(فاروق احمد)
متبادل بیانیہ کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ آخر یہ ہو کیا رہا ہے ۔۔۔ یہ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔۔۔ کیا ریاستی ادارے ہمیں ڈبل کراس کر رہے ہیں ۔۔۔ کیا کل کی طرح آج بھی دہشت گردی اور انتہا پسندی کی پشت پناہی کی جا رہی ہے ۔۔۔ کیا یہ دعوے ، ازالے اور وعدے سب دھوکا اور آنکھوں میں جھونکی گئی دھول ہے کہ پاکستان کو تنگ نظر مذہبی انتہا پسندی کے چنگل سے نکال کر روشن خیال اور لبرل معاشرہ بنانا ہے اور یہ کہ اب خاکی ادارے جہادیوں کے نہیں بلکہ روشن خیال اور لبرل قوتوں کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالیں گے۔
سب سے سے زیادہ بااثر اور طاقتور خفیہ ادارہ یہ کر کیا رہا ہے ۔۔۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے بیانیے کے خلاف لڑنے کی جگہ یہ ادارہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے حامیوں اور سہولت کاروں کا ساتھ دے رہا ہے اور ان کے ہاتھ مضبوط کر رہا ہے۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خود سر اور منھ زور خفیہ ادارے ان افراد اور لبرل عناصر کو نشانہ بنا رہے ہیں جو مذہبی انتہا پسندی کے خلاف فوج کی اعلان کردہ پالیسی کے عین مطابق روشن خیال اور لبرل بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں اور میڈیا پر مذہبی انتہا پسندوں اور ان کے حمایتیوں سے نبرد آزما ہیں ۔۔۔ کیا ایسا نظر نہیں آ رہا کہ خاکیوں کے قول و فعل میں تضاد ہے ۔۔۔ کیا خٓاکیوں کا مذہبی انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی محض ڈھکوسلا ہے ۔۔۔ یہ سوالات آج ہر ذہن میں اٹھ رہے ہیں۔
جیسا کہ واقعات طاہر کر رہے ہیں خاکی اسٹیبلشمنٹ دراصل وہ نہیں کر رہی جو کہہ رہی ہےبلکہ اس کے عین برعکس کر رہی ہے تو اس کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ خاکی اسٹیبلشمنٹ اسی اور نوے کی دہائیوں کی پالیسیوں پر عمل پیرا رہتے ہوئے آج بھی اندرونِ خانہ جہادی اثاثوں کی گاڈ فادری کر رہی ہے۔
ورنہ کیا وجہ ہے کہ سوشل میڈیا کے اینٹی انتہا پسند اور لبرل بلاگرز کو اغوا کیا جا رہا ہے ، آئین و قانون کی پابندیو سے بالا تر جاسوس ادارے کے زیرِ سرپرستی چلنے والے ٹی وی چینل کے ذریعے لبرل عناصر کے خلاف گھناؤنی اور جان لیوا مہم چلائی جا رہی ہے، تنگ نظر ججوں کے ذریعے سول سوسائٹی کے لبرل فیکٹر کو توہینِ مذہب اور توہینِ رسالت کے جان لیوا جھوٹے الزامات کی آڑ میں فکری محاذ سے ہٹانے کی سازش کی جا رہی ہے اور سوشل میڈیا کے مورچوں سے مذہبی انتہا پسندی کے خلاف بیانیے کی جنگ لڑتے لوگوں کو پسپا کیا جا رہا ہے۔
رہا ہوئے بلاگرز کا کہنا ہے کہ ان کو اغوا کرنے اور بہیمانہ تشدد کر کے مذہبی انتہا پسندی کے خلاف فکری جنگ بند کرنے پر زبردستی مجبور کرنے میں براہِ راست جگا جاسوس ادارے کا ہاتھ ہے۔
روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور مافیا نما مسلح ریاستی اداروں کی جانب سے انتہاپسند ملائیت اور تشدد پرست جہادیوں کی سرپرستی فل سوئنگ میں جاری و ساری ہے یعنی ۔۔۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ ۔ ضرب عضب اور رد الفساد کا تمامتر دھوم دھڑکا ، ڈھول تاشا ، تام جھام اور لکی افغانی سرکس سب نظر کا دھوکا اور ہاتھ کی صفائی، پرنالہ وہیں گر رہا ہے جہاں اختر عبدالرحمٰن اور حمید گل چھوڑ چلے تھے۔ ریاستی آئیں و قانون پر حاوی جاسوس مافیا نما ادارے کی اپنی ڈفلی ہے اپنا راگ اور یہ نا ممکن کہ راولپنڈی سرکار کی رضا کے بغیر ایسا ممکن کہ راولپنڈی کا ڈسپلن ایسا کہ ماں سمان ادارے کی رضا کے بغیر پتا بھی نہ کھڑکے ۔۔۔ تیل بیچنے کا دھندا اسلام آباد کو مبارک ۔۔۔ اسلام آباد تو بس تیل بیچا کرے۔
جہادیوں، انتہاپسندوں، تنگ نظروں اور ملاؤں کے خلاف بیانیے کے ضربِ عضب میں فرنٹ مورچوں پر بے جگری سے لڑتے بلاگرز پر عقب سے حملہ کرنے والے کوئی اور نہیں اسی آئین و قانون سے ماورا جاسوس مافیا کے کارندے نکلے ۔۔۔ اور اسی پر بس نہیں ۔۔۔ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ کیا مین اسٹریم میڈیا اور کیا سوشل میڈیا اور کیا عدلیہ اور کیا وزارتِ داخلہ کے وزیر اور کیا ایف آئی اے ۔۔۔ یعنی اپنے تمام مہروں اور توپوں کو بیک وقت لبرل بیانیے کی جانب موڑ دیا گیا۔ ریاست کے ہر شعبہ ہائے کار میں موجود اپنے تمام تر مہروں اور تمامتر وسائل کے ساتھ۔
سیاسی میدان میں جنرل عمران خان کی جماعت کے ذریعے بلاگرز کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی ۔۔۔ بول میڈیا گروپ جو کہ دراصل کمپنی آپریٹڈ آؤٹ لیٹ ہے کے جنرل عامر لیاقت بریگیڈ کے ذریعے اور دیگر میڈیا گروپوں میں تعینات اپنے پیٹی صحافیوں کے ذریعے ۔۔۔ اس کے علاوہ ممتاز قادری سے اپنی محبتوں کیلئے معروف قاضی القضاۃ کے ذریعے ۔۔۔ اور آخر میں انتہا پسند فرقہ پرست مولویوں سے اپنی دلی وابستگی رکھنے والے وزیرِ داخلہ اور ذیلی ایف آئی اے کے ذریعے۔
یعنی کہاں تو یہ ظاہر ہوتا تھا کہ خاکی والے نیسشنل ایکشن پلان اور متبادل بیانئے کی تشکیل پر عملدرآمد میں ناکامی پر سول حکومت سے ادھار کھائے بیٹھے ہیں کہ جناب دیکھئے ہم تو ضربِ عضب لڑ رہے ہیں اور آپ ہیں کہ ابھی تک ایک بیانیہ تشکیل نہ دے پائے اور کہاں یکایک پینترا بدل کر نیا بیانیہ تشکیل دینے والوں پر عقب سے وار کر ڈالا، شب خون مار دیا ۔۔۔ کیا اب یہ بے بس یرغمال بدنصیب پاکستانی قوم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب نہیں کہ دال مں بہت کچھ کالا ہے اور یہ جو تین سال کی بظاہر ناکام ضرب عضب ہے یہ نظر کا دھوکا ہے او حقیقت ہے تو بس اتنی کہ خاکی والے آج بھی دل و جاں سے لال مسجد بریگیڈ اور جہادی مافیا کے ساتھ ہے ۔۔۔ باقی جو بھی کچھ ہے دفاعی بجٹ کا پھیلاؤ ہے۔
بلاگرز پر توہینِ رسالت کے جھوٹے الزامات لگوانے سے یہ واضح کر دینا مقصود ہے کہ باز آجاؤ ورنہ جہادی بریگیڈ کے بھیڑیوں سے توہینِ رسالت کے جھوٹے الزام کے نام پر سر بازار بھی ہم تمہارے چیتھڑے اڑوا سکتے ہیں۔
یہ فائنل وارننگ ہے کہ ہمیں لبرل اور روشن خیال پاکستان نہیں چاہیئے اور نہ اس کیلئے کوشش کرنے والے لوگ ۔۔۔ خاکی ادارے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے انہی راہوں پر چل رہے ہیں جو مذہبی انتہا پسندوں اور جہادی تشدد پرست فاشسٹوں کا راستہ ہے۔
خاکی اداروں کا پیغام واضح ہے۔ مذہبی انتہاپسندی کا دشمن خاکی کمپنی کا دشمن ۔۔۔ اب بھی بات سمجھ میں نہ آئی ہو تو دہشت گردوں کی ٹوٹی کمر کا ایکسرے کروا لیجئے۔ کمر ٹوٹنے کی جو آوازیں سنائی گئی تھیں وہ لاٹھی کے ٹوٹنے کی آوازیں ہیں۔