(ذوالفقار علی)
پاکستان دہشت گردی، بے روزگاری، مقامی دانش اور اس مٹی سے جُڑے بیانیے کا بحران، قدرتی وسائل کے بہتر استعمال کا فقدان، آئین اور قانون کی عملداری میں رکاوٹیں، تعصب اور اقربا پروری پر مبنی سوچ، مردانہ سماج کی مضبوط روایات کا تسلسل، پالیسی ساز اداروں کی کم علمی اور روایتی اپروچ، کرپشن، مہنگائی اور صبر آزما انصاف جیسے مسائل میں پھنسا ہوا ہے۔ ان مسائل سے نکالنے کیلئے ضروری ہے کہ قومی سطح کی سیاسی پارٹیوں کو واضح پالیسیوں اور استدلال کے ساتھ لوگوں میں اور ان مسائل سے نمٹنے کیلئے عوام کو بھی ہر سطح پر شریک کرتے ہوئے جدو جہد کریں۔
مگر پچھلے 70 سال سے اقتدار پر قابض طاقت ور سیاسی پارٹی یہ سپیس دینے کیلئے تیار نظر نہیں آتی۔
بطور سیاسی تجزیہ نگار میں سمجھتا ہوں اس نکتے پر پہنچنے سے پہلے کچھ بنیادی معلومات اور حقائق کا پردہ اُٹھایا جانا ضروری ہے تاکہ ان حقائق اور معلومات کا ادراک کیا جا سکے۔ ورنہ اس کےبغیر اس پیچیدگی کو سمجھنا اندھیرے میں تیر چلانے جیسا ہے۔ آئیے ان اندھیروں سے حقائق کی روشنی میں پردہ اُٹھاتے ہیں تاکہ منظر واضح ہو سکے اور ہمیں راستہ متعین کرنے میں آسانی ہو۔
عام طور پر ہم اپنے بچوں کی کارکردگی کو پرکھتے ہوئے سب سے پہلے کیا کرتے ہیں۔ عام مشاہدے میں تو یہی آتا ہے کہ اپنے بچے کی ہم عمر بچوں سے موازنہ کیا جاتا ہے اور پھر ایک تقابلی جائزہ لیکر ان کی صلاحیتوں اور رویوں کا جائزہ لیا جاتا ہے اور پھر ان پیمانوں پر سوچ اور معیار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ہماری ریاست کے رویوں پر اگر بات کی جائے تو ابھی تک یہ ریاست اس قابل بھی نہیں ہو پائی کہ اپنی ہم عمر ریاستوں کی طرح اپنے رویے کو میچور کر سکے۔ ریاست جسے ماں بھی کہا جاتا ہے نے اپنے بچوں کی پرورش اس طریقے سے نہیں کی جس طرح ذمہ دار ریاستیں یا مائیں کرتی ہیں۔ بلکہ اس ریاست نے اپنے بچوں کو ضرورت کے تحت اپنی ہی بھوک مٹانے کیلئے استعمال کیا جس کی کئی درد ناک مثالیں اس ریاست کی 70 سالہ زندگی میں تاریخ کے اوراق میں درج ہیں۔ مثلا ریاست نے مقامی ثقافت ، اقدار، سوچ اور دانش رکھنے والی پارٹیوں سے ہمیشہ مخاصمانہ رویہ اختیار کیا۔اپنے خاندان سے بٹوارہ کرنے کے بعد اس ماں نے ہر اُس سیاسی پارٹی کو نشانے پر رکھا جس نے مقامی اقدار، ثقافت، دانش اور مٹی کی بات کی مثال کے طور پر بنگالیوں نے اگر اپنی زبان کی بات کی تو انہیں وہ سبق سکھایا گیا کہ جس کی مثال تاریخ میں کم ہی ملتی ہے، اسی طرح کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان، بلوچ ریپلکن پارٹی، کیمونسٹ مزدور کسان پارٹی، عوامی پارٹی اور اسطرح کی بہت سی مقامی دانش اور بیانیے کی پروردہ سیاسی پارٹیاں سخت ریاستی رویہ اور جبر کے باعث لوگوں کے اندر آزادانہ طریقے سے اپنا ایجنڈا اور پروگرام پہنچانے میں ناکام رہیں۔
بعینہ کچھ مین سٹریم سیاسی پارٹیاں جو مقامی بیانیے اور تاریخ سے اُنسیت رکھتی ہیں ان کو بھی اس ریاست نے نہیں بخشا جس کی واضح مثالیں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سے روا رکھے گئے رویہ سے دی جا سکتی ہیں۔ ماضی کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اس بار جب حضرت لال شہباز قلندر کے دربار پر وحشیانہ حملہ ہوا تو تاثر یہ دیا گیا کہ اصل مسئلہ دھماکہ نہیں بلکہ ہسپتال کا نزدیک نہ ہونا ہے۔ 80 انسانوں کاقتل اور 250 انسانوں کا زخمی ہونا کمال ہوشیاری سے دبایا گیا۔ اسے دہشت گردوں کیلئے سہولت کاری نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔ مرنے والوں کے وارثوں اور زخمی ہونے والوں کے دلوں میں یہ تاثر بٹھایا گیا کہ اصل میں سارے لوگ موقعے پر نہیں بلکہ ھسپتال پہنچتے پہنچتے مرے اور زخمی ہوئے ہیں۔
اسی طرح اے-این-پی کے دور حکومت میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کو بھی ایک خاص طریقے سے پیش کیا گیا جس میں واضح طور پر ذمہ دار وہاں کی حکومت اور پارٹی کے سینئر لوگوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔ یہ کہانی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت رچائی جاتی ہے تاکہ ان پارٹیوں کو عام لوگوں میں ملنے والی مقبولیت کو گمراہ کن پروپیگنڈہ سے کم کیا جائے جس کے نتائج بہت خطرناک طور پر سامنے آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے۔ مثلا اسی رویے کے تناظر میں اگر ہم ریاست کی ذہنیت اور ترجیحات کا اندازہ لگائیں تو ہمیں تاریخی حقائق سے پتا چلتا ہے کہ ریاست نے قرار داد مقاصد کو اپنا مطمح نظر بنا کر جب اپنے آپ کو اس نظرئے کی وارث سمجھ لیا تو یہ ماں اُن بچوں کی وارث بن گئی جو شدید طور پر دائیں بازو کی حامی تنظیمیں اور جماعتیں تھیں جن میں جماعت اسلامی، دفاع پاکستان کونسل، جیش محمد، اچھے طالبان کی تنظیمیں اور پارٹیاں، جماعت الدعوہ اور متحدہ مجلس عمل کی شکلوں میں اس فیض سے فیض یاب ہوتی رہیں اور آج بھی کچھ ضروری موڈیفکیشن کے ساتھ یہ دھندہ جاری ہے بس نام بدلتے رہتے ہیں۔
ریاست کی اصل اور طاقت ور پارٹی سمجھتی ہے کہ وہ اس ریاست کو مضبوط اور موثر طریقے سے چلا سکتی ہے جس کی وجہ سے اس پارٹی نے باقی ماندہ سیاسی پارٹیوں کو ناکوں چنے چبوائے اور ان کو جمہوری طریقے سے فیصلہ اور اختیار دینے سے باز رکھا۔ اسی رویے اور اپروچ کی وجہ سے مختلف سیاسی مسائل کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی بجائے عسکری نقطہ نظر سے حل کرنے پر زور دیا گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مسائل سُلجھنے کی بجائے اتنے پیچیدہ ہوگئے ہیں کہ اُن کا سیاسی حل ریاست کی بقا اور وجود کیلئے خطرہ بن گیا ہے۔
مثلا خیبر پختونخواہ میں پختون نیشنلزم کی معقول حمایت اور سپورٹ اے-این-پی اور اچکزئی کی صورت میں موجود ہے جو افغانستان کی پشتون آبادی کو اپنے سے الگ نہیں سمجھتے، اسی طرح بلوچستان میں بھی پچھلی چار دہائیوں سے ریاست اور وہاں کی مقامی بلوچ آبادی آپس میں نبرد آزما ہے سندھ میں بھی مہاجر اور مقامی سندھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتے اور یہ مسئلہ دن بدن پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے، اب تو پنجاب کے اندر بھی سرائیکی بیلٹ کے لوگ تخت لاہور سے شدید طور پر نالاں نظر آتے ہیں اور مقامی پڑھے لکھے نوجوانوں میں شدید قسم کی “oppression” یا بیگانگی موجود ہے۔ اوپر سے ہماری ریاست نے عالمی جہاد کا ٹھیکہ لے کر مختلف اسلامی اتحادوں کی پراکسی وار میں کہیں بالواسطہ تو کہیں بلا واسطہ حصہ ڈالا رکھا ہے۔
اس حکمت عملی سے اس ریاست کے اندرونی مسائل مزید اندرونی تنازعات کو ابھاریں گے جن کو طاقت اور عسکریت پسند فورسسز کے ذریعے دبایا نہیں جس سکے گا۔ کیونکہ یہ حکمت عملی زیادہ عرصہ تک کارگر نہیں رہتی اور بالآخر سیاسی حل کی طرف جانا ہوتا ہے۔ اگر ریاست ان مسائل کا سیاسی حل چاہتی ہے تو اسے اپنے رویے پر نظر ثانی کرنی پڑے گی، سیاسی پارٹیوں کو مقامی مٹی سے چُننا اور بُننا پڑیگا، اچھے اور بُرے طالبان کی ریاستی پالیسی کو یہاں کی مقامی صوفی روایت سے بدلنا پڑیگا، اقتدار کو اس مُلک کے اصل اور تاریخی وارثوں کو شفاف بنیادوں پر منتقل کرنا پڑیگا ورنہ یقین مانئیے وہ دن زیادہ دور نہیں جب ریاستی جبر کے دباو کا پریشر اور رویہ یہاں کے مقامی باشندوں کو اتنا متنفر اور بد دل کر دے گا کہ وہ پاکستان نامی معاہدے سے کُلی طور پر دست بردار ہو جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھیں گے۔