(عتیق الرحمن)
اردو دان طبقے کیلئے صحافت کوئی نئی چیز نہیں۔بر صغیر میں اردو صحا فت کا آغاز۱۸۲۲ میں کلکتّہ سے ہری ہردتّہ نے اردو کا پہلا اخبار ’’جام جہاں نما ‘‘ چھاپ کر کیا ۔ اس شعبے کے خدوخال بتدریج واضح ہوتے گئے اور یہ ایک با قا عدہ پر و فیشن کی شکل اختیار کر گیا۔ پر نٹ میڈ یا کے ہم رکاب الیکٹرونک میڈیا کے فرائض ریڈ یو نے ادا کیے۔ پرنٹ میڈیا کے بر عکس الیکٹر ونک میڈیا نا خواندہ طبقات میں بھی یکساں طور پر مقبول ہورہاتھا۔ یہ دور ذرائع ابلا غ کی تر قی اور زبان وادب کا عہد زرّیں تھا۔ ادب کے معمار اخبارات ، جرا ئد اور ریڈ یو سے وابستہ تھے۔ ان مراکز کی حیثیت ادبی نشست گا ہوں سی تھی۔ کہیں کہیں یہ روایت اب بھی زندہ ہے ۔زبان وادب تنقیدوتحقیق ، تراجم اور نظریاتی مبا حث ان نشستوں کا طّرہ امتیا زہے۔
نو تشکیل شدہ ریاست میں ذرا ئع ابلا غ اور انکی ذمہ داریوں میں روز افزوں اضا فہ ہو رہاتھا۔ سرکاری ذرائع ابلا غ کو وافر مراعات حاصل تھیں جبکہ آزاد ذرائع ابلاغ کیلئے عظیم تر قومی مفادا ت کے نام پر تر قی کے راستے مفقود کر دیے گئے۔ عسکر ی حکومتوں میں ریاستی اداروں کے جبرو استبداد کو مہمیز ملتی۔ سنسر شپ جبری ریٹا ئر منٹ ، زبانی حکم نامے۔ مخالفانہ تعصبات، قید و بند ،نیو ز پر نٹ، اشتہارات ،اخبارات کی بندش، من مانے افراد کی اجارہ داری، اپوزیشن کی کوریج پر پابند ی جیسے آمرانہ ہتھکنڈے استعما ل کیے جاتے ۔ ایسے معاندانہ ما حول میں اظہار رائے کی جدوجہد اہل صحافت کا تاریخی اعزاز ہے۔قو می شعو ر کی تشکیل ، سماجی آگاہی تحر یک بحالی جمہوریت (M.R.D) سنسر شپ، ہنگامی حالتوں کے خاتمے ، تحریک بحالی عدلیہ ، انسانی حقوق ، آزاد ذرائع ابلاغ کا قیام، جیسے مراحل میں صحا فی حلقوں اور آزاد میڈیا کا کردار قابل تحسین ہے۔
جن لو گوں نے پی ٹی وی کی بنیادیں استوار کیں ان میں سے اکثر ریڈ یو پا کستان سے وابستہ تھے۔ سرکاری ادارہ ہونے کے باوجود اس میں ابلا غیا ت کی مضبوط روایات اور معیارات قا ئم تھے۔ لب و لہجے کی شائستگی ، نشست و بر خاست ، زبان و بیاں ، تلفظ اور مخارجات کی نفا ست کا خصو صی خیال رکھا جاتا۔ تہذیب و اخلا ق کی پاسداری کی جاتی کسی موضوع پر مذاکر ہ ہوتا تو سینئر تر ین شخصیات کو مدعو کیا جاتا۔اسا تذ ہ کو تر جیح دی جاتی ہنگامی خبریں اور حقیقت فہمی کیلئے عوام کو ایرا نی، روسی ، برطانوی ، ہندوستانی اور امریکی نیوز بلیٹن کا انتظار کر نا پڑ تا۔
عالمی تبدیلیوں کے زیر اثر ذرائع ابلا غ کی آزادی کا چلن ہوا تو یکایک بہت سے اخبارات، جرائد ، ریڈیو اور ٹی وی چینلز میدان میں اتر آئے ۔ انکی تعداد سینکڑ و ں سے تجاوزکر گئی۔ بر قی ابلا غیات کی چکا چوند اور اثر پذیری دیکھتے ہوئے سر مایہ کا ر اس اکھاڑے میں کود پڑ ے ۔ محترم جاوید جبار نے بجا فرمایا ’’ میڈیا جوہر ی ہتھیاروں سے زیادہ طا قتور ہے‘‘۔ یہاں تک کہ عالمی خبر رساں اداروں بی بی سی اور الجزیرہ ٹی وی نے بھی اردو ٹی وی نیوز چینلز کی منصوبہ بند ی کا اعلان کر دیا۔ مہم جو اس شعبے کی مراعات، ایوان اقتدار تک رسائی قابل رشک مشا ہرے ، مقبو لیت اور سفارتی رابطوں کیلئے نکل کھڑے ہوئے غیر تر بیت یافتہ عملے کی بھر ما ر ہوئی ۔ مسابقت اور رقابت کی فضا میں صحافتی اقدار نظر اندازہوئیں۔
تہذیب شا ئستگی اور وضع داری کو سبھی قو موں ، معاشروں اور پیشوں میں یکساں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ذرا ئع ابلا غ میں توازن اور اعتدال میں تبدیلی کو فوری محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ذرا ئع ابلا غ نے زرق بر ق لبا س تراش خراش، پر شکوہ ماحول حسن وجمال ، اور فنی تکنیک پر زور دیا ۔ جتنی توجہ انگر یزی زبان پر دی گئی اس سے آدھی محنت سے اردو سنور سکتی تھی۔ اہل زبان طبقہ ’’ش ‘‘ ’’ق ‘‘ کی درستی پر ڈٹا رہتا ہے ۔ یہاں ۔ ’’ذ‘‘ ’’ز‘‘ کا مسئلہ بھی شامل ہو گیا۔چلتے چلتے خبروں کے foot note دیکھیں تو املاء غلط ہوتاہے۔ عجیب و غریب اردو پڑ ھنے کو ملتی ہے۔ اشعاربے وزن لکھے پڑ ھے جاتے ہیں خدارا اردو زبان کی حر مت کا خیال کیا جائے۔ نئی نسل کو کیا پیغام ملے گا؟۔ اردو مراکز کیا محسوس کر تے ہونگے؟۔سابقہ مسائل و سائل کی کمی اور پابند یوں سے جنم لیتے تھے موجودہ مسائل وسائل کی زیادتی اور آزادی کے غلط استعمال سے پیدا ہورہے ہیں۔کیاپیش کاروں کے لیے خام جدید یت اور مغر بی تقلید سب کچھ ہے؟۔
براڈ کاسٹنگ میڈیا کی خو ش بختی کہیے کہ انھیں ضیا ء محی الدین ، لئیق احمد افتخار عارف، کنول نصیر ، ناہیدہ بشیر ، شمیم اعجاز ، شکیل احمد ، طارق عزیز ، انور بہزاد ، ثریاشہاب ، مہ پارہ صفدر ، قریش پور، شائستہ زید اور اظہر لودھی جیسی قد آور شخصیت میسر تھیں ۔ وطن عزیز کے اکثر نیوز کاسٹر بعد ازاں عالمی نشر یاتی اداروں نے منتخب کیے۔ یہاں ہالی ووڈ سٹاررول ما ڈل ہیں۔ایسے رجحا نات اکابر کی اعلیٰ روایات و افکار کا تمسخر ہیں۔
پی ٹی وی کی یکسا نیت سے بیزاری ، انفارمیشن ٹیکنا لو جی کی یلغا ر امریکی دباؤ مقبو لیت کا حصول جمہوری آزادی اور سر مائے کی فرا و انی نے برقی ابلا غیات خصوصاً نیوز چینلزکو کرشماتی طور پر شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا۔ شعبہ صحافت کی دہائیوں کی محنت کے ثمرات نو وار دین کی جھو لی میں آگر ے ۔ ریڈیو اور اخبارات کی مقبولیت ٹی وی کے حصے میں آ گئی ۔ پر ائیویٹ چینلز پر پہلی بار عوام نے اپنے محبو ب صحا فیوں کو دیکھا جو مارشل لاء کے اندھیرے میں گم کر دیے گئے تھے ۔ صحافت اور تجارت مترادفات بن گئے ۔ نظر یاتی ادارے تجارتی روپ میں سنجیدہ فکر طبقا ت کیلئے با عث حیرت تھے۔یوں محسوس ہوتا ہے اشتہار بازی نے صحافت پر غلبہ پالیا ہے۔ منڈی کی معیشت اور جدید نو آبادیاتی نظام کے اثرات واضح تھے۔ بطور ایک صنعت کے جر نلزم عجیب محسوس ہورہا تھا بھلے یہ اسکا حق بھی تھا۔۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۷ تک کے پانچ سالوں میں میڈ یا انڈ سٹری کے خالص منا فع میں سا ڑھے آٹھ گنا اضافہ ہوا ۔صحافی دشمن رویے میں پاکستان خانہ جنگی سے متا ثرہ ملکوں عراق اور افغانستان کے ہمراہ دنیا کے پہلے دس ملکوں میں شامل ہے۔ جبکہ اظہاررائے پر پابندیوں کے نقطہ نظر سے اس کا درجہ ایک سو چو نتیسواں ہے۔ ان ہو ش ربا انکشافات کے با وجود وطن عزیز ذرائع ابلاغ کی جنت اور نو جوانوں نسل کا محبوب تر ین کیر ئیر ثا بت ہوا۔ ابلاغ عا مہ کی بہت سی معروف شخصیات اپنے پیشے چھوڑ کر اس انڈسٹری میں آئیں۔ عوامی مقبو لیت ، جمالیاتی تنوّع ، معاشی تکینیکی اور فنی ارتقا ء واضح طور پر نکھر ے لیکن معیارات میں اس سطح کی ترقی دیکھنے میں نہیں آئی جسکی تو قع کی جارہی تھی۔ نظر یاتی اور فکر ی صحا فت کے عا دی دانشور طبقا ت کو یہ تبدیلیاں ہضم نہیں ہو رہی تھیں ۔جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہنگامہ خیزی ایک نا پا ئیدار روّیہ ہے اور استقلال فقط سنجید گی کو حاصل ہے۔
مبا لغہ آمیزی ، سنسنی خیزی ، افوا ہ سازی ، ہیجا ن انگیزی ، شد ت پسندی ، فحا شی منفی پراپیگنڈہ کو اخلا قی حدودسے تجاوز نہیں کر نا چا ہیے۔یہ رویّے سر ا سر زرد صحافت کے ذیل میں آ تے ہیں۔ کسی میڈیا گروپ کی پالیسی اور ایجنڈ ا اس کامتحمل نہیں ہو سکتا۔جمہوریت ،آزا دذرائع ابلاغ اور انسانی حقو ق جیسے دعوے مہذب ملکوں میں بھی کھوکھلے ثابت ہوتے ہیں۔ نسلی اور مذہبی تعصبات وہاں بھی موجود ہیں۔ عراق ، افغان ، بوسنیا ، اورچیچن جنگو ں میں انکی جانبداری انکے بھیا نک چہروں کو چھپانے سے قاصر رہی۔سو پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملکوں میں جہاں کمزورجمہوری حکومتیں اسٹیبلشمنٹ کے ترجمان کا فر یضہ ادا کر تی ہے۔ یہ وسعت قلبی عارضی ثابت ہوتی ہے۔ مقام افسوس کہ سماج سدھار کا فریضہ ادا کرنے والا ریاست کا چو تھا ستون اپنے ضمیر اور داخلی شعوری تنقید نگار کو سننے کیلئے تیار نہیں ۔یہ قومی سطح کا مسئلہ ہے جسکا حل ضروری ہے۔
عصری اعتبار سے رائے عامہ کا مؤاثر ترین ذریعہ ٹی وی اپنی ذمہ داریوں سے غا فل نظر آتا ہے۔ مسلمہ سا ئنسی تحقیق کے مطابق ٹیلیویژن با لواسطہ تعلیم و تربیت کا اہم ترین میڈیم ہے۔ مہذ ب ملکوں نے اس کی وسا طت سے انقلا بات بر پا کیے ۔ اطلاعات تعلیم اور تفریح کی ابلا غیاتی مثلث میں سے فقط تفریح عوام تک پہنچ رہی ہے۔ دیگر ممالک میں اس رویّے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
دنیا سکٹر رہی ہے اور کا ئنا ت پھیل رہی ہے سیا ست اور فقط سیا ست میڈیا کے حواس پر چھائی رہتی ہے۔ حالا نکہ ’’سیاسی صحافت ‘‘میڈیا کی بیسیوں جدید قسموں میں سے ایک عام صنف ہے۔ گو یا یہاں کوئی دوسرا مسئلہ نہیں ۔ سیا سی مذاکر ے مبا حثے اور مناظرے ہمہ وقت منظر پر رہتے ہیں ان میں سوائے پگڑی اچھالنے کے اور کچھ نہیں ۔ اس ڈرامائی فضا سے کیا بہتری مقصود ہو سکتی ہے؟۔ ایک پروگرام میں محترمہ وینا ملک سے مفتی عبدالقوی صاحب کا منا ظر ہ کرایا گیا۔ فر ط جذ بات یا سکرپٹ کی مجبوری مولا نا صاحب نے جھٹ سے کفر کا فتویٰ صادر فر ما دیا۔ جو ملی اور قومی حمیت کا مذاق اور جگ ہنسائی کا مو جب بنا ۔درحقیقت اس واقع کو نظر انداز کر نا کہیں بہتر تھا۔ افسوس یہ پر و گرام ملکی میڈیا کا مقبو ل ترین پرو گرام تھا۔ دوسری مثال کسی کی حقیقی صا حبزادی سے بے حرمتی کے واقعے کی ہے۔ جسے ایک فا ضل چینل مسلسل دکھائے چلاگیا۔ جر م و سزا پر مبنی پر و گرام جن میں وا ردات کی منصو بہ بندی دوبارہ عکس بند کی جا تی ہے پھا نسی ، قتل ، فا ئر نگ اور عصمت دری خشوع و خضو ع سے دکھا ئی جاتی ہے۔ اس سے بچوں کی ذہنیت اور تربیت متاثر ہو تی ہے۔ مقا بلتاً بہت سے ملکوں میں کھلو نا پستول پر بھی پابندی ہے۔ مزید برآں ایسے پر و گرام جرائم پیشہ افراد کو نت نئے طریقے سجھا تے ہیں۔اس خرابے میں سب سے اہم سانحہ ریاض ملک کا ہے جس نے میڈ یا کی ساکھ کو زوال سے انہدام تک پہنچانے کا فریضہ ادا کیا۔
دیوار و در پہ رینگتی خبروں کے باوجود
کوئی خبر نہیں ہے خبر کر رہا ہوں میں
مقصود وفا
سوال یہ ہے کہ مشرقی سماج اسلامی اقدار اور مشترکہ خا ندانی نظام جہاں ایک گھر میں عموماً ایک ٹی وی سیٹ چلتا ہے۔ کیا اثرات مر تب ہونگے؟۔ یہ چینلز اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہیں کہ اسّی لا کھ ٹی وی کنکشن صرف کیبل نیٹ ورکس سے منسلک ہیں دیگر ذرائع سیٹلائیٹ ڈِش، روایتی انٹینا ، انٹر نیٹ وغیرہا اسکے علاوہ ہیں۔
یہاں ایک نئی بحث کا آغازہوتا ہے کیا میڈیا وہ کچھ دکھا رہا ہے ۔ جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں یا جو میڈیا دکھا رہا ہے، عوام وہی کچھ دیکھتے ہیں؟۔عوام کی پہلے کونسی سنی جارہی ہے جو نشریات ان کی مرضی کے طا بع کردی جاتی ہیں۔مقبولیت کے تعا قب میں یا عوامی دلچسپی میں میڈیا کہاں تک سفرکر یگا ؟۔ عوا م تو منشیات کو بھی پسند کر تے ہیں کہیں نہ کہیں تو یہ سو چنا ہو گا کہ انسانیت کے تقاضے کیا ہیں؟۔ عوام کی دلچسپیاں غیر سنجیدہ بھی ہو سکتی ہیں۔ مجمع کی نفسیات بے حسی ہو تی ہے ۔میڈیا ان میں شعور وآگاہی کا سرخیل ہے اس لیے اسے ہی آگے بڑ ھنا ہوگا۔چندایسے پروگرام سارے براڈ کاسٹنگ میڈیاکی اچھا ئیوں پر پر دہ ڈال دیتے ۔ الیکٹرونک میڈ یا پر بے شمار مسائل اجاگر ہوئے جنھیں فوری طور پر حل کیا گیا ۔ ان میں ایک متواتر مثال سفید پو ش مریضوں کی ہے جنکی بے بسی کی روداد نشر ہوئی تو ان کیلئے اسباب و وسائل خود بخود پہنچے ۔آزادی اظہار کی تاریخ گواہ ہے کہ اس تحریک میں وکلا ء ، اہل قلم ، فنکا ر طلبا ء ، سیاسی کارکن ، سول سو سائٹی ، مزدور لیڈ ر اور دیگر روشن خیال طبقے صحافی برداری کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ سو ابلا غیاتی انقلاب کو سب سے مل کرلطف اندوز ہو نا چاہیے۔ نعمتوں کا متوازن استعمال انکی بھر پور افا دیت اور ترقی کا مظہر ہے۔ بقول جناب ولادی میر لینن ’’ آزادی اس قدر قیمتی اثاثہ ہے کہ اسے ہر کس و نا کس کو فرا وانی سے نہیں دیا جاسکتا‘‘۔
تاریخی جد لیا ت اور ارتقا ء سے سیاست ، سماج اور معیشت میں جو بہتری آئی ہے اسے مزید مستحکم کیا جا نا چاہیے۔دنیا کی تمام جنگیں حقوق کے نام پر لڑی گئیں فرائض کی ذمہ داری کسی نے نہیں لی۔ فرائض کی ادائیگی مکمل ہو جائے توحقوق کی کشمکش خود بخو دختم ہو جاتی ہے۔قو می تقاضا تو یہ ہے کہ ملک کو توانا ئی کے بحران سے نکالا جائے جو ترقی کیلئے سر طان بنا ہواہے۔ میڈیا اس پر مباحثے سیمنیا ر کرائے جن میں عالمی سطح کے ماہرین سے رجوع کیا جائے ۔ حتمی اور ٹھوس سفارشات مرتب کی جائیں ۔ تاکہ اس کی افا دیت سے قوم فیض یاب ہو۔ بین الاقوامی موضو عات جن سے قومی مفادات بر اہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ جیسے کشمیر پالیسی ، معیشت و تجارت جو ہری ٹیکنا لوجی ، امن عالم، دفاعی معاہدے دہشت گردی آ بی وسائل کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حقیقی اور سنجیدہ مسائل حل کیے جائیں مکالمے کی فضا اور برداشت کا کلچر عام کیا جائے دنیا بھر میں پاکستان کے مجروح تشخص کو مزید مسخ ہونے سے بچا یا جائے جو محب وطن عوام اور تارکین وطن کا انتہائی حساس پہلو ہے۔ بیروزگاری ، بیماری،قیادت کابحران غر بت،لوڈ شیڈنگ ،عدم تحفظ ،دہشت گردی ،بم دھماکوں ،خود کشیوں اور ما یوسی میں الجھی قوم کو کم از کم خوشگوار امید دلا کر سرفرازی سے ہم کنار کیا جائے۔مایوس معاشرے کی نا اُمیدی میں شدت پیدا کر نا کیا کارِ مسیحائی ہے۔ کیا اس سماج میں کوئی اُمید افزاء پہلو نہیں جو زندگی کی خوبصورتیوں میں روانی پیدا کرے ۔