(تنویر احمد ملک)
مئی 1966میں کراچی میں قومی اسمبلی کی ایک نشست پر ضمنی الیکشن کا انعقاد ہوا۔ بابائے بلوچستان سے شہرت پانے والے میر غو ث بخش بزنجو مرحوم نے اس ضمنی الیکشن میں حصہ لیا۔ اس ضمنی الیکشن کا نتیجہ کیا رہا اس سے پہلے میر غوث بخش بزنجو نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا۔ اپنی آپ بیتی میں جو بی۔ ایم ۔کٹی نے سپرد قلم کی میں میر صاحب اس خواب کے بارے میں لکھتے ہیں ’’یہ ایک وسیع و عریض جگہ تھی جس پر گورنر ہاؤس پنجاب کا گمان ہو تا تھا۔ میں نے گورنر مغربی پاکستان نواب کالا باغ کو اپنی جانب آتے دیکھا۔ اسی دوران ایک ملازم کا نواب صاحب کے پاس سے گزر ہوا جس نے اپنے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی ٹوکری میں کچھ پھل رکھے ہوئے تھے۔مجھے ایسے محسوس ہوا کہ اس پھل پر زہر چھڑکا ہوا ہے او ر یہ عطا اللہ مینگل کو کھلائے جائیں گے جو اردگرد میں کہیں قید تھے۔مجھے اس پر فکر دامن گیر ہوئی لیکن میں اسے روکنے سے قاصر تھا۔مجھے لگتا تھا کہ یہ پھل عطا اللہ مینگل کو مارنے کے لئے اسے کھلائے جائیں گے۔جیسے ہی اس ملازم کا گزر نواب آف کالا باغ کے پاس سے ہوا نواب صاحب ٹوکری میں سے ایک پھل اٹھاتے ہیں اور اسے کھا لیتے ہیں۔میں یہ دیکھ کر لرز گیا کہ نواب صاحب نے یہ پھل کھا لیا ہے جس پر زہر چھڑکا ہوا ہے۔ اگر نواب صاحب کی اس پھل کو کھانے سے موت واقع ہوئی تو مجھے اس کے لئے مورد الزام ٹھہرایا جائے گا ۔اسی وقت میری آنکھ کھل گئی‘‘۔
اب کراچی میں قومی اسمبلی کی نشست پر ہونے والے ضمنی الیکشن کی جانب موضوع سخن موڑتے ہیں۔میر غوث بخش بزنجو نے 1964میں ہونے والے انتخابات میں بلوچستان میں قلات کے حلقے سے حصہ لیا اور شکست سے دوچار ہوئے۔میر صاحب کے بقول نواب کالا باغ نے جنرل ایوب خان کے احکامات پر حکومتی مشینری کے مداخلت کے ذریعے ان کے حریف سردار دودا خان کو کامیابی سے ہم کنار کر ایا تھا۔میر غو ث بخش بزنجو کو جب کراچی میں ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے راضی کیا گیا تو محمود ہارون جنہوں نے یہ نشست خالی کی تھی لاہور سے کراچی آئے اور انہیں اپنی تائید و حمایت کا یقین دلا یا ۔
محمود ہارون ایوب خان کے عہد میں مغربی پاکستان کابینہ میں بطور وزیر لئے جانے کے بعد اس نشست سے دست بردار ہوئے۔ ایوب خان نے اس نشست پر کنونشن مسلم لیگ کا ٹکٹ اپنے ایک مصاحب خان بہادر حبیب اللہ پراچہ کو دیا۔پراچہ اور نواب کالا باغ پرانے حریف تھے۔ ایوب خان پراچہ کو ہر قیمت پر جتوانا چاہتے تھے ، دوسر ی جانب نواب کالا باغ تمام نتائج سے بے پرواہ ہو کر ایوب خان کے اس مصاحب کو شکست سے دوچار دیکھنا چاہتے تھے۔محمود ہارون ایوب خان کی وزارت میں رہنے کے باوجود پراچہ کی شکست کے خواہاں تھے کیونکہ یہ ان کی آبائی نشست تھی جہاں سے ان کے والد سر عبدا اللہ ہارون بھی منتخب ہوئے تھے جسے وہ کسی صورت کسی ایسے ہاتھ میں دینے سے گریزاں تھے جو کل کلا ں ان کی لئے سیاسی مشکلات پیدا کرے ۔محمود ہارون نے جب میر غو ث بخش بزنجو کو انتخابات لڑنے کے لئے راضی کیا تو میر صاحب نے نواب آف کالا باغ کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا جنہوں نے قلات کے حلقے میں انہیں ہرانے کے لئے حکومتی مشینری کا سہار ا لیا تھا۔محمود ہارون فوراً لاہور گئے اور دوسرے دن واپس آکر میر صاحب کو بتا یا کہ نواب کالا باغ نے یقین دلا یا کہ اس بار حکومتی مشینری کو کسی صورت ضمنی انتخاب میں دخل نہیں دینے دیں گے۔میر صاحب اس یقین دہانی پر انتخاب لڑنے پر راضی ہوئے ۔
ایوب خان کا امیدوار دولت کے سہارے ووٹ خریدنے کی استطاعت رکھتا تھا اور ایوب خان کی آشیرباد نے اس کے لئے مزید انتخاب جیتنے کو آسان بنا رکھا تھا لیکن وہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ درپردہ کیا منصوبہ کار فرما ہے۔پولنگ پر امن طریقے سے منعقد ہوئی۔نتائج کے مطابق ایوب خان کا امیدوار میر غو ث بخش بزنجو کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوا جس کا شمار ایوب خان کے سخت ترین حریفوں میں ہوتا تھا۔ایوب خا ن نے اس شکست پر سیخ پا ہو کر محمود ہارون اور جام آف لسبیلہ کو کابینہ سے بے دخل کیا جو میر صاحب کی درپردہ حمایت کر رہے تھے۔ ایوب خان کے اندر شکست کی وجہ سے غم و غصے کی جو آندھیاں چل رہی تھیں اس نے آخر کار 18 ستمبر 1966 کواس وقت غیض و غضب کی صورت اختیار کر لی جب طاقت ور گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ کو گورنری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ گورنری سے سبکدوش ہونے کے ایک سال کے اندر ہی نواب آف کالا باغ ایک دن اپنے بیڈ روم میں مردہ پائے گئے جس کا الزام ان کے بیٹوں پر لگا۔نواب آف کالا باغ کیوں اور کیسے قتل ہوئے اس پر پر اسراریت کی گہری تہیں جمی ہوئی ہیں لیکن میر صاحب کے خواب کی ایسی تلخ تعبیر ہو گی خود میر صاحب کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔