا وقت آیا تو بھارت متعدد بہانے بنا کر اس سے بھی پیچھے ہٹ گیا۔
میں نے آپ کو ایک کہانی فکشن کی دنیا سے سنائی اور ایک کہانی حقیقت کی دنیا سے۔ برصغیر کی صورتِ حال اعتدال پر کیسے آئے گی؟ اس کا حل نکالنے کی ذمہ داری فی الحال کچھ نٹ کھٹ بچوں کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارے ہاتھ میں صرف یہ ہے کہ حقیقت کو فکشن سے اور فکشن کو حقیقت سے ملا کر دیکھتے رہیں تاکہ صورتِ حال کو سمجھنے سمجھانے کے لیے مکالمہ جاری رکھا جا سکے۔ اتنے میں شاید کچھ نٹ کھٹ بچے بالغ بھی ہو جائیں۔ انہونی بھی تو فکشن اور حقیقت کی مشترکہ میراث ہے۔ ہے کہ نہیں؟

About سیّد کاشف رضا 27 Articles
سید کاشف رضا شاعر، ادیب، ناول نگار اور مترجم ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’محبت کا محلِ وقوع‘، اور ’ممنوع موسموں کی کتاب‘ کے نام سے اشاعتی ادارے ’شہر زاد‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہو چکے ہیں۔ نوم چومسکی کے تراجم پر مشتمل ان کی دو کتابیں ’دہشت گردی کی ثقافت‘، اور ’گیارہ ستمبر‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان پر محمد حنیف کی انگریزی کتاب کے اردو ترجمے میں بھی شریک رہے ہیں جو ’غائبستان میں بلوچ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سید کاشف رضا نے شاعری کے علاوہ سفری نان فکشن، مضامین اور کالم بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کے سفری نان فکشن کا مجموعہ ’دیدم استنبول ‘ کے نام سے زیرِ ترتیب ہے۔ وہ بورخیس کی کہانیوں اور میلان کنڈیرا کے ناول ’دی جوک‘ کے ترجمے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا ناول 'چار درویش اور ایک کچھوا' کئی قاریانہ اور ناقدانہ سطحوں پر تحسین سمیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ محمد حنیف کے ناول کا اردو ترجمہ، 'پھٹتے آموں کا ایک کیس' بھی شائع ہو چکا ہے۔

1 Comment

  1. اس ناول میں سے سائمن نام کا وہ عام خاص کردار ذہن سے چپک کے رہ گیا تھا بلکہ ہو گا آج تک۔ اس وقت تو لگتا تھا یہ میں ہوں۔

Comments are closed.