( حیدرسید)
ملک کے سرکاری ہسپتال ڈاکٹرز کی کمی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری ہسپتال ڈاکٹرز سے اور عوام علاج سے محروم ہو رہے ہیں۔ دیگر سرکاری اداروں کی طرح شعبہ طب بھی ایک بہت بڑے بحران سے دوچار ہونے والا ہے،اگر بروقت اقدامات نا کئے گئے تو اس بحران کے نتائج قوم بھگتے گی جو پہلے ہی بہت سے مسائل سے نبردآازما ہے۔
سرکاری شفاخانوں میں مریضوں کی بڑھتی تعداد نے ڈاکٹر زکو بھی سوچبے پر مجبور کر دیا ہے کہ دوران ڈیوٹی اتنے زیادہ مریضوں کو دیکھنا نا ممکن ہے۔یہی وجہ ہے کہ بر وقت علاج کی سہولت نہ ملنے کی وجہ سے بہت سے مریض جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
پنجاب میں شعبہ طب دو طرح کے انتظامات کی زیر نگرانی چل رہا ہے۔ 14 اضلاع (رحیم یارخان۔چکوال۔وہاڑی۔لاہور۔فیصل آباد۔ساہیوال،قصور،میانوالی،لودھراں،ٹوبہ ٹیک سنگھ، حافظ آباد،پاکپتن،ڈیرہ غازی خان،راجن پور میں بنیادی مراکز صحت کا انتظام ایک این جی او پنجاب رورل سپورٹ پروگرام پی آر ایس پی کے سپرد ہے۔اور وہ گزشتہ دس برس سے اس کام کو بخوبی سر انجام دے رہی ہے۔ ان 14 اضلاع میں 1147 بنیادی مراکز صحت میں 815 پر ڈاکٹر تعینات ہیں۔ ان میں 698 ڈاکٹرز پی۔آر۔ایس پی کنٹریکٹ پر اور 117 حکومت پنجاب کے ریگولر ڈاکٹرز ہیں۔
اگر پی آر ایس پی کے 698 کنٹریکٹ ڈاکٹرز نہ ہوں تو حکومت پنجاب کے 117 ڈاکٹرز میں سے مرد ڈاکٹرز 105 اور لیڈی ڈاکٹرز صرف 12 ہیں۔ 8 اضلاع ایسے ہیں جہاں حکومت پنجاب کی طرف سے ایک بھی لیڈی ڈاکٹر متعین نہیں ہے۔ اس وقت ان 14 اضلاع کے 332 بنیادی مراکز صحت پر کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہے۔
وہ ا ضلاع جہاں صرف حکومت پنجاب انتظام سنبھالے ہوئے ہے صرف تین اضلاع کا چارٹ کچھ یوں ہے۔
ضلع کل سیٹ تعینات خالی سیٹ مرد ڈاکٹر لیڈی ڈاکٹر
بہاولنگر 101 4 12 85 16
اوکاڑہ 90 6 96
سرگودھا 57 70 127
صرف تین اضلاع کے چارٹ سے ہی حکومت پنجاب کے زیر نگرانی چلنے والے بنیادی مراکزصحت میں ڈاکٹرز کی موجودگی کا پتا چلتا ہے۔ جن مراکز صحت میں ڈاکٹرز تعینات نہیں ہیں وہاں کی عوام طبی سہولیات سے محروم رہتے ہیں یا پھر دور دراز کا سفر کر کے شہر کے سرکاری ہسپتال کا رُخ کرتے ہیں شہر کے بڑے ہسپتالوں کا حال بھی ان سے کچھ مختلف نہیں ہے۔
ڈاکٹر طاہر سراج ایک سنئیر ڈاکٹر ہیں،10 برس سے ٓاپ پی آر ایس پی کے ساتھ کنٹریکٹ پر کام کر رہے ہیں مستقبل میں ڈاکٹرز کے بحران پر کئی جگہ آواز بلند کر چکے ہیں۔ ڈاکٹرز کی کمی کے حوالے سے ڈاکٹر طاہر سراج نے بتایا کہ ’’بنیادی مراکز صحت، ڈسٹرکٹ اور ٹیچنگ ہسپتال ڈاکٹرز کی شدید کمی کے بحران سے دو چار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اگر صورتحال کو بدلنے اور روکنے ک موثر کوشش نہ کی گئی تو چند سالوں میں تباہ کن نتائج سامنے آ سکتے ہیں اور اس کے اثرات معاشرے کے مام طبقات پر پڑیں گے۔ ڈاکٹرز کی کمی کے نتیجے میں عوام الناس صحت کی سہولیات سے محروم ہوتے چلے جائیں گے۔ اور بتدریج سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی غیر معیاری ہوتی چلی جائے گی اور خطرہ اس امر کا ہے کہ یہ سرکاری ہسپتال نجی تحویل میں دے دیے جائیں گے۔
1990 کے عشرے میں ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں ہاؤس آفیسرز کام کیاکرتے تھے اور آج نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ میڈیکل آفیسرز کی نشستیں خالی ہیں۔
ڈاکٹرز کی اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے چند برس قبل پاکستان میڈیکل ڈینٹل کونسل ( پی ایم ڈی سی ) نے ابتداء میں لڑکوں اور لڑکیوں کی میڈیکل کالجز میں نشستیں برابر کر دی تھیں۔ یہ ایک انقلابی قدم تھا مگر عدالت عالیہ نے اوپن مرٹ پالیسی کے حق میں فیصلہ دے کر اس پر عمل درآمدسے روک دیا جس کے منفی اثرات سب کے سامنے ہیں۔ میں نے ملک بھر میں تقریبا چالیس سے زائد ڈاکٹرز اور کئی صحت کے اداروں کے ذمہ داران سے بات کرنے کے بعد اپنا موقف بیان کیا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان اوپن میرٹ داخلہ پالیسی کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کی ضرورت ہے کہ ہر میڈیکل کالج میں لڑکوں کے داخلے کا تناسب پچاس فیصد سے زائد رکھا جائے۔ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر آگاہی مہم چلائی جائے تا کہ مرد ڈاکٹرز کی کمی کو دورکیا جا سکے۔
ملک بھر میں بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ڈاکٹرحضرات اچھی مراعات ملنے پر دوسرے ممالک کا رُخ کر لیتے ہیں۔ ہمارا ملک جو ڈاکٹرپیدا کرتا ہے حکومت ہر ایم بی بی ایس طالب علم پر تقریبا پچیس لاکھ خرچ کرتی ہے اور جب یہ اس قا بل ہو جاتے ہیں کہ ملک کی خدمت کریں تو دوسرے ممالک کا رُخ اختیار کر لیتے ہیں جہاں اچھی مراعات مل تو جاتیں ہیں لیکن وہاں کام بھی محنت سے کرنا پڑتا ہے۔
ڈاکٹرز کو مزید مراعات دے کر ان ڈاکٹرز کو ملکی خدمت کے لئے روکا جا سکتا ہے جو باہر جانے کی خواہش دل میں لئے بیٹھے ہیں۔
پرنسپل ساہیوال میڈیکل کالج پروفیسر ڈاکٹر تنویر ظفر نے بتایا کہ ساہیوال میڈیکل کالج میں ہر سال 100 طالب علموں کو داخل کیا جاتا ہے۔ میڈیکل کالج میں اوپن میرٹ ہوتا ہے۔ طالبات کے نمبر زیادہ ہوتے ہیں اس لئے میڈیکل کالج میں 70 فیصد لڑکیاں اور 30 فیصد لٹکے میڈیکل کالج میں داخل ہوتے ہیں۔ صاکٹر بننے بعد دس سے پندرہ فیصد خواتین شادی کروا کر گھر بیٹھ جاتی ہیں یا دوسرے ممالک چلی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ مرد ڑاکٹرز کی کمی کو محسوس کیا جاتا ہے۔