(نسیم سید)
پے رول کے ہندسے پر توجہ بکھیرے میں اپنے آفس میں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی تھی اور حسب عادت ریڈیو بھی دھیمی آواز میں لگایا ہوا تھا۔ ڈا کٹر لورا کا پروگرام دس بجے سے ایک بجے تک آتا ہے اور مجھے اس کا انتظار رہتا ہے کہ کب دس بجیں اور اس کا پروگرام شروع ہو۔ ڈا کٹر لورا ایک ماہر نفسیات ہے اور اس کا بےحد مقبول پروگرام صرف سوال و جواب پر مبنی ہے۔ اس کے پروگرام کے دوران اپنے مسائل بیان کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے، حالانکہ اس کے جوابات کی تیز دھار، سوال کرنے والے کو اکثر ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے اور سوال کر نے والا الٹا شرمندہ ہو جاتا ہے مگر مجال ہے وہ کسی سے مروت برت جائے۔ کبھی کبھی کسی سوال اور اس کے جواب میں ڈا کٹر لورا کا تین پھل کے تیر سا جواب۔۔۔ کلیجے میں در آنے والی لہجے کی روانی نہ صرف قہقہ لگانے پر مجبور کر دیتی ہے بلکہ انسانی رشتوں کے الجھاووں کو بڑی آسانی سے سلجھاتی بھی جاتی ہے۔ اس کے پروگرام کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس کا وقت پہلے ایک گھنٹہ تھا اب تیں گھنٹے کر دیا گیا ہے۔
میں اس وقت پےرول بنانے میں ایسی الجھی ہوئی تھی کہ اس کی آواز پر دھیان نہیں دے رہی تھی۔ مگر اس سوال نے میری توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ ’’ ڈا کٹر لورا، میں ایک خاصی خوبصورت لڑکی ہوں۔ فیگر بھی میری بہت خوبصورت ہے، مگر میری ناک بہت لمبی ہے جس کی وجہ سے میں بری طرح احساس کمتری میں مبتلا ہوں۔ ڈاکٹر لورا نے بات کاٹی
oh! poor you
بو لنے والی کا دل بڑھ گیا اور لورا کی ہمدردی کے خیال سے آواز ذرا درد ناک ہو گئی۔’’مگر میرے شوہر کو میری شخصیت کی اس بربادی کی ذرا بھی پروا نہیں، میں اپنی ناک کی کاسمیٹک سرجری کرانا چاہتی ہوں، اور وہ مسلسل مخالفت کر رہا ہے۔ یہ میرا جسم ہے، جس پر وہ اپنا حق جتا رہا ہے ایسے انسان کے ساتھ میں پوری زندگی کیسے گزاروں گی۔ میں کیا کروں، کیا طلاق لے لوں؟ ڈا کٹر لورا بتائیں میں کیا کروں؟
ڈاکٹر لورا کے جواب پر میں حیران رہ گئی”سوچو نہیں، بلکہ آ ج ہی اس سے طلاق لے لو۔” اس جواب کی تو قع مجھے ڈاکٹر لورا سے نہیں تھی یہ آ ج اسے کیا ہوگیا ہے مگر اس کے اگلے جملے نے قہقہ لگانے پر مجبور کر دیاـ “اس بے چا رے کے حق میں یہی بہتر ہے۔” اب وہ اپنے مخصوص انداز میں مخاطب تھی۔’’ وہ اس مخالفت سے تمہیں یہ بتانا چاہ رہا ہے کہ اسے تم جیسی ہو، ویسی ہی عزیز ہو مع اپنی لمبی ناک کے ۔۔۔ اس کے لئے شاید شادی ایک کمٹمنٹ ہے، اور تمہارے لئے ایک عدد خو بصورت ناک۔ تو میرا بہت ہمدردانہ مشورہ ہے کہ اس بیچارے کی زندگی اور جیب دونوں پر رحم کرو اور جلد از جلد طلاق لے لو‘‘۔
ڈاکٹر لورا اس قدر صاف گو ہے اور شخصیوں کو ایسا آر پار دیکھ لیتی ہے ایک سیکنڈ میں کہ اس سے ایسے ہی جواب کی تو قع تھی مجھے۔ ابھی سوال و جواب کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک با ر پھر مجھے ایک سوال نے اپنی طرف متوجہ کر لیا ۔’’ میں شا دی شدہ ہوں ۔۔۔ میرا ایک سات سال کا بیٹا بھی ہے۔ مگر میری زندگی میں بہت سناٹا ہے۔ میری بیوی ایک بڑی فرم میں مینجنگ ڈائریکٹر ہے۔ وہ دن رات اپنے کام میں مصروف رہتی ہے۔ میرے لئے اس کے پاس وقت ہی نہیں۔ یا تو باہر ہو گی، اور گھر آئے گی تو بیٹے میں مصروف ہو جائے گی۔ ویک اینڈ پر اسے گھر کی صفائی یاد آ جاتی ہے۔ میری تنہائی مجھے دوسر ی لڑکی کی محبت میں مبتلا کر گئی۔
Now I feel like I am finding my self, am I being selfish?
ڈاکٹر لورا کسی سے مرّوت نہیں برّتتی بلکہ وہی کہتی ہے جو اس کے خیال میں درست ہو۔ لہٰذا وہ کورے لٹھے جیسے کھردرے لہجے میں مخاطب ہو ئی۔ ’’ یہ المیہ صرف تمہارا ہی نہیں، بلکہ آج کی نئی نسل کا المیہ یہی ہے اس جملے کی آڑ میں تم اپنے آپ سے جھوٹ بولتے ہو۔ تم ایک سات سال کے بچے، محنت کر نے والی بیوی کے ساتھ رہ کے خود کو دریافت نہیں کر پا رہے ہو، بلکہ یہ باور کرا رہے ہو خود کو کہ
You will find yourself in a new relationship, or with someone new in your bed
زندگی کے بعض مسائل ایسے ضرور ہیں کہ جب ہم انہیں خود سلجھا نہیں پاتے تب میرے جیسے کسی ایسے ماہر نفسیات کی ضرورت پڑتی ہے جو انسانی ذہن کی گھتیاں سلجھانے میں ایک عمر سے لگا ہو۔ مگر میں جب ایسا کوئی سوال سنتی ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ لو گ کس محنت سے اپنے لئے مسائل کھڑے کرتے ہیں۔ میں بس اتنا کہہ سکتی ہوں کہ آپ کے سوال کے جواب میں کہ ہم اپنے آپ کو اپنی کمنٹمنٹ میں دریافت کرتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو ان آنکھوں میں دریافت کرتے ہیں جو ہم پہ depend کر تی ہیں۔ ہم خودکو اپنے اندر کی سچائیو ں میں دریافت کرتے ہیں ـ‘‘
ڈاکٹر لورا کا جواب جاری تھا اور میں سو چ رہی تھی کہ اہم اور غیر اہم کی تعریف کس قدربدل گئی ہے:
I have to find myself نئی نسل کا ایک پسند یدہ جملہ ہے جو کہ میرے خیال میں ایک انتہائی بے معنی جملہ ہے گویا خو د کو پانے کے لئے پہلے خود کو کھونا ضروری ہے یا جہاں موجود ہیں وہاں سے سفر ضروری ہے یعنی۔
Some kind of cosmic lost and found
ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ ہمارا ایک دوسرے پر سے اعتماد دن بدن کم سے کمتر ہوتا جا رہا ہے اور سیلف سینٹرڈ لوگوں کی بھیڑ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ وہ رشتے جو یقین کے رشتے ہوا کرتے تھے ان کا بھروسہ ختم ہو رہا ہے اور اس کے سا تھ سا تھ ہمارے اندر کی تنہائی، اداسی، بے اعتباری بڑھ رہی ہے۔ میں، میر ی ذات، میری خوشی غرض کل کائنات اپنی ذات تک محدود ہورہی ہے دن بدن۔ مجھے حیرت ہے کہ جس انسان نے زندگی کے باقی شعبوں میں حیرت انگیر ترقی کی ہے وہ انسانی رشتوں کے باب میں آج بھی روز اول کے انسان کی جون میں ہی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی تعلقات اور رشتو ں کے باب میں اس قدر تحقیقیں نہیں ہوئیں، اور اگر ہوئیں تو ان کا اتنا ذکر نہیں ہوا اور انہیں اتنا عام فہم نہیں بنایا گیا جتنا ہونا چاہئے تھا۔ ہمارے تعلیمی نصابات میں نفسیات کا مضمون شامل ہوتا ہے۔ تجربہ گاہ میں یہ بھی دکھایا جاتا ہے کہ ایک چوہے کو اگر بار بار ایک کھڑکی میں الیکڑک شاک لگے تو وہ اس کھڑکی سے دور رہنا سیکھ جاتا ہے۔ جو کہ انسا ن ہو یا چوہا اس ایک فطری ردعمل کے سکھائے اور بتا ئے بغیر بھی سیکھ اور جا ن لیتا ہے۔
لیکن عملی زندگی میں اپنی ذات سے ذرا اونچا اٹھ کے دیکھنے کے لئے جس سوچ بچار اور تربیت ذات کی ضرورت ہے اس کی تربیت نہ تو درس گاہوں میں ملتی ہے نہ ہی ریڈیو، ٹی وی، اخبار، ادارے، اس موضو ع کو اہم اور مسلسل موضوع بناتے ہیں۔ میڈیا ذہنوں کی تربیت میں ایک بہت اہم رول ادا کرتا ہے۔ مغرب اس حقیقت سے واقف ہے اس لئے یہاں کے ریڈیو اور ٹی وی اپنی اس ذمہ دا ری کا فرض پوری طر ح ادا کر رہے ہیں مگر ہمارا پاکستا نی میڈیا ر یڈیو پر یا تو گانے سناتا ہے یا پھر آٹا چاول بیچتا ہے۔ دو مختلف روایات اور مختلف ماحولوں میں بڑھنے والی نسل دہرے مسائل سے دوچار ہے۔ ہمارے شہر مسی ساگا کی لڑکی اقصٰی کا افسوس ناک واقعہ، وہ واقعہ ہے جس سے بہت سے مسائل کی جڑیں پھوٹ رہی ہے ہیں۔ وہ بچی اپنے اسکو ل کے بچوں جیسی نظر آنا چاہتی تھی، سو اس کے باپ نے اپنی اٹھارہ سال کی لڑکی کا گلا گھونٹ کے اسے مار دیا۔ یہا ں بھی اور اپنے ملک میں بھی ا یسے ہی یا اس سے ملتے جلتے واقعات کی کمی نہیں۔ لیکن کیا یہ حیرانی کی بات نہیں کہ ان مسائل میں کمی آنے کے بجا ئے یہ دن بدن بڑہتے ہی جا رہے ہیں۔
ایک سروے کے مطابق یہاں آباد مسلمانوں میں اس وقت طلاق کی شرح ۴۳ فیصد ہے۔ یہ شر ح بہت پریشان کن ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے، میں نے بہت سی لڑکیوں اور لڑکوں کے اس حوا لے سے انٹرویو کئے۔ ان انٹرویوز سے بہت کچھ اندا زہ ہوتا ہے کہ یہ شرح اس قدر تیزی سے کیوں بڑ ھ رہی ہے۔ مگر کیونکہ اس قسم کی گفتگو کا ہمارے یہاں رواج نہیں، اس لئے مجھے ایسی تحریر پر داد مل جائے وہ اور با ت ہے۔ مگر بات اس سے آ گے بڑھے ایسا نہیں ہوتا۔
ٹورنٹو میں اس وقت ابھی تک کی اطلاع کے مطابق اٹھارہ اردو کے اخبار نکل رہے ہیں۔ جن میں بر سبیل تذکرہ خواتین کا بھی ایک صفحہ مخصوص ہوتا ہے اور خواتین کے اس مختصر سے صفحے کے دو ہی موضوعات ہیں۔’’پکوان‘‘ اور ’’بناو سنگھار۔‘‘ انگریزی کے رسالوں میں ایسے اشتہارات کی بھرمار ہے جو خواتین کو اوپر اوپر سے خوبصورت بناتے ہیں: فیشل ہفتے میں کتنی بار ہونا چاہیئے؟آئی بروز کیسی ہوں؟
face lift, nose job, breast implant, slim wrapاور نہ جا نے کیا کیا ۔غرض اشتہا را ت کی بھر مار ہے۔ بھرمار اس لئے کہ خوا تیں خوبصورت بننے کے شوق میں ان تما م کاروباریوں کو خوشحال بنارہی ہیں۔ وہ خوبصورت کیوں بننا چاہتی ہیں، اس کی بھی ایک قدیم تاریخ اور بڑا سب ہے۔ فلم ہو، اسٹیج ہو، عشق ہو، یا اپنے لئے انتخاب کا مرحلہ، ہر جگہ ظاہری حسن کا انتخاب اوّلیت بخشتا ہے عورت کو مر د کی نگا ہ میں۔ مرد خوبصورت عورت کو پسند کر تے ہیں اور کل سے لے کے آ ج تک کی ایک نگاہ مرد مومن کی تر سی بہت سی عور تیں اسی ’’ ڈیما نڈ اور سپلا ئی‘‘ کی ما ری ہیں۔ پورے خاندان کی سوجھ بوجھ کی ذمہ دار عورت کو پکوان اور بناو سنگھار کا صفحہ زندگی کےصفحات میں بھی دے دیا گیا ہے اور بہت سی خواتیں اسی میں مگن ہیں۔ ڈاکٹر لورا نے اپنے پروگرام میں ایک با ت کہی تھیgeneration gapکوئی نئی بات نہیں۔ لیکن اس کے جو انتہائی مناظر، جو بڑهتی ہوئی تنہائی، جو ٹوٹ پھوٹ، جو لاتعلقی نئی نسل میں نظر آ رہی ہے، وہ پریشان کن ہے۔ ہم اکثر بڑے موضوعات پر بات کرتے ہیں۔ ادبی تھیوریز، مغربی مفکرین، گائینو کریٹیسزم وغیرہ، وغیرہ، وہ بھی اہم ہیں۔ ان کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن و ہ مسائل جو شخصیت کو ہی اندر سے کھوکھلا کردیں وہ اہم ترین بھی ہیں اور لائق توجہ بھی۔ ہمیں اپنا نئے سرے سے جائزہ لینا ہوگا: یہ جا ئزہ لینا ہو گا کہ ہما رے اور ہماری نئی نسل کے درمیان جو فا صلہ بڑھ رہا ہے؛ ان کی ترجیحات اپنی ذات تک جو محدود ہوتی جارہی ہیں۔‘ اپنی ہی ذات کے خول میں بند ہوتی جا رہی ہیں؛ وہ جو خود کو اپنوں میں دریافت کرنے کے بجا ئے غیروں میں دریافت کر تے پھر تے ہیں اس ساری بے اعتباری، بے چینی کے اسباب کیا ہیں؟