(تنویر احمد تہامی)
میرا نام تنویر ہے اور میں حیران و پریشان ہوں کہ اسلام کے نام لیوا اس قدر سطحی سوچ کا شکار کیوں ہو گئے ہیں. جزباتی نعروں اور جملوں کی زد میں آکر اپنا دامن کئی بار جلانے کے بعد بھی یہ بخار اترنے کا نام نہیں لیتا. حالانکہ ہم نے تو سیانوں سے سنا تھا کہ انسان چوٹ کھا کر سنبھل جاتا ہے. اب یا تو وہ سیانے نہیں تھے جنہوں نے یہ بات کہی یا پھر چوٹ ٹھیک سے لگی نہیں اور یا پھر وہ انسانوں والا معاملہ کچھ گڑبڑ معلوم پڑتا ہے.
ماضی میں ہم نے بلا سوچے سمجھے جہادِ افغانستان کو فرضِ عین جانا اور لاتعداد جانوں کا ضیاع کیا. مگر جب پانسا پلٹا اور آنکھیں کھلیں تو معاملہ ہی کچھ اور ہوگیا. پھر لگے ہمارے دانشور اور کچھ مولوی حضرات اس پہ اظہارِ افسوس کرنے کہ جناب ہمارا وہ فیصلہ غلط تھا. بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس دور میں جس کسی نے اس نام نہاد جہاد کی مخالفت کی، وہ متفقہ کافر ٹھہرا. سوال یہ ہے کہ جو لوگ اب اس جہاد کو اپنی غلطی کہہ رہے ہیں ان کا ایمان کس درجے پر فائز ہوگا؟ اور وہ “شہداء” کس کھاتے میں جائیں گے جنکو بتایا گیا تھا کہ جنت میں حوریں انکی منتظر ہیں؟
آج بھی ویسی ہی کچھ صورتِ حال درپیش ہے. آنکھیں بند کیے تشدد کی حمایت کرنے والا سچا مومن اور سوال اٹھانے والا بدترین کافر. سوشل میڈیا پر آکر اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لانے والا اور اسکا اعلان کرنے والا انبیاء کا وارث اور ایسا نہ کرنے والا شیطان و حوارین کا چیلا.
سوشل میڈیا پر اکثر ٹرینڈز چلتے رہتے ہیں اور لوگ اس میں حصہ لے کر اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے ہیں. اس میں کوئی مضائقہ بھی تو نہیں ہے. مگر اسی سوشل میڈیا پر آکر اسی کی بندش کی تحریک اور ٹرینڈ چلانا سمجھ سے بالاتر ہے. اگر آپکو سوشل میڈیا پر موجود کسی مواد سے اختلاف ہے یا اور آگے چلئے آپکو سوشل میڈیا ہی سے اختلاف ہے تو صاحب میں آپکی مشکل آسان کیے دیتا ہوں. ہر سوشل سائٹ پر اکاؤنٹ ڈی ایکٹیویٹ کرنے کا ایک آپشن ہوتا ہے، وہ منتخب کیجئے اور لیجئے آپ دنیا کی خرافات سے محفوظ ہو گئے. اب نہ تو کوئی آپکی دل آزاری کرے گا اور نہ کسی کی جرأت ہوگی کہ آپکے نظریات پر سوال اٹھا سکے. آپ بلا وجہ پریشان ہوکر بال سفید کر رہے تھے.
کچھ تو آنکھیں کھولیے، پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد سمجھنے کی بجائے ہم اندھادھند مزہبی شرپسندوں کے پیچھے چل پڑے ہیں. آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمت کا سرچشمہ ہیں اور انکی امت ہونے کے ناطے ہمیں بھی رحم اور احسان کی تصویر ہونا چاہیئے. میرے آقا نے تو ظالم نظاموں کو چیلنج کیا تھا. آپ نے تو اسلام کا ایسا نظام قائم کر کے دکھایا کہ اس نظام کی معاشیات، سیاسیات، عدالت اور عمرانیات نے انسانیت کو ترقی کی راہوں پہ گامزن کیا. مگر آج ہمارا مزہبی نمائندہ سیاست کو حرام قرار دیتا ہے، معاشیات کو حبِ دنیا کہہ کر رد کرتا ہے جس کے نتیجے میں میکاولی کا نظامِ سیاست اور ایڈم سمتھ کا بدنامِ زمانہ نظامِ معیشت ہمارا مقدر ٹھہرا. انسانی رویے انہی دو نظاموں کے زیرِاثر پروان چڑھتے ہیں. ان تشدد پسندانہ اور استحصالی نظاموں کی بربادی کی بجائے ہماری کوششیں سوشل میڈیا کو بند کروانے میں صرف ہو رہی ہیں اور اوپر سے دعوا ہے کہ ہم عاشقِ رسول ہیں سبحان اللہ.
یوٹیوب کو بند کیا گیا اور پھر کھول دیا گیا. تو کیا گستاخانہ مواد ہٹا دیا گیا تھا؟ اور اب جبکہ یہ سوشل میڈیا والا معاملہ چل نکلا ہے تو اس کا انجام بھی ایسا ہی ہوگا. اگر کار میں سواری سے حادثہ ہو جائے تو کار پر پابندی لگانا کہاں کی دانشمندی ہے؟ جو گستاخانہ پیجز فیسبک پر چل رہے ہیں انہیں ٹریس کیا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے. یہ کیا بات ہوئی کہ جی ہم فیسبک بند کروا دیں گے.
اکیسویں صدی چل رہی ہے جناب کچھ تو ہوش کے ناخن لیجئے. سطحی مسائل پر ہلکان ہونے کی بجائے اصل مسائل کے حل کی طرف آئیے.