کینیڈا کے دس صوبے ہیں۔ مگر کسی بھی صوبہ کے کسی فرد سے پوچھا جائے کہ تم کون ہو؟ تو وہ کہے گا میں کینیڈین ہوں۔ نہ وہ اونٹیرین کہیں گے نا البرٹین کہیں گے نہ کسی اور صوبے سے منسلک کر کے خود کو اپنی شناخت بتائیں گے۔ چائنا کے چونتیس صوبے ہیں مگر سارے کے سارے صرف چائینیز ہیں۔
امریکن صرف امریکن ہیں لیکن اگر کسی پاکستانی سے کوئی پوچھے کہ تم کون ہو تو وہ کہے گا “میں مہاجر ہوں۔ پنجابی ہوں، پٹھان ہوں۔ بلوچ ہوں، مانا کہ ہر صوبے کی معاشرتی اور تہذیبی اقدار کچھ نہ کچھ مختلف ہیں۔
سو کہاں نہیں ہیں؟ کس کی نہیں ہیں؟ لیکن نہ جانے ہم کس تربیت کے پلے بڑھے لوگ ہیں کہ یہ مختلف ہونا کینیڈا اور امریکہ کے لوگوں کی طرح مسرور ہونے اور ڈائیورسٹی کا جشن منانے کے بجائے ایک دوسرے سے دوری کاسبق سکھاتا ہے۔
لہذا سب اپنی اپنی شناخت کے جھنڈے کو ہی اونچا دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ مجھ سے جب بھی کسی پاکستانی نے پوچھا، “آپ کہاں سے ہیں” اور میں نے جواب میں کہا، “پاکستان سے تو دوسرا سوال ہوتا ہے ” لاہور سے یا کراچی سے؟”
گویا صرف پاکستانی ہونا قربت کا احساس نہیں بخشتا بلکہ میرا صوبائی اور لسانی وضاحت کرنا ضروری ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ شاید اس لیے کہ ہم قبیلوں میں بٹ کے رہنے والے لوگ ہیں۔ میرا قبیلہ، میرے عقائد، میری روایات، میری زبان کی سوچ کے ساتھ پلنے بڑھنے والے “ہم” اپنے محدود نظریات کی جانچ پڑتال کرنے سے معذور ہیں اور اسی کو طرہ امتیاز سمجھتے ہیں۔ حالانکہ دنیا کے شانہ بشانہ ترقی کی دوڑ میں سو سال سو پچھلی سے پچھلی قطار میں بھی نظر نہیں آتے لیکن لسانی، مذہبی اور صوبائی سرحدوں پر مستعد اور چاق چوبند ہیں بلکہ سب سے آگے ہیں۔ اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ کوفت والا لفظ “مہاجر” ہے۔
ایک وطن ایک قوم کا تصور لاکھوں جانوں کے نذرانے لے گیا۔ جس وطن کا خواب گھروں کو لاشوں سے پاٹ گیا۔ جس قوم کی یکجہتی اور سلامتی کا خواب خون کے دریا سے گزار گیا۔ اس زمیں کے ٹکڑے پر پہنچ کے اور اس کی خاک پر سجدہ ریز ہوتے وقت “بریلوی “لکھنوی” امروہوی” وغیرہ وغیرہ کی شناخت اپنے وجود سے کیوں نہیں اتار پھینکی ہمارے بزرگوں نے؟ حیرانی ہوتی ہے۔
ستر سال ہونے کو آئے آج تک ہجرت کرنے والے مہاجر کیوں ہیں؟ جب جب یہ سوال کیا میں نے کسی سے اس نے کہا، “ہمیں ہمیشہ حقارت سے مہاجر کہا گیا۔” چلیں فرض کریں کہ ایسا ہوا تو اس کو ایک اعزاز اور ایک شناخت سمجھ کے کلیجے سے کیوں لگا لیا ؟ احتجاج کیوں نہیں کیا؟ یہ کیوں نہیں کہا کہ ہم صرف پاکستانی ہیں۔
اور پھر اگر صوبے کی شناخت ضروری ہی ہو تو سندھی کیوں نہیں کہتے خود کو؟ یا اردو سپیکنگ سندھی کیوں نہیں کہتے؟ اپنی مادری زبان سے سب کو محبت ہوتی ہے یہ ایک حقیقت ہے سندھی کو سندھی، پنجابی کو پنجابی، بلوچی کو بلوچی زبان جیسے عزیز ہے۔
ایسے ہی اردو بولنے والوں کو اپنی زبان عزیز ہونا لازمی ہے اردو سپیکنگ سندھی کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا اور ہوا تو یہ کہ ایک مسخرے کو ایک جوکر کو اپنا لیڈر مان کے اس سچائی کو بھول گئے کہ یہ مسخرا جوکر ہمارا رہنما نہیں بلکہ بھٹائی کا محبت کا فرمان ہمارا رہنما ہے۔
شاید اس کا ایک بڑا سبب وہی ہے کہ ہم آج تک قبائلی دور میں رہ رہے ہیں۔ میرا قبیلہ، میری زبان، میری روایات کا “میں” جب محبت کی باڑھ پھلانگ کے تعصب کے دلدل میں اتر جائے تو انسان وہی بن جاتا ہے جس کا روپ آج کے پاکستان کے ٹکڑیوں میں بٹے لوگوں میں اپنی وحشت دکھا رہا ہے اور تقسیم در تقسیم پر تلا ہوا ہے۔
کیا اس سو چ کو بدلنے کی ضرورت نہیں ہے؟ Rhonda Byrne کا کہنا ہے:
“Thoughts are the most powerful lawy. Your thoughts become the things in your life, “your thoughts become things,” say it over to yourself and let it seep into your consciousness and your awareness.
یہ بات اس نے لا آف اٹریکشن کے حوالے سے طویل گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے۔ لا آف اٹریکشن یہ ہے کہ ہم جس خیال کو مسلسل دہراتے رہیں وہ ذہن میں نقش ہوکے ایک حقیقت بن جاتا ہے۔ “مہاجر” کے لفظ کی تکرار نے ہی میں سمجھتی ہوں کہ اسے شناخت بنا دیا ان کی جو بڑی قربانیاں دے کے اپنا سب کچھ لٹا کے ایک گھر ایک عقیدہ ایک ملک کی سوچ میں غرق ننگے پیر نکل کھڑے ہوئے تھے اپنے خوابوں کی سر زمیں کی طرف۔ افسوس کہ یہ سب آج تک گویا سفر میں ہیں اور مصر ہیں خود کو مہاجر کہنے پر۔
ایک “بھائی” کے جانے کے بعد دو “بھائی” کود پڑے ہیں میدان میں اپنی اپنی سیاست کی دکان چمکانے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ایک بڑا تماشا لگا ہوا ہے اور ایسے میں مہاجر کیوں؟ کی میرے ذہن میں تکرار ہے۔ کیا یہ سوال بے جا ہے؟
سماج کو قبائلی اور ماقبل جاگیرداری معاشی سماجی نظام میں رکھ کر قبیلوی(فیوڈل) ذہنیت کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا خاتمہ اور اس کی جگہ اگر سماج کی صنعتکاری ہو، اور ترقی یافتہ سرمایہ داری نظام قائم ہو تو کہیں جاکر سارے فیوڈل ویلیو سسٹم کی دھار کند ہو سکتی ہے۔ ۔۔۔
متفق شا ہ محمد صاحب
واہ نسیم سید ….بہت اچھا لکھا ….
بہترین تجزیہ ۔۔
بہت عمدہ۔ جزاءکم اللہ
نسیم جی مکرر ۔ زبردست
آپ کے خیالات سے سو فیصد اتفاق کرتا ھوں۔۔ خوب لکھا نے۔