(فہد فاروق)
چائے والے کی ہی کہانی کیوں؟ کیا چائے والے کی کہانی اس لیے سنائی جائے کہ وہ خوبصورت مرد ہے؟ ہمارے خیال میں مرد کا خوبصورت ہونا اتنی اہم بات نہیں جتنی ایک غریب چائے والے کا خوبصورت ہونا اہم ہے۔ کیا کسی غریب کا خوبصورت ہونا ہی سب کچھ ہوتا ہے؟ کیا ایک خوبصورت کسی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہو تووہ اہم ہو جاتا ہے؟
ہم اگر ان باتوں کو میڈیا کی طاقت کے ساتھ جوڑ کے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ میڈیا کسی بھی غیر اہم کو اہم بنا سکتا ہے اور پھر اہم باتوں کو غیر اہم کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتا۔
مگر آج ہمارے پاس ہے ایک اہم بات، واقعی اہم بات______ایک چائے والی کی کہانی___جو صرف خوبصورتی کی وجہ سے اہم کہانی نہیں بلکہ اپنی کہانی کے اہم ہونے سے ہے۔ پچھلے دنوں چائے والے کی ایک کلک نے ایک دکاندار چائے والے کو شہرت کی بلندیوں پہ پہنچا دیا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ دیکھیے ایک ماڈل لڑکا اپنے ٹیلنٹ سے بے پروا ایک چائے والے کھوکے پہ زندگی کے دن گزار رہا ہے۔لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اُس چائے والے لڑکے کے حسن کی تعریفیں کیں۔
ہم نے بھی جب اپنے اردگرد دیکھا تو کوئی بوٹ والا، پٹرول پمپ پہ کام کرنے والا، کوئی کاغذ اُٹھانے والی لڑکی، کوئی گھروں میں کام کرنے والی لڑکی اور کوئی رکشہ چلانے والا اسی چائے والے کی طرح حسین اور زندگی سے بھرپور نظر آئے۔ جن کے چہروں پہ میک اپ کیٹوں کی گرد نہیں تھی اور نہ اُن کے چہروں پر میڈیائی روشنیوں کا پہرہ تھا۔ کیا ہم حسن و خوبصورتی کا معیار صرف انھی ماڈلز کو بنا سکتے ہیں؟ کیا ہم حسن کے متلاشی ہوتے ہیں یا اُس حسن کے جس کو میڈیا ’’منظور‘‘ کرے۔ چائے والے نے ہمیں اس اہم حقیقت کا ادراک تو دیا ہے۔
آج ہم آپ کو ایک ایسے چائے والے کی کہانی سنانے لگے ہیں جو ایک سرکاری کالج کی کینٹین پہ کام کر رہا ہے۔ بے حد حسین، نیلی آنکھیں، اور نہایت وضع قطع کا مالک۔ بشاشت اور رعب دار شخصیت____ وہ طلباء اور اساتذہ کے لئے صبح سے شام تک چائے بناتا اور اُن کی خدمت کرتا نظر آتا ہے۔ مگر ٹھہرئیے____ہم نے اُس کی کہانی سنانی ہے۔ اُس کی شخصیت تو تصاویر میں بھی آپ دیکھ رہے ہوں گے۔
اس نوجوان کا نام بلال ہے۔ کالج کینٹین میں گذشتہ چھ سال سے کام کر رہا ہے۔ اپنے مستقبل سے انجان ایک غریب لڑکا ہونے کے ناطے اُسے خبر ہی نہیں تھی کہ مستقبل اُسے خود بھی بنا سکتا ہے۔ جو کبھی مکمل اَن پڑھ لڑکا تھا___کالج کے ایک پروفیسر نے اُسے تعلیم حاصل کرنے کا کہا۔ وہ اپنے شوق کے ہاتھوں تعلیم کے گہرے سمندر میں اترنے کا فیصلہ کرتا ہے مگر اپنی غربت کی وجہ سے باقاعدہ پڑھنے سے معذرت خواہ ہی رہا۔ وقت گزرتا رہا۔ بلال ’’چائے والا‘‘ چائے کے ساتھ اپنی تقدیر بھی بناتا رہا۔
حتیٰ کہ میٹرک کر گیا۔ اُس کے ایک ہاتھ میں کتاب ہوتی اور دوسرے میں وہ ٹرے ہوتا جس میں وہ طلباء کو چائے پیش کرتا۔ آسودہ حال طلباء کی اُس سے دوستی ہوجاتی۔ وہ اُن کے ذہنی معیار تک پہنچنے کی کوشش کرتا مگر جلد ایک چائے والا ہی رہ جاتا۔
اس نوجوان نے میٹرک کے بعد اُسی کالج میں کچھ پروفیسرز کی حوصلہ افزائی سے فرسٹ ائیر میں داخلہ لے لیا۔ اب اُس کا شیڈول ہوتا کہ سیدھا کلاس میں جاتا اور یونہی کلاس ختم ہوتی سیدھا کینٹین پہ چلا آتا۔ چائے بناتا اور دوڑ دوڑ کے گاہکوں کے کام کرتا۔ اس کے لئے کھیل، تفریح اب بھی ممنوع رہی۔ وہ روزانہ اپنی مالک کی جھڑکیاں بھی سنتا مگر چائے کے ساتھ ساتھ کتاب بھی اُس کا دوست بنتی گئی۔
یہ نوجوان جسے بلال کے نام سے لوگ جانتے ہیں۔ کیا اُس چائے والے کی طرح نہیں۔ کیا اس کی اہمیت صرف خوبصورتی ہے؟ نہیں___اس نوجوان نے اپنی صلاحیتوں کو بھرپور آزمایا اور اُس جال کو کاٹ دیا جس کو سماج نے اُس کے لیے بُنا تھا۔
بلال آج سیکنڈ ائیر کا ایک پڑھا لکھا طالب علم ہے۔ اپنے کالج کے نمایاں طلبا میں شمار ہوتا ہے۔ وہ اپنے گھر سے پڑھنے کے لیے نہیں آتا بلکہ کالج کینٹین سے اپنے مالک کی اجازت لے کر کلاس میں آتا ہے۔ بعض اوقات اُسے رش کی وجہ سے اپنی کلاس کو چھوڑنا بھی پڑتا ہے کیوں کہ اُس کا مالک ناراض ہوجاتا ہے۔
چائے والے ہمارے ارد گرد ہر طرف موجود ہیں۔ بہت سی بچیاں جن پر زمانہ اور حالات نے اتنے مہربان نہیں رہے، ذرا ایک نظر انہیں اپنے ارد گردڈھونڈیئے۔ شاید آپ کی نظر اُنہیں ماڈل نہیں تو ایک خوبصورت انسان ہی بنا دے۔ ظاہری حسن تو مل ہی جاتا ہے مگر اندر کا حسن بہت مشکل سے بنایا جاتا ہے۔ایسے چائے والے اپنے ظاہری حسن کے ساتھ اندر سے حسین بھی ہوتے ہیں۔