(شیبا اکرم)
ماضی بھی کیا عجیب زمانہ ہے کہ بعض اوقات یہ ماضی بنتا ہی نہیں اور اپنے اند ر کے جہنم میں حال اور مستقبل کو بھر کر بھی سیر نہیں ہوتا۔ یوں دندناتا پھرتا ہے کہ حال بے حال اور مستقبل خود کو ’’غیر استقبالیہ‘‘ نگاہوں سے ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ کہنے والے نے کہا کہ ’’معاف کرنا، ماضی کو ماضی میں رکھنا ہے۔ لیکن معاف کیجئے گا ہم معافی دینے میں اتنے کشادہ دل ہیں کہ اس کام کو کبھی کل (گزرے ہوئے) پر نہیں چھوڑتے بلکہ ہر آنے والے کل کے لیے پھر سے معاف کر نے کے لیے تیار رہتے ہیں؛ اور غلطی کرنے والے شخص کو ایک بار پھر اس کی اوقات یاد کراتے ہیں تا کہ وہ معافی مانگے اور ہم معاف کر کے بڑے ہونے کا ثبوت دے سکیں۔
غلطی کرنے والے کے لیے معافی کا عمل پریم چند کے افسانے ’’سوا سیر گیہوں‘‘ جیسا ہے جس کا قرض اتارتے عمر کی نقدی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن سوا سیر گیہوں کاقرض نہیں ختم ہوتا۔ تو پھر ذرا نگاہ دوڑائیے اور دیکھیے کہ کتنے لوگ ماضی کی میت سر پہ اٹھائے دفن کرنے کی جگہ ڈھونڈتے ہیں۔ لیکن جس کے پاس وہ جگہ ہے وہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ تو پھر ماضی کا یہ سلسلہ کبھی ماضی بن ہی نہیں پاتا۔ کسی نے کہا تھا کہ سگریٹ چھوڑنا کون سی مشکل بات ہے، میں ایک دن میں کئی بار یہ کام کرتا ہوں۔ شاید معاف کرنا بھی بہت آسان ہے، اور ہم بھی دن میں کئی بار ایک ہی شخص کو اس کی ایک ہی خطا پہ معاف کرتے رہتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ معافی مانگنا، معاف کرنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک بندہ مشکل کام کرکے دوسرے کے آسان کام کو مشکل کر دیتا ہے لیکن یوں بھی تو ہوتا ہے کہ ایک صاحب نے ابھی معافی مانگی اور دوسری طرف سے فورا عام معافی کا اعلان ہو گیا اور پھر اس عام معافی کی گونج کبھی رکنے کا نام ہی نہیں لیتی؛ اور ہم فطرتا کتنے حلیم الطبع واقع ہوئے ہیں کہ اس شخص کو پھر اپنے سب جاننے والوں کے سامنے معاف کرتے رہتے ہیں اور معافی در معافی کا فیض عام جاری رہتا ہے ، اور اس بیچارے کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ اس معافی کی گونج کس کس کو سنائی دی۔
کتنی حیرت کی بات ہے کہ بعض اوقات معافی مانگنے والے کے پاس پوری دنیا ہوتی ہے اور بقول ساحر لدھیانوی ’’تیرے ہاتھوں میں میرے ہاتھ ہیں زنجیر نہیں‘‘ کی سی کیفیت ہے لیکن کیسے بہادر ہوتے ہیں وہ لوگ جو تعلق کو زنجیر سمجھ کے دوسرے کی معافی کا طوق گلے میں لٹکائے اس فرمانبردار اونٹ کی طر ح چلتے رہتے ہیں جسے خبر نہیں ہوتی کہ اس کے نکیل کی رسی کو پکڑنے والا اسے کہاں لے جائے گا۔ لیکن شاید اس کے لیے اس ’رسی ‘کو پکڑنے والا اتنا قابل احترام بن جاتا ہے۔ یہاں مجھے انٹونیو پورشیا کی وہ بات یا د آگئی کہ ’’جس شخص نے مجھے کچے دھاگے سے باندھا ہوا ہے، وہ مضبوط نہیں ہے بلکہ کچا دھاگا مضبوط ہے‘‘۔ یعنی معافی مانگنے والے سے بڑا شعبدہ باز کون ہو سکتا ہے جو کچے دھاگے کو بھی آہنی زنجیر بنانے کا فن جانتا ہے۔
آپ کو اختیار ہے کہ آپ غلطی کرنے والے کو معاف نہ کریں، اس پہ فرد جرم عائد کریں اور اپنی عدالت لگا کے اس کو سزا بھی دے دیں۔ یوں شاید وہ شخص دوبارہ بھول کے بھی وہ غلطی نہ کرے کیوں کہ اگر وہ واقعی ذی شعور ہوا تو اس ناقابل معافی غلطی سے سبق ضرور سیکھے گا۔ لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کسی کو باعزت بری کرنے کا فیصلہ کر کے اسے تاحیات بے عزت کرنے کی سزا بھی سنا دی جائے۔ یہ کیسی منطق ہے کہ جن غلطیوں پہ ہم نے خود کو بغیر کوئی تعزیر لگائے معاف کیا ہوتا ہے ان غلطیوں پہ دوسروں کو کبھی معافی کا مستحق نہیں سمجھتے۔
ایک زندہ آدمی کی نسبت مردہ کو معاف کرنے کے لئے ترجیح دینا ہمارامعا شرتی رویہ بن چکا ہے۔ اس عمل کی گونج غالب کے ہاں یوں سنائی دیتی ہے،’’ہائے اس زودپشیماں کا پشیماں ہونا‘‘ اورمومن کچھ اس طرح آہ بھرتے ہیں،’’تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے؟‘‘ مومن بھی کتنے معصوم ہیں کہ سمجھتے ہیں۔
معافی’’زندگی‘‘میں بھی ملتی ہے، ارے نہیں نہیں، معافی لینی ہے تو میت بنئے صاحب، پھر دیکھئے زودپشیمانی، لیکن تب آدمی دیکھنے کے لیے رہتا ہی کب ہے۔ پھر ہمیں پاؤلوکوئلو کے اس جملے کی بازگشت کیسے سنائی دے جو کہتاہے،’’یادرکھنا، مرنے سے’’پہلے‘‘ بھی ایک ’زندگی‘ ہے‘‘ پر جیتے جی زندہ در گور کردینے والے کو مرنے کے بعد کی زندگی ہی نظرآتی ہے۔ سو ہم معافی کاعمل اسی زندگی کاحق سمجھتے ہیں لیکن حق تویوں ہے کہ حق ادانہ ہوا۔
سلویاپاتھ اپنی نظم Lady Lazarus میں یوں چلائی،’’مرنا۔۔ ایک آرٹ ہے، ہر دوسری چیز کی طرح۔۔ میں اسے کمال مہارت سے ادا کرتی ہوں۔‘‘ لیکن اس کے نزدیک مرنے کے بعد واپس لوٹ آنے کا عمل انتہائی تکلیف دہ عمل ہے اور اس عمل کو لوگ ’’معجزہ‘‘ کہتے ہیں۔ معاف کرنا بھی تو ایک آرٹ ہے اور ہم سب کیسی مہارت سے اس آرٹ کو پرفارم کرتے ہیں لیکن اس کے بعد کاعمل یعنی معاف کرکے ماضی کو حال اور مستقبل کو بھی ماضی کی خوراک بن جانے سے روکنے کے عمل سے ہم اتنے نابلد ہیں کہ ہم سے یہ ’’معجزہ‘‘ ہوتا ہی نہیں اسی لیے حال اورمستقبل میں بھی ماضی ہی دندناتا پھرتا ہے۔