قومی بیانیہ : خدوخال کیا ہوں گے؟
(اورنگ زیب نیازی)
آخر کار چند سنجیدہ دانش وروں کی کوشش رنگ لائی اور قومی؍متبادل بیانیہ کی بحث ویب گاہوں اور کتابوں کے صفحات سے نکل کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچی۔ بر سبیلِ تذکرہ نشان خاطر رہے کہ ہمارے ہاں حقیقی دانش وروں کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔جن لوگوں کو ہم دانش وری کا مقدس ٹائٹل تفویض کرتے ہیں،ان میں سے بیش تر سیاست اور تاریخ کی وسیع معلومات رکھنے والے صحافی،اینکرز اور کالم نگار ہیں،ان میں سے کچھ صاحب الرائے بھی ہو سکتے ہیں لیکن ان کی رائے بھی ان کے مفادات،نظریات اور تعصبات کے تابع نظرآتی ہے جب کہ حقیقی دانش ور کا منصب ہر طرح کے مفادات،نظریات اور تعصبات سے بالا ہوکر حقائق کا معروضی تجزیہ کرنا ہے۔
گزشتہ دنوں جامعہ نعیمیہ لاہور میں(یقینا)ایسے ہی کسی صاحب الرائے مشیر کی لکھی ہوئی تقریر پڑھتے ہوئے جناب وزیر اعظم نے متبادل قومی بیانیے کی خواہش کا اظہار کیا۔اگر بیانیہ کی اصطلاح اپنے تمام تر مضمرات اور معانی و مفاہیم کے ساتھ ان کے ذہن میں واضح ہوتی تو اس کے اظہار کے لیے وہ کسی اور پلیٹ فارم کا اظہار کرتے۔بہر حال دیر آید درست آید۔مگر اس ایک نکتے کے ساتھ سوالات کا ایک لا متناہی سلسلہ جڑا ہوا ہے۔ایک سوال کا جواب کئی اور سوالات کو جنم دیتا ہے،گویا ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسے جاتے ہیں۔فہم قاصر ہے کہ کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں۔ایک سرا ہاتھ آتا ہے تو دوسرا نکل جاتا ہے،ایک ڈور سلجھتی ہے تو دوسری الجھ جاتی ہے۔تاہم بنیادی سوال یہ ہے کہ اس بیانیے کے خدو خال کیا ہوں گے؟اور اسے تشکیل کون دے گا؟کیا یہ بیانیہ مذہبی طاقتیں تشکیل دیں گی؟ کہ جناب وزیر اعظم نے ایک مذہبی ادارے میں کھڑے ہو کر اس خواہش کا اظہار کیا ہے جس میں اس مذہبی ادارے سے مطالبہ بھی شامل تھا اور تعاون کی اپیل بھی۔
لیکن کون سی مذہبی طاقتییں؟کہ وطنِ عزیز میں ایک سے زاید مذہبی قوتیں بر سرِ پیکار ہیں جو آج تک کسی ایک نکتے پر متفق نہیں ہو سکیں۔یہاں تک کہ بہ ظاہرمعتدل نظریات اور صلح کل کا پرچار کرنے والے مذہبی گروہ بھی مخصوص اوقات میں متشدد رویے اختیار کر لیتے ہیں تو کیا یہ مذہبی گروہ کسی مخالف گروہ کے تشکیل دیے گئے بیانیے کو قبول کر سکیں گے یا کسی ایک نکتے پر متفق ہو سکیں گے؟اقلیتوں کو اس دھارے میں کس طرح اور کس حد تک شامل کیا جائے گا؟جب کہ ملکی معاملات میں اثر رسوخ اور عمل دخل رکھنے والی بعض مذہبی جماعتیں انھیں یک سر بے دخل کرنے پر تلی رہتی ہیں۔
اخبارات،الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر غالب ، لبرل اور روشن خیال طبقے کی خواہشات کا احترام کس حد تک ممکن ہو گا؟ اگر پاکستان کو ایک روشن خیال ملک کے طور پر متعارف کرانا مقصود ہے تو اس روشن خیالی کی حدود کیا ہوں گی؟یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ پاکستان ایک کثیرالثقافتی ملک ہے۔کسی ایک ثقافتی اکائی پر اتفاق ممکن ہو سکتا ہے۔ثقافت کل ہے اور مذہب اس کا لازمی عنصر لیکن ایک جزو۔لیکن پاکستان کی ستانوے فی صد آبادی مسلمان ہے جو اپنی مذہبی شناخت پر اصرار کرتی ہے ایسے میں ثقافت اور مذہب کا تناسب کیا ہوگا؟کیا مذہب اور ثقافت کی فوقیتی ترتیب کو اُلٹ دیا جائے گا؟اگر ایسا ہو گا تو یہ محض ایک مذہبی بیانیہ ہو گا۔ایک مذہبی بیانیہ پہلے سے موجود ہے۔تفریق کب تک اور کیسے ممکن رہے گی؟
یہ ایک بدیہی حقیت ہے کہ پاکستان میں آج تک ریاستی سطح پر کوئی مستقل قومی بیانیہ متشکل ہو ہی نہیں سکا۔وقتاََ فوقتاََ واحد معنی کے حامل جو لولے لنگڑے عارضی بیانیے تشکیل دیے گئے ان کی بنیاد بھی نظریہء ضرورت رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ما بعد حالات میں ان کی وجہ سے قومی مفادات ٹھیس پہنچتی رہی ہے۔اب کی بار ہمارے وزیر اعظم نے خواہش کا اظہار کیا ہے تو ان کی خواہش کا احترام ضروری ہے مگر ایک سوال یہاں بھی سر اُٹھاتا ہے کہ ان کی یہ خواہش موٹر وے اور میٹرو بس کی طرح پایہ ء تکمیل کو پہنچے گی یا گاؤں گوٹھوں میں ایئر پورٹ اور بلٹ ٹرین کی طرح محض وعدہء فردا ثابت ہو گی؟
تیرے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا