( ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی )
گزشتہ دنوں سیہون شریف میں درگاہ لال شہباز قلندر پر خود کش حملے نے جہاں تمام پاکستانیوں کو غمزدہ کیا وہیں ہندو کمیونٹی کو خون کے آنسو رلا دیا،سانحہ سیہون شریف کے موقع پرتین ہندو عقیدتمندوں نے بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا جبکہ پاکستان ہندو کونسل کی طرف سے ہنگامی طور پر زخمیوں کو خون کا عطیہ کرنے کی اپیل کے جواب میں لاتعداد ہندو باشندوں نے زخمی ہم وطنوں کی جان بچانے کیلئے امدادی اداروں کے ساتھ تعاون کیا۔سندھ کی دھرتی صوفیاء کرام، اولیا کرام، سادھوؤں، جوگیوں کی دھرتی کہلاتی ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی انسانیت کی فلاح و بہبود اور خدمتِ خلق کیلئے وقف کردی، خدا کے برگزیدہ بندوں نے جو محبت، انسانیت، مساوات، اخوت، رواداری اور وسیع النظّری سے لوگوں کے قلوب میں اپنی جگہ بنائی جسکی بدولت بعد از مرگ انکے مزار مخلوقِ خدا کیلئے پیغامِ محبت جاری و ساری کرنے کا مرکز سمجھے جاتے ہیں لیکن نفرت کا پرچار کرنے والوں نے خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے کیلئے محبت کے مراکز کو بھی نہیں بخشا ۔
بدقسمتی سے گزشتہ عشرے میں رواج پانے والے خود کش حملوں نے یوں تو پورے ملک کے در و دیوار ہلا ڈالے لیکن ان کے خوفناک نشانے پر درگاہیں، خانقاہیں اور مزار بھی رہے، پیر رخیل شاہ، شاہ نورانی، سخی سرور، داتا دربار، بری امام، عبداللہ شاہ غازی، بابا فرید گنج شکر کے مزاروں پر حملے کے بعد تازہ نشانہ دہشت گردوں نے لال شہباز قلندر جھولے لال کو بنایا جنکے عقیدت مندوں میں کسی خاص مذہب فرقے کے نہیں بلکہ تمام انسان شامل ہیں۔ شہباز لال قلندر خدا کے ایسے بندے تھے جو فا تحِ زمانہ تھے لیکن انہوں نے محبت کو اپنا ہتھیار بنایا، آپ سندھ کے ان بزرگان دین میں شمار ہوتے ہیں جو اپنی صوفی منش طبیعت لیکن قلندرانہ کیفیت کے باعث جلالی مزاج کے حامل سمجھے جاتے ہیں، آپ کے کشف و کرامات کے درجنوں واقعات مشہور ہیں جن پر ہندو مسلم سب کا اعتقاد ہے۔
میری نظر میں امن و آشتی کا پیغام عام کرنے میں صوفی کلچرنے برصغیر پاک و ہند پر مثبت ترین اثرات مرتب کئے، شہباز قلندر جیسے صوفاء کرام نے بقائے باہمی کے ایسے معاہدہ عمرانی متعارف کروائے جسکا مقصد اپنے مذہبی عقائد پر کاربند رہتے ہوئے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طور پر زندگی گزارنااور تعاون کرنا یقینی بناناہے۔ یہی وجہ ہے کہ وادی سندھ میں تصوف، صبر و تحمل، برداشت، رواداری جیسے اعلیٰ اوصاف نے انتہاپسندی کامردانہ وار مقابلہ کیا ہے جبکہ عوام ناس نے لال شہباز قلندرکو بجا طور پر سندھ وادی کا عظیم صوفی قرار دیا ، لال قلندر کی شخصیت میں ایسی خاص کشش تھی کہ لوگ آپ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے۔ آپ اپنے تبلیغی دوروں میں جہاں بھی گئے،آپ کے گرد حاجت مندوں کا ہجوم جمع ہوجاتا، یہ زمانے بھر کے ستائے ہوئے، بیمار اور مفلس انسان ہوتے جنہیں لال قلندرکے تسکین آمیز کلمات جینے کا حوصلہ دیتے تھے،آپ دکھی لوگوں کے آنسو پونچھتے، انہیں تسلی دیتے، غمخواری فرماتے۔
روایت ہے کہ جب کبھی آپکے پاس کوئی لاعلاج مریض آتا تو آپ بیمار پر گہری نظر ڈالتے، میٹھی زبان سے تسلی کے بول بولتے اور بیماری کو خدا کا واسطہ دیتے اور چند ہی لمحوں میں مریض میں تندرستی کے آثار پیدا ہوجاتے۔ ایک مرتبہ سندھ اور اس کے قرب وجوار میں بسنے والوں کو اتنے شدید قحط سالی کا سامنا کرنا پڑا کہ لوگوں نے لال قلندر سے عرض کی کہ آپ خداوند تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہمیں اس قحط سے نجات دیدے ۔لال شہباز قلندر بارگاہِ ایزدی میں دعامیں مصروف ہی تھے کہ بارش شروع ہوگئی اور اتنی زیادہ بارانِ رحمت برسی کہ دھرتی ہری بھری ہوگئی۔لال قلندر کے عقیدتمندوں میں ہندوؤں کی بھی کثیر تعداد شامل ہے، آج بھی سیہون شریف درگاہ کے سجادہ نشینوں میں دو ہندو خاندان شامل ہیں اور عرس کے موقع پر ہندو زائرین مہندی کی تقریب کا اہتمام کرتے ہیں۔ وادی سندھ کی ثقافت و تمدن کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے اور سندھی لوگوں کو دریائے سندھ سے بے حد عقیدت ہے، پندرہ سو سے دو ہزار قبل مسیح کے زمانے میں جب مقدس وید لکھے گئے تھے اْن میں بھی سندھو دریا کا ذکر ہے اور دریائے سندھ کو مہران، انڈس، سندھو بادشاہ، سندھودریا، خواجہ خضر، جھولے لال، ماتا، پالنہار جیسے مختلف ناموں اور حوالوں سے مقامی ہندو مسلمان یاد کرتے ہیں، مختلف لوک روایات اور لوک شاعری میں خواجہ خضر اور اڈیرو لال کودو دریا کے پیر قرار دیا گیا ہے جنہیں ہندو اور مسلمان دونوں مانتے ہیں اور خواجہ خضر کو ہندو جِند ولی بھی کہتے ہیں،
دریائے سندھ پر جل پوجا ہوتی ہے اور ہندو اور مسلمانوں کے چھوٹے بچے میٹھی روٹیاں پکا کر دریا میں ڈالتے ہیں اور معصومانہ گیت گاتے ہیں کہ ہم سے ناراض نہ ہونا، ہمیں ڈبونا نہیں بس اسی طرح ہی بہتے رہنا۔جس طرح دریائے سندھ صدیوں سے شمالی علاقوں سے کسی شیر کی مانند دھاڑتا ہوا نکلتا ہے اور سندھ کی سرزمین کو سبزے سے ڈھک کر پیاسی سرزمین کو سیراب کرتا ہے اسی طرح لال شہباز قلندرکی اعلیٰ شخصیت نے سندھ باسیوں کو روحانی طور پر سیراب کیا ،آپ کی کرامت کی بدولت پانی کا ایک چشمہ سیہون شریف کے قریب پہاڑوں کے بیچ بہتا ہے جہاں دور دراز سے لوگ شفا پانے کی غرض سے آکر مذہبی ہم آہنگی کا بھرپور مظاہرہ پیش کرتے ہیں۔عام طور پر درگاہ کے تصور سے مسلمان پیر فقیرکے مدفون ہونے کا خیال آتا ہے لیکن اڈیرولال میں جھولے لال سے منسوب ایک ہندو درگاہ بھی موجود ہے جسکے دروازے ہندو مسلمان سب کیلئے کھلے ہیں۔روایتی طور پر جھولے لال کی تصویر کشی دریائے سندھ کی مقامی مچھلی پر سوار یا گھوڑے پر بیٹھے ہوئے کی جاتی ہے اور یہ عقیدہ عام ہے کہ بزرگ کا مزار جنہیں مسلمان شیخ طاہر اور خواجہ خضر کہتے ہیں اس جگہ پر قائم ہے جہاں وہ اور ان کا گھوڑا ایک کنویں میں غائب ہو گئے تھے۔
اْڈیرو لال میں واقع یہ مزار ایک مندر اور ایک مسلم طرزتعمیر کے مقبرے پر مشتمل ہے جبکہ اس کے سجادہ نشینوں میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں، شام کے وقت ہندو یہاں پوجا کرتے ہیں اور آرتی اتارتے ہیں جبکہ مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔ کوہستان کے علاقے تھانہ احمد خان میں شہباز لال قلندر کے ہندو عقیدتمندوں نے سندھی طرز تعمیر کی شاہکار درگاہ سیہون شریف کی ہوبہو کاپی تعمیر کی ہوئی ہے جسکا مقصد لال قلندر کے پیغام محبت کو خراجِ عقیدت پیش کرناہے، ہندو درگاہ میں اسلامی کیلی گرافی اورہندو مذہبی نشانات اور کلمات کے ذریعے مذہبی ہم آہنگی کا پیغام دیا گیا ہے، شوِ، رام،کرشن، رادھا، گرونانک کی تصاویر سے مزین درگاہ میں اردو، سندھی اور فارسی زبان میں علامہ اقبال، شاہ عبدالطیف بھٹائی اور بھگت کبیر کی شاعری بھی جابجانمایاں ہے۔دہشت گردوں نے اپنی طرف سے تو امن و آشتی کے مرکز کو نشانہ بنایا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ محبت فاتح عالم کو کسی صورت شکست نہیں دی جاسکتی، شہباز لال قلندر کاپیغام اب پوری دنیا میں گونج رہا ہے،
امن و سکون کے متلاشی مغرب و مشرق کے باشندے جاننا چاہ رہے ہیں کہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والی درگاہ میں ایسی کیا خاص بات تھی۔میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ درگاہ سیہون شریف تصوف امن، رواداری اور برداشت کا ہی دوسرا نام ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے قریب کرتی ہے، ایک دوسرے کے حقوق و فرائض بخوبی ادا کرنے کی تلقین کرتی ہے،صدیوں سے علاقے بھر کے فقیروں اور عقیدت مندوں کے درمیان سماجی روابط کا بڑا ذریعہ ہے ۔میرے خیال میں انسان کی انسان سے محبت ہی امن و سکون کا باعث ہے جس کی جدوجہد کرنا ہی انسان کی روحانی ترقی کی منزل ہے، دنیا کے تمام دین دھرم مذاہب کی اخلاقی اقدار ایک دوسرے سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہیں ، کوئی مذہب اپنے ماننے والوں کو معصوموں کا خون بہانے کا درس نہیں دیتا، سب دھرم شراب نوشی جیسی سماجی برائیوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں، کمزور کی مدد اور ظالم کا ہاتھ روکنے کا حکم دیتے ہیں، انسانی جان کی حرمت یقینی بنانے کیلئے تمام مذاہب کا احترام ایمان کا حصہ ہے۔آج کے مادیت پرست دور میں “کچھ دو اور کچھ لو “کی بنیادوں پر معاملات طے کئے جاتے ہیں،
کوئی شخص کسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ اسے بدلے میں کیا ملے گا ؟ اس وقت تک انسان کا دل نیکی کی طرف مائل نہیں ہوتااور نہ کسی اور کی تکلیف کا احساس کرتا ہے جب تک فوری فائدہ ملنے کی توقع نہ ہو ، انہی عوامل کی بناء پر معاشرہ بے سکونی کا شکار ہے جبکہ خود غرضی اور اپنے نفس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شہباز لال قلندر جیسی روحانی شخصیات عوام الناس کو زندگی گزارنے کے سنہرے اصول سے روشناس کراتی ہیں کہ ذاتی مفاد سے بالا تر ہوکرانسانیت کو فائدہ پہنچایا جائے جسکا فائدہ یقینی طور پر پورے معاشرے کی امن و سلامتی کی صورت میں نکلتا ہے،
لال قلندر کی تعلیمات کے مطابق خلقِ خدا کی خدمت سے بڑھ کر کوئی نیکی کا عمل نہیں اوراذیت پہنچانے سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں، مال و دولت اور سماجی اسٹیٹس کی کوئی حیثیت نہیں، درگاہ میں امیر غریب سب برابر ہوتے ہیں،ایک اچھا انسان ہمیشہ اپنی ذات سے تعمیری و مثبت عمل کا آغاز کرتا ہے اور دوسروں پرتنقید، نصیحت یا احکامات چلانے کی بجائے اپنے طرزعمل سے محبت اور رواداری کا پیغام دیتا ہے۔ ایک انسان کو حرص و ہوس سے بالاتر ہو کر کسی اجر کی توقع کے بغیرانسان، چرند، پرند سب کی خدمت میں اس یقین محکم کے ساتھ سربستہ رہنا چاہیے کہ جو انسان خدا کے عشق میں سرشار ہوتا ہے وہ خدا کے راستے پر چلتے ہوئے مخلوقِ خدا پر مہربان ہوتاہے، عبادت کی قضاء ہے لیکن خدمت کی نہیں کا عملی نمونہ پیش کرتا ہے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں پنپتے ہوئے انتہاپسندانہ نظریات کا زور توڑنے کیلئے لال شہباز قلندر کا پیغامِ خدمت خلق عام کیا جائے۔