قومی بیانیے کی تبدیلی کا آغاز
از، قاسم یعقوب
قومی بیانیہ سے مُراد قوم کا اجتماعی طرزِ اظہار ہوتا ہے جو اُن کے رویوں، فکروں اور قومی معاملات کی پالیسیوں سے نظر آتا ہے۔ یہ قوم کا ورلڈ ویو ہوتاہے جس میں قوم اپنی طرزِ زندگی پیش کرتی ہے۔کسی بھی قوم کو سمجھنے کے لیے اُس قوم کے مجموعی بیانیے کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بیانیہ قوم کے مجموعی رویوں کو بیان کر رہا ہوتا ہے۔ہر قوم، اجتماع اور گروہ کا کوئی نہ کوئی بیانیہ ہوتا ہے جس کے مطابق وہ اپنی زندگی کی تشریح کرتے یا اُس کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ بیانیے ہی افراد کو تخلیقی وسعت عطا کرتے ہیں اور انھی وجہ سے قوموں میں سماجی،معاشرتی اور فکری تحدید (Limitation)پیدا ہوتی ہے۔
پاکستانی قوم کو اس وقت اپنے قومی بیانے کی تبدیلی کا احساس پیدا ہوا ہے ۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہم نے پہلی دفعہ بطور قوم یہ سوچا ہے کہ ہمارا بیانیہ ہے کیا؟ اور کس نے ہمیں یہ جہاں بینی (World View)عطا کی۔ ہم کس بیانیے کے زیرِ اثر اپنی فکری، جذباتی، نصابی اور معاشرتی زندگیوں کو تیار کرتے رہے اور اُس کے نتائج پر عدم طمانیت کا شکار رہے۔ واقعی ہم نے اس بحث کے آغاز میں کچھ نیا بنانے کی بجائے اپنے ماضی کے بیانیے کو زیادہ تلاش کیا ہے۔ماضی پر تنقید اصل میں مستقبل کی بہتری کی نوید ہوتی ہے۔یہ بہت اچھا ہُوا کہ ہم نے اپنے حال کو ماضی کے گہرے گڑھے میں گرانے کی بجائے مستقبل کی طرف سفر کرنے پر مائل کیا ہے۔
ہمارا طرزِ زندگی یا بیانیہ کیاتھا؟ کیا ہم اور ہمارا بیانیہ دو مختلف سوچیں کے حامل ہیں؟میں شدت سے اس بات پر سوچتا رہا ہوں کہ بطور فرد میں ریاستی یا قومی بیانیے سے الگ کیوں ہوں؟ یا ریاستی بیانیوں کو افراد (Individuals) ہمیشہ ایک فاصلے پر کیوں رکھتے آ رہے ہیں۔ اصل میں ہمارا قومی بیانیہ ہمارا مجموعی طرزِ زندگی ہے ہی نہیں۔صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ کسی بھی پُرامن اور باشعور قوم اس طرز کے قومی بیانیے کو قبول کر ہی نہیں سکتی۔پہلے اس قومی بیانیے کے موٹے موٹے نکات سمجھ لیجئے:
۱۔ پاکستان ایک اسلامی تجربہ گاہ ہے، اسے ہر حال میں تجربات کے نتائج سے گزارا جائے اور ہر حال میں ایک اسلامی نظریاتی ملک بنایا جائے۔تجربہ گاہ میں اشیا تیار کی جا سکتی ہیں لہٰذا اسلامی دینیاتی بیانیے تشکیل دیے جا سکتے ہیں۔
۲۔ ہماراہمسائیہ ہماراازلی دشمن ہے جو ہمارے مذہب کا مخالف ہے۔ جو ہمیں تباہ و برباد کر دے گا۔ خود کو اور اپنے مذہب کو بچاؤ۔ دشمن کو تباہ کردو اور اپنی دنیا و آخرت کو محفوظ کر لو۔
۳۔ ریاست اور عوام دو الگ الگ مقدرہ ہیں۔ وہی جیتے گی جس کے پاس بندوق یا باردو کی طاقت ہے۔
۴۔ مذہب ریاست کا ایک لازمی حصہ بلکہ وہ چھلنی ہے جہاں سے ہر قومی فکرکو گزارا جائے گا۔
۵۔ جہاد النفس کی بجائے جہاد فی القتال کو اولیت دی جائے گی۔
۶۔ پورے ملک میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اسلام کو غلبہ ہونا چاہیے۔’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘۔
۷۔ ہم دنیا بھر سے مختلف قوم ہیں۔ ہم مسلمان’ ملتِ بیضا‘ کا حصہ ہیں جب کہ دنیا کافر ہے۔
۸۔ طاقت ہر قومی مسئلے کو تبدیل کر سکتی ہے۔طاقت خواہ گروہ کی ہو، ادارے کی یا ریاست کی۔مسائل کے حل کے لیے طاقت ہی اولین اصول قرار پائے گی۔لہٰذا گروہوں، اداروں اور ریاست کی طاقت درست ہے۔
۹۔ اصول و فقہ کی تشریح و توضیح صرف مذہبی علامتی افراد کے پاس ہے۔مذہب کے معاملے میں فہم وفراست کسی ’’غیر علامتی‘‘ افراد کے پاس نہیں۔ مذہبی علامتی افراد خواہ کسی بھی علمی وذہنی سطح کے ہوں مگر مذہبی تشریح و تعبیر کا حق صرف انھی کے پاس ہے۔
۱۰۔ قومی معاملات میں مذہبی روایات و فکریات کا بھرپور استعمال کیا جا سکتا ہے یا لازمی کیا جانا چاہیے۔جس کے لیے نصاب اور علمی سرگرمیوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے جو بچوں کے ذہنوں کو تبدیل کرنے کا محفوظ راستہ ہے۔
یہ اور اس طرح کے بیسیوں بیانیے ہیں جن کے باہمی اشتراک سے ایک قومی بیانیہ تشکیل دیا گیا ہے جو ہماری زندگیوں کو غیر معمولی طور پر متاثر کر رہا ہے۔جس کی تبدیلی کی طرف پہلی دفعہ ریاست کی طرف سے ہی بات کی گئی۔
گذشتہ دنوں وزیرِ اعظم نواز شریف نے ایک مدرسے میں خطاب کے دوران کہا کہ ہمیں اپنا بیانیہ تبدیل کرنا چاہیے۔یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک ریاستی ادارے’’حکومت‘‘ کا سربراہ بیانیے کی تبدیلی کا اعلان یا درخواست کر رہا ہے۔اس سے بھی بڑی حیرانی والی بات کہ وہ سمجھ گیا ہے کہ بیانیہ کہاں سے تبدیل کرنا چاہیے اورکون لوگ اس بیانیے پر اُس سپیرے کی طرح بیٹھے ہیں جو پٹاری کے ساتھ بِین لے کے بیٹھا ہوتا ہے۔پٹاری کھل بھی جائے تو بِین کا دل سوز سرُود اُسے پھر ’’رام‘‘کر دیتا ہے۔
کچھ لوگوں نے کہا کہ’’ بیانیے کو تشکیل دینے والے ،اُس پر ’’روزی رزق ‘‘کمانے والے، اُسے سینچ کر بڑا کرنے والے، بھلا اب اپنا بیانیہ تبدیل کر لیں گے؟ یہ ریاست کی انتہا درجے کی بیوقوفی ہے کہ بیانیہ بھی انھی سے تبدیل کروا رہی ہے جو اس کوبنانے والے ہیں اور اُسے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔‘‘یہاں دو باتیں ذہن میں رکھنی چاہیے پہلی بات یہ کہ ریاست کامذہبی ملّاؤں کے پاس قومی بیانیے کا سوال لے کر جاناہی ایک اہم واقعہ ہے ، دوسری بات ، اُن لوگوں کو احساس دلانا ہے جو مذہبی بیانیے کے سہارے اپنی مقتدرہ قائم کیے ہوئے ہیں اور ہر دفعہ مذہبی بیانیہ انھیں طاقت مہیاکر دیتا ہے۔
میں نے آغاز میں کہا کہ ہم اور ہمارا بیانیہ دو مختلف دھاروں میں بہہ رہے ہیں۔یعنی ایک فرد پر بیانیہ لاگو ہے اُس کی تحدید کر رہا ہے۔ مگر وہ فرد اپنے عملیات(Practices) میں اس بیانیے کونہیں مانتا۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ قوم کسی اور سمت سوچتی ہے عمل کرنا چاہتی ہے مگر بیانیہ اُسے موڑنا چاہتا ہے، محدود رکھنا چاہتا ہے، قابو میں لانا چاہتا ہے اور ڈرا دھمکا کے قیدی بنانا چاہتا ہے۔مجھے بتائیے کتنے لوگوں نے مارشل لاؤں کو سپورٹ کیا؟ محض چند مفاد پرستوں نے؟
طاقت ور اشرافیہ شروع دن سے اشرافیہ کے ’’تقدس‘‘ اور ’’قومی دفاع‘‘ کا رونا رو رہی ہے مگر قوم یونہی اس اشرافیہ کو طاقت کے نشے میں دیکھتی ہے ، اسے رَد بھی کرتی ہے بلکہ عملی انکار کا آغاز بھی کر تی ہے۔ دوسری طرف جہاد کے بیانیے کو کتنے لوگوں نے عملی زندگی کا شیوہ بنایا۔ یہ مخصوص مذہبی افراد کا ہی مسئلہ رہاہے جو آج تک ’’ورغلانے‘‘ کے قبیح عمل کے ذریعے ہی اس بیانیے کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔عام آدمی اس قسم کے بیانیے کر مان بھی لیتاہے، اپنی فکر میں لاگو بھی کر لیتا ہے مگر عملی طور پر کبھی حصہ نہیں لیتا۔افراد کی قومی زندگی مجموعی طور پر اس ’’جہادی تصور‘سے ماورا ہی ہے۔ اب آئیے مذہبی اشرافیہ کی طرف۔
کتنے افراد ان ملاؤں کو ووٹ دیتے اور حکومت دیتے نظر آتے ہیں۔ملّا ہمیشہ کسی ’’طاقت‘‘ کے سہارے سامنے آیا۔ عوام نے کبھی ان ملّاؤں کو طاقت نہیں دی۔ جب بھی عوام کو فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا، ہمیشہ لبرل اور جمہوری سوچ والی جماعتیں ہی سامنے آئیں۔
غامدی صاحب نے اپنے مضمون’’اسلام اور ریاست:ایک جوابی بیانیہ‘‘ جو ۲۰۱۵ میں’’ اشراق‘‘ پر شائع ہُوا، میں ریاست اور مذہب کو الگ کرنے پر زور دیا ہے۔( غامدی صاحب کے مضمون پر تفصیلی بحث اگلے مضمون میں کی جائے گی) غامدی صاحب سارا زور علما کرام پر ڈالتے آ رہے ہیں۔وہ علما کرام کو بیانیہ تبدیل کرنے کا کہتے ہیں۔ مگر یہ ’جڑ ‘کا معاملہ ہے جو عوامی سطح پر اور عوامی نمائندگان کی سطح سے شروع ہونا چاہیے۔ ہر قومی فورم پر بیانیے کو زیرِ بحث لانا چاہیے اور اسے تبدیل کرنے پر زور دینا چاہیے۔ہمیں بیانیے کو تبدیل کرنے سے پہلے اُن افراد اور طاقتوں کی نشان دہی کرنی چاہیے جو بیانیے کو بطور ایک ڈھال استعمال کرتے آ رہے ہیں اور اب پھر کمر بستہ ہو کے نکل پڑے ہیں اور کسی تبدیلی کے خواہاں نہیں۔