فیصلہ سازی ، اخلاقیات ، اور فلسفہ
از، اصغر بشیر
فرض کیا کہ ایک آدمی کار چلا رہا ہے۔ اچانک اس کے بریک فیل ہو جاتے ہیں ۔سامنے پانچ مزدور سڑک کی مرمت کر رہے ہیں۔ کار اگر اسی طرح دوڑتی رہی تو ان پانچوں کو کچل کر مار دے گی یا دوسری صورت میں کار ڈرائیور گاڑی کا سٹیئرنگ موڑ کر سڑک کے دوسرے کنارے پر موجود اکیلے مزدور کو کچل دے۔ آپ کے خیال میں ایسی صورت میں ڈرائیور کو کیا کرنا چاہیے؟ اس کے لیے ایک مزدور کو کچلنا ٹھیک ہوگا یا پانچ مزدوروں کو؟ آپ یقیناً اکثریتی عوام کا فیصلہ دیں گے کہ ایک مزدور کی طرف گاڑی کا سٹیئرنگ موڑ دینا چاہیے۔
اسی طرح کا ایک دوسرا سوال ہے ۔ پہلی مثال والی کار اسی رفتا ر کے ساتھ آرہی ہے۔ اب ڈرائیور کے سامنے سٹیئرنگ موڑنے کی گنجائش نہیں ہے۔ سڑک کے اوپر فلائی اوور سے آپ یہ سب دیکھ رہے ہیں۔ آپ کے ساتھ ہی ایک موٹا بوڑھا آدمی فلائی اوورکے اوپر سے جھکا ہوا ہے۔ اگر آپ اسے تھوڑا سا دھکا دیں گے تو موٹا بوڑھا آدمی گاڑی کے سامنے گرے گا اور گاڑی موٹے آدمی کی لاش سے ٹکرا کر رک جائے گی۔ یوں پانچ مزدور موت سے بچ جائیں گے۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے یا تو پانچ مزدوروں کو مرنے دیں یا پھرایک موٹے آدمی کو مار کر ان پانچ آدمیوں کی جان بچا لیں۔ کیا آپ موٹے بوڑھے آدمی کو فلائی اوور سے دھکا دے کر پانچ مزدوروں کی جان بچا لیں گے؟ یقیناً آپ اکثریتی عوام کا فیصلہ دیتے ہوئے موٹے آدمی کو نیچے نہیں دھکا دیں گے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ہم لوگوں نے پہلی مثال میں ایک آدمی کو مارنے والا فیصلہ درست تسلیم کیا ، لیکن جب ہم خود اس کا حصہ بن گئے تو ہم لوگوں نے ایک آدمی کو مار کر پانچ آدمیو ں کی جان بچانے والا فارمولا رد کردیا؟یہ اخلاقیات کے دو معیار ہماری زندگی میں کیوں ہیں؟ ہماری اخلاقیات ایک مقام پر درست ہے تو دوسرے مقام پر ہمیں اسی سے اختلاف کیوں کرنا پڑتا ہے؟ اخلاقیات کا ایسا کونسا نظام ہے جو زندگی کے ہر پہلو اور ہر صورت میں ہمارے لیے قابلِ قبول ہوگا؟ فلسفہ ایسے ہی سوالات کے جواب دینے کی کوشش کرتا ہے۔
لیکن فلسفے کا مطالعہ کسی صورت بھی خطرات سے خالی نہیں ہے کیونکہ فلسفہ ہمارے سامنے پہلے سے معلوم شدہ معلومات کو پیش کرتا ہے اور اس کے اندر سے ایسے سوالات اخذ کرتا ہے جو سیدھے سادھے معاملاتِ زندگی اور حقائق کو مختلف رخ دے دیتا ہے۔
جیسا کہ اوپر دی گئی مثالوں میں پیش کیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں فلسفہ حقائق کو نیا نقطہ نظر دے کر ان کو ہمارے لیے اجنبی بناتا ہے۔ اس سلسلہ میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک حقیقت کو جب مختلف نقطہ نظر سے دیکھ لیا جائے اس کو پھر کبھی پچھلی کیفیت میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ یعنی ہم کسی سوچ کو کبھی unthought یا unlearn نہیں کرسکتے۔ فلسفہ کا مغز یہ ہے کہ یہ انسان کی کہانی ہے۔ ہم اس کا حصہ ہیں جب تک ہم ہیں ہماری کہانی چلتی رہے گی ۔ ہمارے لیے اپنی کہانی کا حصہ بننا اس لیے ضروری ہے کہ ہم ان سوالوں کے جوابات کو اپنی زندگی میں جیتے ہیں۔ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں ان سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے ہونگے۔ہمیں علت کے سبب حاصل ہونے والی بے چینی کو محسوس کرنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔
انسانی شعور کے آغاز سے لے کر آج تک ہم فلسفہ کے تحت اپنے فیصلوں کو دلیل کی کسوٹی پر پرکھتے رہے ہیں۔ سقراط سے لے کر اکیسویں صدی کے فلاسفہ تک ایک مسلسل زنجیر کی صورت دلائل اپنی مختلف حالتوں میں موجود رہے ہیں لیکن کسی سے مطلق جواب نہ بن پایا۔ آج ہم فیس بک کی دیوار پر اپنے آپ کو کل علم کا وارث قرار دیتے ہوئے حقیقت ِ مطلق سے آشنائی کا دعوی کریں تو یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے؟