مرد کی غیرت اور عورت کی عزت
از، فارینہ الماس
یوں تو آپ سب نے غیرت کی بہت سی کہانیاں سن رکھی ہیں اور اب تو آپ ان کہانیوں سے بور بھی ہو چکے ہوں گے ۔جس کا برملا اظہار آپ سب ایسے پس منظر میں لکھی گئی تحریروں کے تبصروں میں اب گاہے بگاہے کرنے لگے ہیں ۔تو کیوں نا آج آپ کو ’’غیرت‘‘ کے نام پر قتل کی ایک انوکھی داستان سنائی جائے۔یاد رہے کہ یہ کوئی گھڑی ہوئی فرضی کہانی نہیں،اور یہ بھی کہ اس کہانی کا بنیادی کردار ابھی زندہ ہے۔ چلیں یہ بھی آپ پر چھوڑتے ہیں کہ آپ فیصلہ کریں آیا وہ کردار زندوں میں شمار کیا جائے یا مردوں میں؟
ضروریات زندگی کے سامان کی ضرورت کے پیش نظر اس دن مجھے مارکیٹ جانا پڑا۔ معلوم نہیں تھا کہ ایک ایسا اجنبی چہرہ وہاں میرا منتظر ہے کہ جو پھر کبھی میری نظروں سے اوجھل نہ ہو سکے گا۔زندگی ایسی ہی ہے کبھی کبھی تو اس کے رستے میں آنے والے ہزاروں انجان چہرے پرچھائیوں کی طرح پاس سے گزر جاتے ہیں اور کبھی کچھ چہرے یادداشت پر ایسے نقش ہونے لگتے ہیں کہ لاکھ کھرچنا چاہو تو بھی وہ نگاہوں سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتے۔میں دھیرے دھیرے قدم بڑھاتی اس شاپنگ مال کی طرف بڑھ رہی تھی کہ اچانک وہ عورت میرے سامنے آگئی ۔اسے اک نگاہ بھی دیکھ لینا بہت ہی روح فرسا تھا۔وہ گردن سے لے کر چھاتی تک جلی ہوئی تھی۔میرے لئے شاید اس وقت اس خاتون کا جلنا اتنا بھیانک نہ تھا بلکہ اس کی چھاتیوں کا گہرائی تک عریاں ہونا بہت بڑا سانحہ یا حادثہ نظر آ رہا تھا۔میں نے فوراً گھبرا کر اپنی نظروں کا رخ بدل لیا ۔بڑا ہی مکروہ سا لگ رہا تھا اس کا یوں سر عام اپنے زخموں کی نمائش کرنا ۔میں کراہت سے دو قدم پیچھے ہٹ گئی ۔پھر ہمت کر کے اسکے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھا اور اسکی چھاتی کے زخموں پر اچٹتی سی نگاہ ڈالی اورپرس میں سے کچھ پیسے نکال کر اس کے ہاتھ پر دھر دئے ۔عقب میں کچھ مردار نوچنے والے گدھ بھی کھڑے تھے جو اس کے مردہ زخموں پر نظریں گاڑھے ہوئے تھے۔
انہیں اسکے رستے ہوئے زخم ،جن پرشاید کبھی کچھ رینگتی سنڈیاں چپکی رہی ہوں گی ،جن کی سرانڈ نے کئی لوگوں پر ناگواری کا حملہ کیا ہو گا ، کی تکلیف اور درد تو شاید محسوس نہ ہوئی ہو لیکن ہاں ان زخموں کے نیچے ڈھکی نسوانیت کا جرم بنی وہ چھاتیاں ان کے اندر کی آگ کو ضرور دھکا رہی تھیں۔ وہ حریص کتے ایسے دکھ رہے تھے جیسے اسکے سڑے ہوئے لوتھڑوں کے گرنے کے منتظر ہوں۔مجھے لگا جیسے یہ منظر منٹو کے کسی افسانے کی تفسیر ہو۔جسے اپنے سامنے یوں کھلے بندوں دیکھ کر میری روح تک کانپ کے رہ گئی۔مجھے لگا ہو سکتا ہے وہ عورت اس حادثے کے بعد اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہو۔ پھر بھی میں نے ہمت کر کے اس عورت کو اشارہ کر کے ایک قدرے سنسان گوشے کی طرف بلایا۔سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اسے کیا کہوں اور کیسے کہوں’’دیکھو تم بھیک مانگنے کے لئے ان زخموں کی آڑ نہ لو اور عورت کے لئے ان حصوں کو پردے میں رکھنے کا حکم ہے۔ تم نے دیکھا نہیں مرد کیسے دیکھ رہے تھے۔ کیسے برداشت کر لیتی ہو یہ سب‘‘بڑی مشکل سے میں نے یہ الفاظ ادا کئے۔وہ کچھ نہ بولی بس اس نے اپنا سر جھکا لیا۔’’یہ سب کیسے ہوا؟‘‘ ’’وہ جی !۔۔۔وہ میرے گھر والے نے تیزاب پھینکا۔
میں تو بچ گئی ۔اور شکر خدا کا کہ میرا چہرا بھی جھلسنے سے بچ گیا ۔ہاں یہ اتنا حصہ جل گیا، یہ گردن سے چھاتیوں تک۔۔۔‘‘وہ باقاعدہ مجھے وہ حصے دکھانے لگی ۔اور میں کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسکے زخم دیکھنے لگی۔’’کیوں تیزاب پھینکا اس نے ‘‘مجھے اس کے شوہر سے شدید نفرت محسوس ہوئی۔’’بس جی شک کرنے لگا تھا مجھ سے۔اچھا بھلا گھر تھا میرا ،اور بچہ ہونے والا تھا ۔کہتا تھا یہ بچہ بھی نا جائز ہی ہو گا ۔پتہ نہیں کس نے اس کا دماغ خراب کر دیا تھا بس پھر ایک دن میری اس بد چلنی کا بدلہ لینے کو جو قسم لے لیں میں نے کبھی کی ہی نہیں،اس نے میرے اوپر تیزاب ڈال دیا۔اور مجھے گھر سے نکال دیا۔میرے بھائی بھابھی نے بھی بچے کی پیدائش تک میرا خرچہ اٹھایا پھر مجھے صاف صاف کہہ دیا کہ میں اپنا خرچہ خود اٹھاؤں ۔پھر کیا کرتی کوئی ہنر تو تھا نہیں میرے پاس ،کوئی میرا جلا ہوا وجود دیکھ کر اپنے گھر کا کام بھی نہ دیتا تھا۔پر میرا بچہ دودھ مانگتا تھا ،اسے دودھ چاہئے تھا۔ورنہ مر جاتا وہ۔‘‘وہ ایک ہی سانس میں اپنے سارے دکھڑے سنا دینا چاہتی تھی ۔’’پتا ہے جی،مجھے بھیک ویک مانگنا تو آتا نا تھا بس بے بسی سے ایسے ہی چوک میں کھڑے ہو کر ہا تھ پھیلا دیا اور بولی میرے بچے کو دودھ چاہیئے ۔‘‘وہ کچھ دیر کو خاموش ہو کر خلاؤں میں تکنے لگی۔پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔مجھے اس کی کہانی سن کر اس پر بہت ترس آیا اور اپنی گزشتہ سوچ پر لعنت بھیجنے کو جی چاہا’’پتہ ہے جی میرا بچہ پورے دو دن سے بھوکا تھا اور کوئی مجھے پیسے بھی نہ دیتا تھا ایک دن ایک آدمی میری ہتھیلی پہ پیسے دھرنے سے پہلے غلیظ نگاہ مجھ پہ ڈال کے بولا ،تیرا بچہ بھوکا ہے تو اسے خود دودھ پلا ۔کیا وہ نہیں پیتا؟ وہ بڑی ہی بے شرمی سے بولا۔مجھے اس کی یہ بات اندر سے چیر کے رکھ گئی بڑی ہی ندامت ہوئی اپنے وجود پر لیکن اس کے ہاتھ کا چمکتا نوٹ میرے اندر کا لالچ جگا رہا تھا’’صاب میری چھاتیاں جلی ہوئی ہیں۔‘‘
میں نے اسے اصل بات بتا دی ’’اچھا تو چل پہلے دکھا ‘‘ اس وقت تو کوئی میری جان کے بدلے بھی وہ نوٹ دیتا تو میں عار محسوس نا کرتی۔تھا تو بڑا مشکل پر میں کر گزری اپنے بچے کے دودھ کے لئے۔‘‘پہلی بار اس کی اس حالت پہ میرے آنسو پھسل کر گال پہ آگئے’’بی بی جی پہلی بار تو مجھے بڑا ہی برا لگا میرے ہاتھ کانپ رہے تھے اپنا جلا ہوا وجود کھولنا اتنا آسان تو نہیں اور پھر حصہ بھی تو شرم و حیا والا ہے پر کیا کرتی ۔پھر میں نے ایک فیصلہ کر لیا کہ اگر کھلا ہوا حصہ دیکھ کر ہی لوگ دودھ کے پیسے دیتے ہیں تو پھر اسے ایک بار ہی کھول دوں کیا حرج ہے ۔یوں بار بار غیرت اور شرم کو پینا تو نہیں پڑے گا ۔اور میں جس کی غیرت تھی جب اس نے ہی مجھے ننگا کر دیا تو کیا فرق پڑتا ہے‘‘پھر وہ چپ چاپ وہاں سے چلی گئی پرمجھے میرے اندر کی ڈھیروں ندامتوں میں گاڑ گئی۔میں کتنی ہی دیر وہاں کھڑی اپنے آنسو ٹشو پیپر میں جزب کرتی رہی ۔دل میں آرہا تھا کہ دھاڑیں مار مار کے روؤں ۔بہت سی کہانیاں ہیں عورت کی بے حرمتی کی ۔اور ہر کہانی میں اس کے رستے ہوئے زخم ۔
میں نے شدت سے سوچا کہ مرد اپنی غیرت تو بچا لیتا ہے لیکن عورت کی عزت کا کیا؟۔آپ بور تو نہیں ہوئے ۔اگر واقعی بور ہوئے ہیں تو میں معافی چاہتی ہوں ۔لیکن مجھے دو سوال اس دن سے چین سے نہیں بیٹھنے دے رہے۔ایک یہ کہ کیا یہ بھی غیرت کا ہی معاملہ ہے۔اور دوسرا یہ کہ اس میں سزا کا حکم کون دے گا جب کہ وہ عورت اس مرد کے خلاف کوئی مقدمہ ہی نہیں کرنا چاہتی ۔ آپ کیا کہتے ہیں کیا یہ بھی غیرت کے نام کا قتل ہی ہے کہ جس قتل کا شکار وہ عورت روز ہوتی ہے ؟کونسا قتل ذیادہ بھیانک ہے وہ کہ جس میں ایک بار ہی میں جان چلی جائے یا وہ جس میں روز جان ملے روز جان جائے۔۔۔۔۔۔اور کیا اس عورت کے مجرم کو سزا ہو سکتی ہے ؟ذیادہ بڑا مجرم کون ہو گا کیا وہ جس نے تیزاب گرایا یا وہ معاشرہ جس نے اس کی عزت کی چادر نوچی ۔لیکن وہ اپنے مجرموں کے خلاف مقدمہ کیسے کرے پیسہ کہاں سے آئے گواہیاں کون لائے ۔۔۔ وہ تو اپنے بچے کے دودھ کے لئے بھی اپنے زخموں کا سودا کر رہی ہے۔ پھر اس معاشرے کے معیار مرد کی غیرت اور عورت کی عزت کے لئے بہت الگ ہیں۔ غیرت کو للکارو تو سزا موت اور عورت کی عزت ۔۔۔۔وہ تو اتنی اہم ہے ہی نہیں ۔۔۔اور وہ اکیلی کیسے ثابت کرے گی کہ عورت کی بھی عزت ہوتی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔اس لئے یہی ٹھیک ہے کہ وہ مرد کی غیرت کا جنازہ روز اسی طرح سڑکوں پر بھٹکتی پھرتی نکالتی رہے۔۔۔۔۔