(عرفان جاوید)
ایک شام جب آسمان پر روشنی اپنا عکس ڈالتی تھی اور فضا میں پرندوں کا شور معمول سے کچھ بڑھ کر تھا کہ تارڑ صاحب نے محبت کے حوالے سے قصوں کی پنڈاری کھولی۔
’’تمہیں معلوم تو ہے کہ میں نے شمالی علاقہ جات اور پہاڑی علاقوں کا چپہ چپہ چھان مارا ہے۔‘‘
کچھ توقف کے بعد بولے
’’ایک مرتبہ میں سفر میں تھا۔ میں اتفاق سے جس جیپ میں سوار تھا غالباً اس میں کوئی خرابی پیدا ہوگئی یا پھر ہم کچھ دیر کے لیے سستانے کے لیے گلگت کے قریب ایک جگہ رُک گئے۔ وہاں ہیبت ناک پہاڑوں کے بیچ میں گونجتے سناٹے میں کوئی آواز مخل ہوتی تھی تو سرکتی ہوا کی آواز تھی۔ اُس زوال کے وقت دھوپ کی تمازت اپنے ساتھ روشنی کو بھی مدھم کرتی تھی اور دھوپ پہاڑوں کے قدموں سے ان کی چوٹیوں کی جانب سفر کررہی تھی۔ ہم کسی ٹھیٹھ پنجابی دیہاتی لڑکی کی چوٹی کی طرح گتھی، گندھی اور لمبی سیاہ سڑک پر ٹیک لگائے سستا رہے تھے کہ وہاں کے ایک مقامی شخص نے میرے سامنے ایک کچے دھول اڑاتے رستے کی طرف اشارہ کرکے ایک عجیب کہانی سنائی۔‘‘
اب میں پوری طرح کہانی میں کھویا ہوا تھا۔
’’یہ اُس دور کی بات ہے جب پاکستانی فوج شاہراہ ریشم کی تعمیر پر کام کررہی تھی۔ کام جاں گسل تھا اور جذبہ جوان۔ اس سڑک کی تعمیر میں بے شمار جوانوں کا لہو شامل ہے۔ ایک ٹیم کی قیادت ایک کپتان کررہا تھا۔ اوپر جلتے توے جیسا سورج اور نیچے سلگتے سنگلاخ پہاڑ۔ ایک روز مشقت سے نڈھال اور پیاس سے بے حال ٹیم جب نیم جان ہوگئی اور پینے کا پانی ختم ہوگیا تو پانی کی تلاش میں کپتان چند ایک ساتھیوں کے ہمراہ زیر تعمیر سڑک سے کافی دُور چلاگیا ۔ وہاں پانی کا ایک ذخیرہ تھا جہاں گردو نواح سے لوگ پانی بھرنے آتے تھے۔ اس ذخیرے کو دیکھ کر کپتان اور ریکی ٹیم خوشی سے سرشار ہوگئے۔‘‘
یہاں پہنچ کر تارڑ صاحب نے الفریڈ ہچکاک کی طرح‘ بامعنی توقف کیا اور بولے۔
’’اُسی مقام پر محبت کی ایک لازوال داستان نے جنم لیا۔ یہ مکمل طور پر سچا واقعہ ہے۔ وہاں قریبی آبادی کی چند لڑکیاں پانی بھرنے آئی ہوئی تھیں ۔ کپتان اور اس کے ساتھی ان لڑکیوں کے جانے کے انتظار میں ایک جانب کھڑے ہوگئے۔ جب لڑکیاں لوٹنے لگیں تو ایک لڑکی کی نظروں سے ناگاہ کپتان کی نظریں چار ہوئیں۔قدرت کی تمام تر رعنائیاں اس حسن بلاخیز میں مجسم تھیں۔ دمکتے چہرے پر نظر نہ ٹھہرتی تھی اور اس کی جھلملاتی نیلی آنکھوں سے پھوٹتی وحشی شعائیں سحر پھونکتی تھیں۔ ماڈل ٹاؤن لاہور ، جو ابھی متمول خاندانوں کی آماجگاہ تھا، کا پروردہ کپتان اس کے دام میں ایسا اسیر ہوا کہ روزانہ وہاں آنے لگا۔ چند روز بعد اس نے بلاتعارف اس لڑکی سے شادی کا ارادہ باندھا اور اپنے انچارج کرنل کو اس فیصلے سے آگاہ کیا۔ جہاندیدہ کرنل نے اسے اس فیصلے پر نظرثانی کرنے کی لاحاصل سعی کی اور بالآخر اس کا ساتھ دینے کا عندیہ دے دیا۔‘‘
تارڑ صاحب مزے سے کہانی سنارہے تھے۔
’’اب یہاں ایک فلمی موڑ آتا ہے۔ لڑکی کا گاؤں زیر تعمیر مرکزی شاہراہ سے کافی ہٹ کے تھا۔ جب کپتان اور کرنل رشتہ لینے لڑکی کے گھر پہنچے تو اس کے چچا نے ایک شرط رکھ دی۔ شرط یہ تھی کہ مرکزی شاہراہ کو گاؤں سے ملایا جائے تاکہ مریضوں، ضرورت مندوں اور مسافروں کو آمدورفت میں آسانی رہے۔ اب شاہراہ کا بنیادی پلان تبدیل نہ ہوسکتا تھا۔ چنانچہ کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اس گاؤں کو ایک ذیلی سڑک کے ذریعے مرکزی شاہراہ سے ملادیا جائے۔ کپتان کے ساتھیوں نے اسے اپنی بھرپور مدد کا یقین دلایا۔ شام کو جب عملہ اپنے سرکاری کام سے فارغ ہوجاتا تو کپتان کے ساتھی اس ذیلی سڑک کی تعمیر میں جت جاتے۔ کپتان کبھی خود اپنے ہاتھوں سے مزدوری کرتا اور کبھی اپنی زیر نگرانی رستہ ہموار کراتا۔ یہاں تک کہ کئی ہفتوں کی ان تھک محنت کے بعد ذیلی سڑک قابل استعمال حالت میں معرضِ وجود میں آگئی۔ اب وعدے کے مطابق کپتان کی اس لڑکی سے شادی کردی گئی۔شادی کے بعد کپتان نے اپنی بیوی کو لیا اور لاہور میں اپنے گھر کا رخ کیا۔ گھر پہنچ کر اس نے جب اپنی شادی کی اطلاع اہل خانہ کو دی تو سب سناٹے میں آگئے۔ اس کے والدین نے اس رشتے کو ماننے سے انکار کردیا۔ لیکن جب ان کا سامنا دلہن سے ہوا تو اس کے خیرہ کن حسن کی تاب نہ لاکر انہوں نے آمادگی کا اظہار کردیا۔ ’پاکستان ٹائمز‘ ایوب دور میں انگریزی کا سب سے اہم او رمعیاری اخبار مانا جاتا تھا۔‘‘
پاکستان ٹائمر کے بے موقع تذکرے پر میں تذبذب میں پڑگیا ۔ مجھے الجھن میں دیکھ کر تارڑ صاحب گویا ہوئے :
’’والدین کو آمادہ کرکے نیا نویلا شادی شدہ جوڑا ہنی مون کے لیے مری کی جانب روانہ ہوا اور جی۔ٹی روڈ پر ایک ٹرک سے حادثے میں مارا گیا۔ ان کی محبت ،شادی اور المناک موت کی خبر پاکستان ٹائمز نے نمایاں سرخی کے ساتھ پہلے صفحے پر شائع کی تھی۔‘‘
بات مکمل ہونے پر میں نے تاسف سے گہری سانس لی تو تارڑ صاحب بولے
’’بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔‘‘
میں نے انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ گویا ہوئے
’’ہم جہاں سستانے کو بیٹھے تھے اس کے سامنے والی سڑک ’عاشق سڑک‘ کے نام سے آج بھی مشہور ہے اور یہ وہ سڑک ہے جو کپتان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بنائی تھی۔‘‘
تارڑ صاحب کے اندر سے قصوں کا چشمہ اُبل رہا تھا۔
’’دو کردار ہیں۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ دونوں اندرون شہر لاہور میں رہتے ہیں اور محبت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی ایوب دور کا قصہ ہے۔ ابھی محبت کی شادی کو معاشرتی رسوائی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سو وہی ظالم سماج والا قصہ دہرایا جاتا ہے۔ لڑکی کے ہاں سے انکار ہوجاتا ہے۔ لڑکی اور لڑکے میں ہر قسم کا رابطہ ختم کردیا جاتا ہے اور ان کی کسی بھی طور ملاقات کو بعیداز امکان بنادیا جاتا ہے۔ لڑکی گھروالوں کو فیصلہ سنادیتی ہے کہ یا تو وہ اسی لڑکے سے بیاہ کرے گی یا پھر کنواری رہے گی۔گھر والے بھی ہٹ پر قائم رہتے ہیں۔ کئی برس بیت جاتے ہیں۔ لڑکی کے سبھی چھوٹے بہن بھائی بیاہ کراپنے گھروں کو بسا لیتے ہیں۔ اس دوران لڑکی کا باپ بھی موت کے اندھے کنویں میں چھلانگ لگادیتا ہے۔ چند سال اور گزر جاتے ہیں۔ اب گھر میں لڑکی اور اس کی بوڑھی بیمارماں رہ جاتے ہیں۔ بوڑھی ماں دن رات بیٹی کے غم میں مبتلا رہنے لگتی ہے۔ اس یہ فکر دیمک کی طرح چاٹتی رہتی ہے کہ اس کے مرنے کے بعد بیٹی کا کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔ وہ بیٹی کو شادی پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔بیٹی اُسی رَٹ کو دہرادیتی ہے کہ وہ اسی لڑکے ، جو اب ایک پختہ عمر مرد بن چکا ہوگا، سے شادی کرے گی۔ ماں اسے سمجھاتی ہے کہ وہ لڑکا اب کئی بچوں کا باپ بن چکا ہوگا۔ لڑکی تیقن سے کہتی ہے کہ اس کی محبت ماں کے دودھ کی طرح کھری ہے اور اسے یقین ہے کہ وہ آج بھی اس کا انتظار کررہا ہوگا۔بالآخر ماں آمادہ ہوجاتی ہے لیکن ایک شرط رکھتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ لڑکی کو فوری شادی کرنا ہوگی کیونکہ ماں کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اور وہ اپنی بیٹی کو مرنے سے پہلے دُلہن بنتے دیکھنا چاہتی ہے۔ لڑکی کسی طرح لڑکے سے رابطے کا ذریعہ تلاش کرتی ہے اور اسے لڑکے کا فون نمبر مل جاتا ہے۔‘‘
’’تمہارا کیا اندازہ ہے‘‘ تارڑ صاحب نے مجھ سے سوال کیا ’’کہانی کیا رُخ لے گی؟‘‘
مجھے خاموش دیکھ کر ان کے اندر کا بے چین داستان گو کروٹیں بدلنے لگا
’’اس صبح لڑکی نے دل تھام کر لڑکے کا نمبر ملایا۔ دوسری جانب سے کسی مرد نے فون اٹھایا۔ وہ مرد وہی لڑکا تھا۔ دو دہائیوں کے وقفے کے بعد یہ ان دنوں کا پہلا رابطہ تھا۔ لڑکی کو اپنی محبت پر اتنا یقین تھا کہ اس نے لڑکے سے اس کی شادی کے متعلق سوال کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی اور بس یہ پوچھا کہ وہ اس کے ہاں بارات کب لاسکتا ہے۔ لڑکے نے جواب دیا ’’آج شام۔‘‘
’’اُسی شام اُن دونوں کی شادی ہوگئی‘‘ تارڑ صاحب نے قصہ سمیٹا۔
امریکی نکتہ سنج مارک ٹوئن نے جب یہ کہا تھا تو کیا یہ بصیرت افروز نہ تھا ’’سچائی فکشن سے زیادہ عجیب شے ہے۔ آخر فکشن کو قابل یقین ہونا ہوتا ہے۔‘‘
ارنسٹ ہیمنگوئے تخلیقی جمود کو توڑنے کے لیے قریہ قریہ خاک چھان کر ان میں سے کہانیوں کے بیج یوں چن لاتا تھا جیسے ابتدائی نوآبادیاتی دور میں یورپی باشندے سونے کے ذرات کی تلاش میں امریکہ کے ویرانوں پر ٹڈی دل کی طرح حملہ آور ہوتے تھے۔
بیسویں صدی کی فکشن کا فلک بوس نابغہ سمرسٹ ماہم کہانیوں کی تلاش میں مشرقی ایشیا کے جزائر کارُخ کرتا تھا۔ بلکہ اس کے ایک افسانوی مجموعے کی کہانیاں مشرقی ایشیا کی ہی کہانیاں ہیں۔
پچیس کروڑ کی تعداد میں بکنے والی کتابوں کے مصنف جیفری آرچر کی کہانیوں کی کتاب ’’اینڈ دئیر بائی ہینگز اے ٹیل‘‘ کی سبھی کہانیاں اس کی سفری داستانیں ہیں۔ اور سبھی حقیقی!
تارڑ کہانیوں کی تلاش میں پہاڑوں کا رُخ کرتا ہے اور وہاں سے ایسے ہوش رُبا اور دل پذیر واقعات گٹھڑی میں باندھ کر لاتا ہے جو زندگی کے متنوع رنگوں کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو اس کی زودنویسی پر حیران ہوتے ہیں نہیں جانتے کہ اس کی زنبیل میں ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ اس کی زندگی میں آنے والی طرح دار نازنینوں کی طرح حیران کُن۔
وہ کُن کہتا ہے اور حیران کرتا ہے۔
بے چین پانیوں، ازل سے منجمد برفوں، کنوارے جنگلوں، وحشی ہواؤں اور برہنہ پتھروں سے ایک کہانی اور پھوٹتی ہے۔ ترچ میر سے وابستہ کہانی۔ اس کہانی سے آگے نامعلوم کا وہ پیچدار رستہ ہے جس پر چلنے والے سودائی ، گیانی کہلائے۔
تارڑ کی آواز پھر گونجی، پردہ حیرت پھر چاک ہوا اور اُدھر کامنظر جاگا
’’پہاڑوں کے سامنے تین نقطے ابھرے اور پہاڑوں کی جانب بڑھنے لگے۔ جب وہ قریب آئے تو ان کی ہیئت واضح ہونے لگی۔ ان میں ایک بوڑھا شخص تھا ساتھ میں جوان لڑکا اور لڑکی تھے۔ لڑکی دھیرے دھیرے چلتی تھی۔ کچھ آگے بڑھ کر بوڑھا اور جوان چند لمحوں کے لیے رُک جاتے تاکہ لڑکی ان کو آلے۔ پھر تینوں چلنے لگتے۔ تھوڑی دیر کے بعد لڑکی کی ہمت جواب دے گئی او ر وہ سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ ایک بڑے سے ملائم پتھر پر بیٹھ کر سستانے لگی۔ اس کے دونوں ساتھی پریشانی میں آپس میں باتیں کرنے لگے۔ بالآخر جوان آگے بڑھ گیا اور اِدھر اُدھر ٹٹولتی نظروں سے دیکھنے لگا ۔اسی تلاش کے دوران اس کی نظر ایک خیمے پر جاپڑی۔ خیمے میں فوج کا ایک بوڑھا صوبیدار چولہے پر المونیم کی سیاہ ہوتی پتیلی میں کچھ پکانے میں مصروف تھا۔ جوان نے صوبیدار سے اپنا تعارف کروایا۔ وہ جوان اور اس کے ساتھی ہسپانوی تھے اور اسپین سے سفر کرتے ہوئے ترچ میر پہاڑ کی چوٹی سر کرنے آئے تھے۔ پہاڑی سلسلے کے راستے میں لڑکی کی طبیعت خراب ہوگئی تھی اور اسے بخار نے آلیا تھا۔ اب نقاہت کے مارے لڑکی سے آگے بڑھا نہ جارہا تھا۔ ہسپانوی جوان نے بوڑھے صوبیدار کو بتایا کہ چونکہ وہ لوگ کئی سالوں کی جمع پونچی کے ساتھ اس مہم پر نکلے تھے اس لیے واپس لوٹنا انہیں گوارانہ تھا۔ اس نے صوبیدار سے استدعا کی کہ وہ لڑکی کو اپنے خیمے میں جگہ دے دے۔ واپسی پر وہ جوان جو لڑکی کا منگیتر تھا اور بوڑھا جو لڑکی کا باپ تھا، اس لڑکی کو لے لیں گے۔
کافی سوچ بچار کے بعد بوڑھے صوبیدار نے ہامی بھرلی۔ اب لڑکی کو خیمے میں چھوڑ کر اس کا باپ او رمنگیتر ترچ میر چوٹی کو سر کرنے چل دیئے۔ صوبیدار نے لڑکی کو چارپائی پر لٹایا اور خود نیچے زمین پر بچھونا بچھا کر اس پر لیٹ گیا۔ رات گئے لڑکی کی حالت غیر ہونے لگی اور اس پر سرسامی کیفیت طاری ہوگئی۔ اس نے بوڑھے صوبیدار سے درخواست کی کہ وہ اس کے ساتھ بستر میں آجائے۔‘‘
تارڑ کی آواز میں داستان گوؤں سے مخصوص ایسا زیروبم تھا جو مخاطب کو متجسس رہنے پر مجبور کرتا ہے۔
’’صوبیدار جوان لڑکی کے ساتھ اس کے بستر میں آگیا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’یہاں بھی انسانی نفسیات کی مختلف جہتوں کی کئی گرہیں کھلتی ہیں۔‘‘ تارڑ صاحب نے جواب دیا اور بات بڑھائی۔
’’جب بوڑھا صوبیدار اس لڑکی کے ساتھ آلیٹاتو لڑکی اس سے لپٹ گئی۔ لڑکی نے صوبیدار کو بتایا کہ اس طرح اس کا احساس تنہائی کم ہوا ہے اور اسے حوصلہ ملا ہے۔ صوبیدار نے شفقت سے لڑکی کا جسم تھپتھپایا۔ لڑکی رات بھر مدہوشی اور نیم ہوشی کی کیفیات میں ہلکورے لیتی رہی۔ کبھی وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولنے لگتی اور بیشتر گفتگو وہ ہسپانوی میں کرتی رہی۔ اس نے اپنے گھر ، شہر اور ماں کی باتیں بتائیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے منگیترسے بہت پیار کرتی ہے اور جلد ہی وہ شادی کرلیں گے۔ آہستہ آہستہ اس پر غنودگی طاری ہونے لگی۔ اور صبح تک وہ مرگئی۔‘‘
اب ہمارے درمیان ایک پُرمعانی خاموشی معلق ہوگئی۔
’’جب صوبیدار کی سمجھ میں کچھ اور نہ آیاتو اس نے لڑکی کی لاش کو اس کے سلیپنگ بیگ میں ڈالا اور کاندھے پر ڈال اس کے منگیتر اور باپ کی تلاش میں چل دیا۔ تھوڑی ہی دُور اسے لڑکی کا باپ او رمنگیتر سامنے سے آتے دکھائی دیئے ۔ صوبیدار کو دیکھ کر وہ دُور سے خوشی میں نعرے لگانے لگے کہ وہ چوٹی کو سر کرآئے ہیں۔ جب وہ قریب آئے اور ان پر حقیقت آشکار ہوئی تو وہ فرط غم میں گریہ کرنے لگے۔ روتے پیٹتے جب وہ نڈھال ہوگئے تو انہوں نے مردہ لڑکی کو دفنانے کی جانب توجہ کی۔ نیچے ترچ گاؤں میں ایک پہاڑی نالے کے ساتھ ایک چھوٹا سا قبرستان تھا۔ وہ کوئی باقاعدہ قبرستان نہ تھا بلکہ ایک چٹیل میدان میں پہاڑی پتھروں کے بیچ میں قبریں کھود کر ان میں مردوں کو دفنا کر ان پر بھر بھری مٹی اور روڑے پتھر ڈال کر انہیں برابر کردیا جاتا۔ تعویز کی جگہ مختلف نوعیت کے پتھر بطور نشانی کھڑے کردیئے جاتے۔ ہیبت ناک پہاڑوں کے بیچ ہولناک سناٹے میں موجود یہ پُروحشت جگہ رات کو پہاڑی نالے کے پُرشور پانیوں میں عجیب یاسیت کی علامت بن جاتی۔ بس اسی جگہ لڑکی کو ایک تابوت میں دفناکر وہ دونوں مرد گریہ و زاری کرتے وہاں سے لوٹ گئے۔ کچھ ہی عرصے میں ترچ گاؤں کے قبرستان میں ایک یورپی لڑکی کی قبر باقی قبروں میں یوں رَل مِل گئی کہ وہاں کے لوگ اس واقعے کو بھول گئے۔‘‘
’’واقعی بہت دلگیر قصہ تھا۔‘‘ میں نے تارڑ صاحب کی بات میں اپنی بات ملائی۔
اس پر تارڑ صاحب کے اندر موجود مشاق قصہ گو نے انگڑائی لی اور انہوں نے کہا
’’حیران کن بات تو اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔‘‘
میری آنکھوں میں حیرت اور چہرے پر تجسس پڑھتے ہوئے وہ گویا ہوئے
’’اس واقعے کو کئی برس گزرگئے۔ وہاں کے مقامی لوگ اس حادثے کو بھول گئے۔ ایک روز ایک یورپین بُڑھیا وہاں آئی اور اس صوبیدار کا پوچھنے لگی۔ وہ صوبیدار اب ریٹائر ہوکر وہیں قیام پذیر تھا۔ جب ان دونوں کی ملاقات ہوئی تو بڑھیا کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ اس نے صوبیدار کو بتایا کہ وہ اس ہسپانوی لڑکی کی ماں تھی اور اس کو لینے آئی تھی۔ اس نے صوبیدار کو بتایا کر وہ لڑکی اسے بے حد عزیز تھی اور جب اس کی موت کی خبر وہاں ماں تک پہنچی تو وہ بے حال ہوگئی۔ غریب عورت تھی۔ ایک فیکٹری میں ملازمت کرلی اور کئی برس کی محنت کے بعد اتنی رقم پس انداز کرنے میں کامیاب ہوگئی کہ پاکستان آنے کا اور بیٹی کا تابوت لے جانے کا انتظام کرسکے۔‘‘
یہاں پہنچ کر تارڑ صاحب نے سوگ میں نہائی آواز میں بات ختم کی
’’جب ترچ گاؤں کے اس صوبیدار نے مجھے یہ واقعہ سنایا تو اس کی آنکھیں یہ بتاتے ہوئے بھیگ گئیں کہ ماں جب بیٹی کا تابوت ساتھ لیے جارہی تھی تو اس نے تشکر بھرے مطمئن لہجے میں فقط اتنا کہا تھا کہ کم ازکم اب اس کی بیٹی ماں کے قریب تو ہوگی۔‘‘
عام انسانی زندگی میں توجیہ اور دلیل سے ماورا واقعات سن کر اور دیکھ کر انسان تحیر میں مبتلا نہ ہو تو اپنے فہم کو مطمئن کرنے کا کیا سامان کرے۔
بڑا ادیب اپنے زمانے کے بارے میں لکھتا ہے۔ اسی لیے تاریخی ناول لکھنے والے یا دیومالائی طلسماتی قصے تخلیق کرنے والے بہرحال ادب کی صف دوم میں ہی جگہ پاتے ہیں۔ جارج برنارڈ شا جیسا ذہین ڈرامہ نگار اور حاضر جواب و بذلہ سنج تخلیق کار جب یہ کہتا ہے ’’وہ شخص جو اپنے بارے میں اور اپنے دور کے بارے میں لکھتا ہے درحقیقت سب لوگوں کے بارے میں اور سب زمانوں کے بارے میں لکھتا ہے ’’تو اس کی پُروزن بات کو آسانی سے جھٹلانا ممکن نہیں۔ تارڑ نے جو کچھ بھی لکھا اس میں ان کا دور اور اس دور سے متعلق کردار یوں صحیح بیٹھتے ہیں جیسے ایک جگ ساپزل کے ٹکڑے۔ چند استثنیات ہیں لیکن ان کی ٹھوس وجوہات ہیں۔
اس کے سفر ناموں کے کردار، ناولوں کے لوکیل اور تحریروں میں رقم زمانے سب اس کے اپنے ہیں۔ یہ بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی متفرق معاشرت کی پچی کاری جس طرح تارڑ نے اپنی تحریروں میں کی ہے کسی اور پاکستانی ادیب نے نہیں کی۔ اس کے سفرناموں کے شمالی علاقہ جات اور پشتون علاقے، خس و خاشاک زمانے کا پنجاب، ’راکھ‘ کا لاہور، کراچی اور لاہور کے گردونواح، ’ڈاکیا اور جولاہا، کا جنوبی پنجاب، ’بہاؤ‘ کا سرسوتی اور چولستان، سفر گردی کے احوال میں بلوچستان سے ایران کا راستہ ہو یا گندھارا تہذیب، کالموں میں سندھو سائیں کے کردار ہوں یا ’قربتِ مرگ میں محبت‘ کا پوٹھوہار اور پنڈی اور مری کو جوڑتا لوکیل، سب تارڑ کے تیار کردہ متنجن میں بہار دکھاتے ہیں۔
یقیناًتارڑ پاکستان ہے۔
مجھے تارڑ کی دو باتیں حیران کرتی ہیں۔ حیران تو اور بھی بہت سی باتیں کرتی ہیں مگر دو باتیں زیادہ حیران کرتی ہیں۔
ایک تخلیق کار جب تنہائی میں کوئی شکاہکار تخلیق کرتا ہے تو اسے اپنی ذات کی سرنگ اترنا پڑتا ہے۔ ایسے میں ایک انترہوت اُداسی، اس کا گھیراؤ کرلیتی ہے۔ فرانز کافکا کے الفاظ میں ’’لامحدود تنہائی، ذات کے اندھے پاتال میں اُترجانے‘‘ کے مترادف تنہائی کے وہ لمحات جب اس کے ہاتھ میں قلم ہوتا ہے، اس کی سنجیدگی کے سلیٹی رنگ کو سیاہ کرتا ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ہزاروں خالی صفحات میں رنگ بھرنے والا تارڑ اپنے مزاج کی شوخی اور انداز کی برجستگی کو برقرار رکھے ہے۔ اتنی شدید تنہائی تو اپنے یخ پانیوں میں کئی وجودوں کو جماسکتی ہے۔
عام زندگی میں بہت نارمل اور بے تکلف تارڑ اپنے ماحول کی جزئیات پر ایسی گہری نظر رکھتا ہے جیسی چوٹی پر بیٹھا ایک عقاب وادی میں بہتے دریا کے کنارے بیٹھے شکار پر رکھتا ہے۔ اگر ماحولیاتی جزئیات تک بات محدود ہو تو بھی قابل فہم ہے مگر انسانی نفسیات کے گورکھ الجھاوؤں میں بھٹکتے پراسرار عوامل کو احاطہ فہم میں لے آنا اسی کا کمال ہے۔
گرمیوں کی ایک شِکر دوپہر کو ہم ایک ریستوران کے خنک نیم تاریک گوشے میں بیٹھے ٹھنڈے مشروبات سے لُطف اندوز ہورہے تھے۔دوپہر سہہ پہر میں تبدیل ہورہی تھی اور ریستوران میں لوگوں کارش کا فی گھٹ گیا تھا۔ گپ شپ کے دوران کہنے لگے کہ ہرحال میں شکر ادا کرنے کی تلقین کرنے والے بنیادی انسانی نفسیات سے ناواقف ٹھہرتے ہیں۔ اسی حوالے سے ایک واقعہ سنایا کہ کس طرح ایک عورت کا اکلوتا جوان بیٹا راہ اجل پر چلاگیا۔ جب پرسہ دینے والوں نے اسے کہا کہ وہ صبروشکر کرے تو ماں نے خونخوار نگاہوں سے ایسے رسمی پرسہ داروں کی جانب دیکھا اور بولی ’’صبر تو شائد کرلوں مگر شکر نہیں۔‘‘
اسی طرح بات ان خواتین کی جانب چل نکلی جو رشتہ ء جسم و جان قائم رکھنے کے لیے جسم کا رستہ اختیار کرتی ہیں۔ میرا موقف تھا کہ یہ بہرحال ایک حقیقت ہے اور غربت اور دیگر معاشرتی عوامل کی وجہ سے اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگر اس صورت حال کا سدباب نہیں ہوسکتا، پھر کیا بنیادی انسانی جبلت کے خلاف اس کا سدباب جو دیگر معاشرتی منفی عوامل کی نمووپرداخت کرسکتا ہے ، کے پیش نظر اس کو تسلیم کرلینا قرین فہم نہیں۔ اس ملک میں جہاں جانوروں کے حقوق ہیں، کتابوں میں سہی، وہاں ایسی خواتین کو کسی نوعیت کا تحفظ دینا تو کجا ان کو تسلیم نہ کرنا کیا بالائے فہم نہیں۔ بات اس موضوع کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہوئی جب اس غیر انسانی سلوک کی جانب چلی گئی جس کا ان خواتین کو کبھی سامنا کرنا پڑتا ہے تو تارڑ صاحب نے حسب عادت بجھے سگریٹ کو کیس میں واپس رکھا اور سمجھانے کے انداز میں گویا ہوئے۔
’’دیکھو تمہاری بات نصابی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی ہر عورت کو بُرے سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ عموماً ایسی عورتوں کو غیر انسانی سلوک کاسامنا نہیں کرنا پڑتا جو ایک باقاعدہ منظم گینگ کا حصہ ہوں کیونکہ انہیں اپنی پشت پر کافی سہارا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس عام چلتی پھرتی سڑک پر کھڑی ایسی عورتیں زیادہ تشدد کا سامنا کرتی ہیں کیونکہ ان سے استفادہ کرنے والا انہیں بے سہارا جان کر اپنی تمام تشنہ خواہشات ان سے پوری کرنا چاہتا ہے۔ ایسے میں ان کا وحشی مردوں سے بھی پالا پڑجاتا ہے۔‘‘
انہوں نے زور دے کر کہا
’’اگر اس موضوع کو فکشن میں استعمال کیا جائے تو تشدد سہارنے والی عورتوں کی بہ نسبت جبر کرنے والے مرد زیادہ طاقتور موضوع بن سکتے ہیں۔ عام طور پر جنسی طور پر کمزور یا غیر فعال مرد اپنی مایوسی کا انتقام تشدد کی شکل میں لیتے ہیں۔ ان کا نفسیاتی تجزیہ زیادہ کارآمد موضوع ہوسکتا ہے۔‘‘
جب میں نے ان سے پوچھا کہ ایک صدی پہلے پیدا ہونے والا منٹو اس بنیادی انسانی جبلت پر اتنا لکھ گیا تو آج کا ادیب کیونکر اس موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے ٹھٹھک جاتا ہے تو انہوں نے معاشرتی عوامل کے ادیب پر طاقت ور اثر کو اس کی بنیادی وجہ قرار دیا۔
مستنصر حسین تارڑ کی باتیں (حصہ دوم)
(جاری ہے)